تحریر: ایس ایم شاہ
شیخ محسن علی نجفی کے ملت پر اتنے احسانات ہیں کہ جن کے باعث آپ کو محسن ملت کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ ٹھوس علمی شخصیت کے مالک تھے۔ آپ تفسیرِ قرآن کا باقاعدہ درس دیا کرتے تھے۔ آپ کے درس تفسیر میں سینکڑوں کی تعداد میں طلبہ شریک ہوتے تھے۔ آپ کی تفسیر، تفسیر ترتیبی تھی۔ ہر آیت کی تفسیر میں آپ اسی آیت سے مربوط دیگر آیات، احادیث معتبرہ اورعقلی دلائل کے علاوہ گزشتہ مفسرین کے دلائل کا بھی تذکرہ کیا کرتے تھے۔ آپ کی تفسیر کی انفرادیت یہ تھی کہ آپ مکمل عصری تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا کرتے تھے۔ دوران تفسیر استدلال کے لیے ایک آیت کی تفسیر میں شاہد کے عنوان سے دیگر آیتوں کی ایسی تلاوت کرتے جس سے آپ حافظ قرآن محسوس ہوتے تھے۔ انسان کی خلقت کے عجائبات، کلوننگ، سیلز جیسی سائنسی اصطلاحات پر ایسی سیر حاصل گفتگو کرتے کہ آپ سائنس دان لگتے تھے۔ “شبہہ آکل و مأکول” جیسے عقلی مباحث کو حل کرتے ہوئے متقن دلائل کے ساتھ ایسے جامع انداز سے استدلال کرتے جس سے معلوم ہوتا تھا کہ آپ ماہر علم کلام، فلاسفر اور منطقی ہیں۔ انسانی صحت کے اصول اور ورزش کی اہمیت ایسے خوبصورت پیرائے میں بیان کرتے کہ آپ ایک ماہر ڈاکٹر محسوس ہوتے تھے۔ معاشرتی ضروریات، مشکلات اور ان کے حل پر ایسی پُر مغز گفتگو کرتے کہ آپ سوشیالوجسٹ معلوم ہوتے تھے۔ علم عرفان کے بارے میں ایسے لطیف نکات بیان کرتے تھے کہ آپ ایک عارفِ کامل معلوم ہوتے تھے۔ جب اخلاقی مباحث میں وارد ہوتے اور انسان کے سیر تکاملی اور سیر تنزلی پر بحث کرتے تھے تو آپ اخلاق نظری اور اخلاق عملی کے ماہر استاد اور پیکر اخلاق ہونا ثابت ہوتے تھے۔ فقہی مباحث میں آپ ایسے مدلل انداز سے بحث کرتے تھے کہ آپ فقیہ عصر معلوم ہوتے تھے۔ احساس کمتری کے انسانی شخصیت پر منفی اثرات، انسانی زندگی میں خود اعتمادی کی اہمیت، اپنے اندر خود اعتمادی ایجاد کرنے کے طریقے اور خودی کو پروان چڑھانے کا طریقہ کار سمیت دیگر اہم نفسیاتی اصولوں کی ایسی وضاحت کرتے تھے کہ آپ بہترین سائیکالوجسٹ معلوم ہوتے تھے۔ آپ اکثر کہا کرتے تھے کہ ہمارا اکثر وقت ضائع چلا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ میں اپنا وقت بالکل ضائع نہیں کرتا ہوں تو اس کا یہ دعویٰ حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ اتنی ساری مصروفیات کے باوجود بھی میرا کافی وقت ضائع چلا جاتا ہے۔ آپ مولا علی علیہ السلام کے اس فرمان “نفس الانسان خطاہ الی اجلہ” یعنی انسان کا ہر سانس موت کی طرف ایک قدم ہے” سے استشہاد کیا کرتے تھے۔ “یعنی انسان کا ہر سانس اسے موت کے قریب کر رہا ہے”۔ اس کا سب سے قیمتی سرمایہ ضائع ہو رہا ہے لیکن اسے اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔
آپ کا درس تفسیر اتنا جامع ہوتا تھا کہ ایک مکمل انسائیکلوپیڈیا معلوم ہوتا تھا۔ اعتقادی عمیق مسائل کی گتھیوں کو خوبصورت مثالوں سے سلجھانا آپ ہی کا خاصہ تھا۔ آپ اپنے اکثر دروس کے دوران میں کہا کرتے تھے کہ یہ علمی نکات فقط آپ طلبہ سے شئیر کر رہا ہوں لیکن میں نے ان مباحث کو اپنی تفسیر میں نہیں چھیڑا ہے۔ کیونکہ ایسی بحثیں عوام کی فہم و فراست سے بالاتر ہیں۔
آپ کے ہاں جادۂ علم ہمیشہ بچھا رہتا تھا۔ زندگی کے ہر شعبے سے وابستہ شخصیات آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر ا پنے اپنے شعبے سے متعلق آپ سے رہنمائی لیتے تھے۔ آپ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ دن کو درس و تدریس اور مہمانوں سے ملاقات سمیت دیگر مصروفیات کے باعث آپ مطالعے کے لیے زیادہ وقت نہیں دے پاتے تھے لہذا اس کمی کا ازالہ آپ رات کے مطالعے سے کر لیتے تھے۔ رات کو آپ دو تین بجے تک مصروفِ تحقیق و مطالعہ رہتے تھے۔ خصوصاً قرآنیات کے لیے تو گویا آپ نے اپنی پوری زندگی وقف کر دی تھی۔ رات کے مطالعے اور تحقیق کا محور قرآن مجید ہوا کرتا تھا۔ ذوقِ مطالعہ اور ذوقِ تحقیق کے باعث آپ ہمیشہ جامعۃ اہل البیت اسلام آباد کی دوسری منزل پر واقع ایک کمرے میں محوِ تحقیق رہتے تھے۔ میں نے آپ کو مذکورہ کمرے اور جامعۃ الکوثر اسلام آباد کے ایک کمرے میں ہمیشہ مطالعہ اور تحقیق کرتے ہوئے پایا۔میں نے اپنی علمی زندگی میں کبھی آپ کو بری امام میں موجود آپ کے سادہ مکان میں بھی مکین نہیں پایا۔ گویا علمی تحقیق اور دین کی خدمت کے لیے آپ نے دن رات ایک کر دی تھی۔
آپ کی اتنی ساری مصروفیات کے باوجود بھی آپ نے جامعۃ الکوثر میں اپنے درس تفسیر کے کلاس کو کبھی مس نہیں کیا۔ ہر روز پابندی وقت کے ساتھ جامعۃ اہل البیت سے جامعۃ الکوثر آنے کے باعث آپ کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہوا۔ یہاں تک کہ حساس اداروں کی جانب سے آپ کو نوٹس بھی موصول ہوا کہ آپ پابندی وقت کے ساتھ روزانہ ایاب و ذہاب سے اجتناب کریں کیونکہ دہشتگردوں کی جانب سے دھمکیاں مل رہی ہیں لیکن اس کے باوجود بھی آپ نے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر درسی سلسلے میں خلل آنے نہیں دیا۔
پڑھاتے وقت آپ کی لبوں پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی۔ چونکہ آپ کے درس میں طلبہ کی تعداد سینکڑوں میں ہوتی تھی لہذا آپ طلبہ کی توجہ درس کی طرف مبذول کرانے کے لیے اچانک کوئی علمی سوال اٹھاتے تھے اور طلبہ سے اس کا جواب دریافت کرتے تھے۔پھر آپ خود ان سوالوں اور اشکالات کے مفصل و مدلل جواب دیتے تھے۔ آپ اپنے درس تفسیر میں اکثر کہا کرتے تھے اے طالب علموں! اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر بجا لاؤ کہ آج آپ کے لیے حصولِ علم کی راہ میں درکار تمام سہولتیں میسر ہیں۔ جب ہم نجف اشرف میں باب مدینۃ العلم کی بارگاہ میں علوم آل محمد سے فیضیاب ہو رہے تھے تو اس وقت ہمیں بہت ساری مشکلات کا سامنا تھا۔ کھانے پینے کے مسائل، مطالعے اور مباحثے کے لیے لائٹنگ کے مسائل غرض ہر طرف مسائل کے انبار نظر آتے تھے۔ ایک دفعہ جب کھانے کے لیے روٹی کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اتنی جلی ہوئی نان تھی کہ انگلیوں کے نشان اس پر پیوست ہوگئے۔ اس وقت کے علما بسا اوقات تربوز کے چھلکے کھا کر اور مطالعے کے لیے سٹریٹ لائٹوں سے استفادہ کرکے اپنا ذوق مطالعہ پورا کرتے تھے۔ بحث جب تبلیغ دین سے مربوط آیتوں پر پہنچتی تھی تو آپ مخاطب شناسی اور مخاطب کے نزدیک مسلمات کا سہارا لیکر استدلال کرنے پر زور دیتے تھے اور ایسے دلنشین واقعات پیش کرتے تھے جو دل کی تختی پر ہمیشہ کندہ رہیں گے۔