تحریر: علی سردار سراج
شیخ صاحب بمعنی واقعی کلمہ امام صادق علیہ السلام کی اس حدیث کا مصداق تھے : العالِمُ بِزَمانِهِ ، لا تَهجُمُ علَيهِ اللَّوابِسُ:
جو اپنے زمانے کو سمجھے وہ غلطیوں کی زد میں نہیں ہوتا ہے ۔
اس کی بین دلیل ان کے بیانات کے ساتھ ان کی عملی سیرت ہے۔ اس حوالے سے مزید کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے، کیونکہ؛
آنچه که عیان است چه حاجت به بیان است ؟
شیخ صاحب طلاب کو تاکید فرماتے تھے کہ آپ یکسوئی کے ساتھ علم حاصل کریں ۔
وہ اکثر اس آیت کی تلاوت کرتے تھے:
(فَاخۡلَعۡ نَعۡلَیۡکَ ۚ اِنَّکَ بِالۡوَادِ الۡمُقَدَّسِ طُوًی
اپنی جوتیاں اتار دیں،بتحقیق آپ طویٰ کی مقدس وادی میں ہیں۔ )
کہ آپ لوگ(حصول علم کی) مقدس وادی میں ہو۔
لہذا اپنے آپ کو علم کے لئے خالص کرو اور اپنے ذہن کو دوسرے خیالات سے پاک کرو۔
ساتھ اس بات کا اضافہ کرتے تھے کہ آپ کا زمانہ علم کا زمانہ ہوگا، لوگ آپ سے علم سنیں گے اور علم کا مطالبہ کریں گے ،وہ اس بات پر شدید تاسف کا اظہار فرماتے تھے کہ،ہمارا زمانہ جہالت کا زمانہ ہے،منبروں سے جھل سنایا جاتا ہے اور لوگ جہالت کی داد دیتے ہیں ۔
یہ بات اس قدر حسرت سے بیان فرماتے تھے کہ ان کا پورا وجود اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ وہ کس قدر شدید کرب و اذیت سے گزر رہے ہیں، کئی سالوں کے بعد آج تھوڑا بہت احساس ہو رہا ہے کہ یہ کس قدر تکلیف کا مقام ہے کہ لوگوں کی عقلیں ان کی آنکھوں میں ہوں؟
لوگ عالم اور جاہل کے فرق کو نہ سمجھ سکیں، یہاں تک کہ عالم نما جاہلوں کی ظاہری شکل و صورت اور چرب زبانی سے متاثر ہو کر علماء کو ان کی طرح بننے کی نصیحتیں کریں،علماء گوشہ نشین ہو جائیں،!! اور علماء نما لوگ، عوام کے مال کے ساتھ ان کے ایمان پر بھی ڈاکہ ڈالیں ۔
انہیں اس بات پر شدید افسوس تھا کہ ہمارے منبروں کے علاوہ،ملک کے تعلیمی ادارے بھی جاہلوں کے ہاتھ میں ہیں ۔
وہ اکثر نقل کرتے تھے کہ: میں نے پشاور یونیورسٹی میں اسلام کے نظام اقتصاد پر ایک لیکچر دیا، درس کے بعد جب سوالات پوچھے گئے تو سب سے نا معقول سوال اس شخص کا تھا جو اس شعبے کا ہیڈ تھا:
اللہ تعالی نے انہیں بہت ساری صلاحیتوں سے نوازا تھا ،انہی صلاحیتوں میں ایک عمدہ صلاحیت جو نمایاں تھی، وہ انکی تجزبہ و تحلیل کی صلاحیت تھی۔
شیخ صاحب عام خطبا کی طرح آیات و روایات اور واقعات کو سنانے پر اکتفا نہیں کرتے تھے ۔ بلکہ ان کی علمی اور عقلی تحلیل بیان کرتے تھے، یہ روش اس قدر آشکار تھی کہ ہمارے ایک دوست نے شیخ صاحب کے درس اور ایک دوسرے استاد کے درس کے درمیان مقائسہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ: فلاں استاد کے درس پر اعتراض کریں تو گناہ ہے لیکن شیخ صاحب کے درس پر اعتراض کریں تو گناہ نہیں ہے، کیونکہ شیخ صاحب اپنی تحلیل پیش کرتے ہیں اور وہ استاد سیدھی سیدھی روایت سناتے ہیں ۔
قرآن کریم کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت موسی علیہ السلام اور جناب خضر کا واقعہ بیان کرنے لگے تو ایک استاد جن کو طلاب کے سوالات پر شکایت رہتی تھی، موقع غنیمت جان کر شیخ صاحب سے سوال کیا: کیا ہم اس واقعے سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ شاگرد کو استاد کی بات بلا چون و چرا قبول کرنی چاہئے؟
تو انہوں نے شدت کے ساتھ اس بات کو رد کیا اور فرمایا جب چیزوں کی علت معلوم نہ ہو تو انسان کو صبر نہیں آتا ہے ،چاہیے وہ موسی جیسا اولوالعزم نبی ہو۔
وہ ساتھ اس بات کی بھی تاکید فرماتے تھے کہ جہاں آپ سے کچھ پوچھا جائے اور آپ کو معلوم نہ ہو تو اپنی عدم آگاہی کا اظہار کرنے پر شرم محسوس نہ کرو۔ ایک دن ہم نے عملی طور پر مشاہدہ کیا جب ظہرین کی نماز پڑھ کر باہر نکل رہے تھے، ایک مومن نے شیخ صاحب سے پوچھا، شیخ صاحب سال کا سب سے بڑا دن کونسا ہے؟
شیخ صاحب نے اس قدر اونچی آواز میں فرمایا : مجھے نہیں معلوم،مجھے نہیں معلوم : حاضرین سب نے سن لیا۔
یقینا شیخ صاحب کا یہ عمل ایک فراموش نشدنی درس تھا، جو طلاب وہاں موجود تھے ان کو یاد ہوگا اور یاد رہے گا۔
ایک معمولی بات کی عدم آگاہی کا اس قدر واشگاف الفاظ میں اظہار، انسان کو بہت کچھ سیکھاتا ہے۔
اکثر ہم دینی طلاب کی ایک مشکل یہی ہوتی ہے کہ ہم” لا أدري “کی اخلاقی جرات نہیں رکھتے ہیں،اور عملا اپنے آپ کو سلونی،سلونی کا دعویدار سمجھتے ہیں، یہی وہ موقعہ ہوتا ہے جہاں انسان پھسل جاتا ہے۔
چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا؛
مَنْ تَرَكَ قَوْلَ: لَاۤ اَدْرِیْ،اُصِیْبَتْ مَقَاتِلُهٗ.
جس کی زبان پر کبھی یہ جملہ نہ آئے کہ: ’’میں نہیں جانتا‘‘ تو وہ چوٹ کھانے کی جگہوں پر چوٹ کھا کر رہتا ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔