تحریر: سید روح اللہ رضوی
عزاداری دراصل امام حسین علیہ السلام کی تحریک کے پیغام کو گھر گھر، قریہ قریہ پہنچانے کی جد و جہد ہے۔ اگر کوئی کام عوام الناس تک اس پیغام کے پہنچنے میں رکاوٹ بنے تو ہمیں اس سے پرہیز کرنا ہوگا اور ان کاموں کی جانب توجہ کرنی ہوگی جو لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اس تحریک کے نزدیک کرسکیں؛ اسی طرح اس تحریک کو منظم انداز میں چلانا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ اسی پیرائے میں کچھ عرائض پیش خدمت ہیں:
۱۔ لاوڈ اسپیکر کا استعمال: مائک سسٹم اور لاوڈ اسپیکر در اصل لوگوں تک آواز پہنچانے کا وسیلہ ہیں، لیکن اگر یہ وسیلہ لوگوں کی اذیت کا سبب بنے تو نہ صرف اس سے پیغام نہیں پہنچے گا بلکہ یہ لوگوں کی مکتب حقہ سے دوری کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اس حوالے سے کوئی باقاعدہ حدود و مرز معین کرنا سخت ہے کہ کہاں اور کس حد تک لاوڈ اسپیکر کا استعمال کیا جائے۔ لیکن بعض چیزوں کی رعایت پر یقینا اتفاق کیا جاسکتا ہے جیسے Working Days میں دیر رات تک اور مجلس میں شریک افراد کی تعداد سے کئی گنا زیادہ یعنی بے جا لاوڈ اسپیکر کا استعمال یقینا نوکری پیشہ افراد اور طالبعلموں کے لئے مشقت و پریشانی کا سبب ہے۔ بالخصوص آج جب اچھی نوکریوں اور اچھے طالبعلموں کی ویسے ہی کمی ہو تو اس مسئلہ کی جانب خصوصی توجہ کرنا چاہئے۔
۲۔ راستوں کی بندش: عزاداری میں جلوس عزا کا کردار ان لوگوں کو جو عزداری میں شریک نہیں ہوتے شبیہ سازی، نوحہ و ماتم کے ذریعے اس تحریک سے روشناس کرانا ہے لیکن افسوس کہ اداروں کی جانب سے سکیورٹی کے نام پر ٹریفک، حتی پیدل آمد و رفت تک روک دی جاتی ہے، جس سے ان جلوسوں کی افادیت کم ہورہی ہے اس حوالے سے بھی مومنین کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ جلوس کی افادیت دوبارہ بحال ہو، عوام الناس کو کم سے کم پریشانی کا سامنا ہو اور ساتھ جلوس عزاداری کے خلاف بھی کوئی سازش بھی کامیاب نہ ہوپائے۔
دوسری جانب شیعہ علاقوں میں جو گھروں کی مجالس تھیں وہ آہستہ آہستہ گلیوں میں منعقد ہورہی ہیں جو شاید غیر ضروری بلکہ غیر مناسب بھی ہو، اگر شرکاء مجلس کی تعداد اتنی ہے کہ آپ کے گھر میں سما سکیں تو کوشش کریں کہ گھر میں ہی مجلس برپا کریں یا اگر تعداد زیادہ ہوتو امام بارگاہ یا کسی ہال میں مجلس منعقد کی جائے۔ خصوصاً جب ایک ہی محلے میں کئی جگہ شامیانے اور قناتیں لگادی جائی تو پریشانی کا سامنا اہل محلہ مومنین کو ہی ہوتا ہے۔ خاص ایام میں مثلا ۸ سے ۱۰ محرم جب مجالس کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے یقینا اہل محلہ کے ذہن بھی اس حوالے سے آمادہ ہوتے ہیں لیکن عام دنوں میں اس امر کی رعایت کرنی چاہئے تاکہ لوگوں کو کسی پریشانی کا سامنا نہ ہو۔
۳۔ صفائی ستھرائی: ویسے ہی اس معاملے میں ہم دیگر اقوام سے بہت پیچھے ہیں، کراچی جیسے شہر کی بات کرلیں تو گٹر کا پانی اور کچرا جگہ جگہ نظر آئے گا اور بارشوں سے اس گندگی میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ کوشش کریں کہ ایام عزا میں کم از کم اپنے علاقے اور گلیوں کی حد تک صفائی ستھرائی کا خیال رکھیں۔ اس کے لئے مجالس اور سبیلوں کے مقام پر کچرے دان رکھے جائیں اور گلیوں میں مجالس کے بعد صفائی کا اہتمام کیا جائے۔
خداوند متعال ہمیں عزداری کو زیادہ سے زیادہ منظم انداز میں اور پھرپور طریقہ سے برپا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (جاری ہے۔)