کہانی: سید قمر نقوی
آئیں آج ایک چلتی پھرتی آیت الہی کو پہچانیں.
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بہت ہی خوبصورت ریشم کا کیڑا تھا.وہ بہت پرخور تھا.وہ جتنا بھی کھاتا تھا،اسکا پیٹ نہیں بھرتا تھا.جب بھی اسکی طرف کوئی دیکھتا اسے مسلسل کھاتے ہوئے پاتا.اسے تیز تیز کھاتے ہوئے دیکھ کرایسا لگتا کہ بہت ہی بھوکا ہے .اور یہ تو سب کو ہی معلوم ہے کہ اسکی خوراک درختوں کے سبز پتے ہوتے ہیں.یہ درخت کے پتے اس طرح کھا رہا تھا کہ اسے کھانے کے علاؤہ کوئی دوسرا کام بھی نہیں ہے.لیکن آخرکار وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ کب تک صرف ایک ہی کام کرسکتا ہے. وہ بھی کھانا،کھانا اور بس کھانا.
ابھی یہ ریشم کا کیڑا ایک بہت ہی اہم کام انجام دینا چاہتا تھا.ایک ایسا کام کہ خود اسکی ذات کو اہم بناتا.یہ کیڑا ایسا کونسا اہم کام کرسکتا تھا؟
اس نے اپنے گرد ایک جالا بننا شروع کردیا.اسکے خیال میں وہ اسکے اندر رہ کر باہر والوں کو نظر نہیں آئے گا.اس لیے سب اسے حیرت سے دیکھیں گے کہ اسکے اندر کون ہے؟اسکا خیال تھا کہ وہ اس طرح سب سے جدا ہوجائے گا تو دوسروں کی نظر میں اسکی اہمیت بڑھ جائے گی.اس طرح سب اسے طاقتور سمجھیں گے کہ یہ اکیلا زندگی گزار رہا ہے.وہ اپنے گرد جالا بننے کے بعد اپنی نظر میں
بہت ہی اہم اور مشہور ہوگیا تھا.وہ بہت مغرور ہوگیا.وہ خود تو دوسروں کا احترام نہیں کرتا تھا لیکن دوسروں سے احترام کی توقع رکھتا تھا.اس لیے کہ وہ خود کو سب سے اہم جانتا تھا.اسکے اس رویہ کی وجہ سے سب دوست اس سے دور ہوگئے. وہ اپنی خوبصورتی،طاقت اور شہرت کی وجہ سے دوسرں کی ضرورت ہی نہیں سمجھتا تھا.
وہ تنہا اور مغرور ہو گیا تھا.
اسکا اپنے گرد بنایا ہوا جالا حقیقت میں خودخواہی کا تھا.وہ خودخواہی کے زندان میں جکڑ چکا تھا.لیکن وہ اس زندان میں کب تک رہ سکتا تھا؟اب وہ اس خودخواہی کے زندان سے تھک چکا تھا.یہ زندان جوکہ خود اس نے اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا،کافی محنت کے بعد اسکو توڑنے میں کامیاب ہوگیا.
اب یہ زندان کی تاریکی سے کھلی اور روشن فضا میں آ چکا تھا.یہ آزاد ہوکر کھلی فضا میں آیا تو اپنے خوبصورت پروں کی طرف متوجہ ہوا.وہ اپنے خوبصورت پروں کو دیکھ کر بہت خوش ہوا. وہ اب ایک کیڑے سے خوبصورت تتلی بن چکاتھا اور بلندیوں پر پرواز کرسکتا تھا. حقیقت میں وہ اب خودخواہی سے فرار کرچکا تھا.اس لیے ابھی پرواز کرسکتا تھا.
وہ باغ کے اوپر اڑرہا تھا.خوبصورت پھولوں پر بیٹھ رہا تھا. وہ اب ہر جگہ اڑ کرجاسکتا تھا.پس وہ اب آزاد ہوچکا تھا.
وہ دھیمی آواز میں کہہ رہا تھا کہ خدایا تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے. میں اب خودخواہی کے زندان سے آزاد ہوگیا ہوں .وہ بہت خوش ہورہا تھا کہ اب صرف خودپسند نہیں ہوں بلکہ دوسری سب انسانیت کو بھی احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔