تحریر: علی سردار سراج
مدت مدید سے حوزہ ہائے علمیہ اور دینی شخصیات سے آشنایی کے باوجود وہ نقوش جو اپنی دینی تعلیم کے ابتدائی سالوں میں ذہن پر نقش ہوئے وہ زندگی کے سرمائے کے طور پر ابھی تک باقی ہیں ۔
میں اللہ تعالی کا اس بات پر شکر گزار ہوں کہ جب، زندگی کے ایک ہیجانی دور سے گزر رہا تھا اور دین کے بارے میں کچھ ناقص تصورات نیز پاکستانی مسلم معاشر کی زبوں حالی کے مشاہدے سے بہت سارے شکوک و شبہات دین کے متعلق میرے نا پختہ ذہن میں جنم لے رہے تھے ۔
ان میں سے کچھ ایسےشبہات بھی میرے ذہن میں خلجان اور تردد ایجاد کر رہےتھے،جن کو چھپانا بھی مشکل تھا اور معاشرہ ان کے اظہار کی اجازت بھی نہیں دیتا تھا،اس دوران، اللہ تعالی نے پاکستان کے دل میں، دل کی طرح دھڑکنے والی دینی درسگاہ، جامعہ اہل بیت کی طرف میری ہدایت کی جبکہ میں اس دینی درسگاہ اور اس کے موسس کے بارے میں کوئی خاص معلومات نہیں رکھتا تھا۔
بعض دینی درسگاہوں کو قریب سے دیکھتے ہوئے کراچی پہنچا تو یہ نتیجہ اخذ کیا کہ، نہ میں مدرسے کا آدمی ہوں اور نہ مدرسے میرے لیے بنے ہیں ۔
شاید اس میں مدرسوں کی فضا سے زیادہ میری اپنی سوچ کا مسئلہ تھا کیونکہ میں کالج میں دو سال گزارنے کے ساتھ اجتماعی فعالیتوں میں کافی وقت گزار چکا تھا۔
میں اس سوچ کے ساتھ کراچی سے گلگت واپس ہو رہا تھا ،کہ زندگی کے کسی دوسرے شعبے سے منسلک ہو جاوں۔
ہمارے برادر محترم پروفیسر قیصر عباس نے مجھ جامعہ اہل بیت جانے کا مشورہ دیا، اور خود شیخ صاحب سے ٹیلیفون پرمیرے داخلے کی بات کی۔
ان کا کہنا تھا کہ تم سے آشنایی کے بعد میرا یہ خیال ہے کہ تم صرف وہاں تعلیم حاصل کر سکتے ہو۔
دل میں مدرسے کی طرف کوئی خاص رغبت نہ ہونے کے باوجود ان کے خلوص کو دیکھتے ہوئے، میں نے جامعہ اہل بیت کو دیکھنے کی حامی بھر لی ۔
مدرسہ اور دینی تعلیم کے علاوہ زندگی کے مختلف شعبوں کے بارے میں سوچتے کراچی سے راولپنڈی پہنچ گیا،میرا ذہن تجارت کی طرف مائل ہو رہا تھا ۔
اگلے دن اپنے کچھ عزیزوں کے ساتھ جامعہ اہل بیت اسلام آباد کی طرف روانہ ہوا۔جہاں میری ملاقات،محمد رحیم، سردار حسین اور عباس رضا حراموش والوں سے ہوگئی،ان کی محبت اور خلوص کو دیکھ کر ایسا لگا کہ یہ پہلے سے میرے دوست ہیں اور میری آمد کے منتظر تھے ۔ انہوں نے میری رہنمائی کرتے ہوئے بتا دیا کہ آقا شفا نجفی صاحب کس قسم کے سوالات پوچھ لیں گے، مجھ مدرسے سے دلچسپی نہیں رہی تھی اور سوالات بھی معمولی نوعیت کے تھے اس لیے سرسری طور پر سن لیا ۔
دینی تعلیم میں عدم دلچسپی اور شیخ صاحب سے عدم آشنایی نے مجھ بےباک بنا دیا تھا ۔
اس لئے میں نے شیخ صاحب کے ساتھ بہت ہی بے تکلفانہ انداز میں کھل کر بات کی، اتفاقا یہی انداز گفتگو ان کو پسند آگیا،اور مجھے بھی محسوس ہوا کہ یہ منفرد سوچ کا ایک عالم دین ہے ۔ انہوں نے آقا شفا نجفی صاحب کو بھلا کر مجھے باقاعدہ داخلہ دینے کا حکم دیا، جس پر آقا صاحب نے کہا کہ نہ مدرسے میں کوئی جگہ ہے اور نہ ہی کوئی کلاس، جس میں مجھے شامل کیا جائے؛ چونکہ تعلیمی سال کو شروع ہوئے کافی وقت گزر چکا تھا ۔
رہائش کے مسئلے پر، سردار حیسن نے فورا کہا کہ میرا رومیٹ چھٹی پر گیا ہے،جگہ کے حوالے سے فلحال کوئی مشکل نہیں ہے، درس کے حوالے سے شیخ صاحب نے حکم دیا کہ مجھے جداگانہ استاد فراہم کیا جائے۔
حراموش کے ان طلاب کی محبت اور شیخ صاحب کے جاذبہ نے مجھے مدرسے کی چاردیواری میں داخل کرایا،جبکہ نہایت ملنسار اور صبور استاد، شیخ حسن ترابی صاحب کی شفقت اور کوشش نے یہ امکان فراہم کیا کہ میں دینی تعلیم میں دلچسپی لوں، اور بہت ہی مختصر وقت میں مجھے احساس ہوا کہ اللہ تعالی نے مجھ پر لطف و کرم کیا ہے کہ ایک عظیم شخصیت کی زیر سرپرستی ایک آزاد ماحول میں سانس لے رہا ہوں۔
ایک ایسی شخصیت جنہوں نے ابو القاسم آیت اللہ العظمی سید خویی اور آیت اللہ العظمی شہید باقر الصدر جیسی عظیم شخصیات سے کسب فیض کیا ہے۔
وہ ایک وارستہ فقیہ تھے۔ وہ جہاں دین کے احکام کے ساتھ ساتھ روح دین اور مزاج دین سے آشنا تھے وہاں عالم بہ زمان بھی تھے۔ فلسفیانہ انداز میں گفتگو فرماتے تھے اور کلمات قصار کی شکل میں جملے بیان فرماتے تھے اس لیے ان کے طلاب کو محتوا کے علاوہ ان کے ادا کیے گئے الفاظ بھی اکثر یاد رہتے تھے ۔
شیخ صاحب اپنی طلبگی کی زندگی کے بارے میں بتاتے تھے کہ بہت غربت اور افلاس میں گزری،اور انسان جس چیز سے محروم رہے اس کی تلاش میں ہوتا ہے۔ لیکن نا قابل یقین حد تک وہ دولت و شہرت سے گریزاں تھے۔
اس کی وجہ یہی تھی کہ انہوں نے دولت اور شہرت سے بڑھ کر بہت ہی عزیز اورعظیم سرمائے کو پایا تھا۔ انہوں نے اپنے آپ کو قرآن کریم اور علوم آل محمد علیھم السلام سے سیراب کیا تھا۔
وہ اکثر درس اخلاق میں فرمایا کرتے تھے کہ انسان جب اندر سے کھوکھلا ہو تو اندر کی کمی کو برطرف کرنے کے لئے باہر سے عناوین لگاتا ہے۔وہ اس بات پر اظہار تاسف فرماتے تھے کہ ہمارے معاشرے میں لوگوں کے نام کے ساتھ القابات لگا کر پورے پورے صفحے بھر دیے جاتے ہیں،جو انسان کی شخصیت میں کھوکھلا پن کا نتیجہ ہے۔ پھر خود ہی اکثر شہید صدر علیہ الرحمہ کا نام لیتے تھے کہ شہید صدر کی شخصیت میں کوئی خلا نہیں تھا اس لیے وہ اپنی تصنیفات میں” محمد باقر الصدر ” پر اکتفا کرتے تھے ۔
کبھی نہیں دیکھا کہ شیخ صاحب نے صاحبان ثروت کو ان کی دولت کی وجہ سے کوئی خاص احترام دیا ہو۔
ان کی نظروں میں دنیا بہت حقیر تھی۔ وہ یہی فرماتے رہتے تھے کہ مال و دولت کی وجہ سے ارزشیں(Values) تبدیل ہو جاتی ہیں،جس کی وجہ سے اکثر صاحبان ثروت ،فقیر مومنین کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔
وہ اپنے طالب علموں کو دعا اور قرآن خوانی کے لئے لوگوں کے ہاں جانے سے یہ کہہ کر سختی سے منع فرماتے تھے کہ یہ لوگ طالب علموں کی قدر کو نہیں جانتے ہیں اور ان کی عزت نفس کو مجروح کرتے ہیں ۔
طالب علموں کو بھی اپنی عزت نفس کا خیال رکھنے کی بہت تاکید کرتے تھے نیز اساتذہ کو بھی بار بار یہ تذکر دیتے تھے کہ طالب علموں کی عزت نفس کا خیال رکھا جائے،مدرسے کے طالب علم ایک دوسرے کو مخاطب کرتے ہوئے نام سے پہلے آقا کہتے تھے۔ آج مجھے احساس ہو رہا ہے کہ شیخ صاحب کیوں اس قدر عزت نفس پر توجہ دیتے تھے؟چونکہ غالب طلاب کی زندگی زیر فقر گزرتی ہے، اور یہی وہ مقام لغزش ہے جہاں فقیروں کے پاوں پھسل جاتے ہیں۔
محسن ملت شیخ محسن علی نجفی کی دینی ،علمی اور فلاحی خدمات کو کم و بیش لوگ جانتے ہیں، میں ان کے مدرسے کا کمترین طالب علم کی حثیت سے ان شاء اللہ اپنے مشاہدات کی روشنی میں ان کی عملی زندگی کے کچھ پہلو رقم کرنے کی کوشش کروں گا ،امید ہے کہ دینی طلاب کے لئے راہ گشا اور عموم مومنین کے لئے مفید واقع ہوں ۔
میں مولوی کے اس لطیف شعر کا بارز مصداق ہوں ۔
مادح خورشید مداح خود است۔
که دو چشمم روشن و نامرمد است۔
کہ خورشید کا ثناء خواں حقیقت میں اپنا ہی ثناء خواں ہے کہ میری دونوں آنکھیں بینا اور سالم ہیں ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔