تحریر: بشارت حسین زاہدی
پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ سیاسی عدم استحکام، معاشی بحران، بڑھتی ہوئی مہنگائی، اور معاشرتی بے چینی نے ملک کو گہری دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے، یہ بحران شدت اختیار کر گیا ہے، جس کے نتیجے میں ہر شعبہ زندگی متاثر ہو رہا ہے۔ ایسے میں، متحدہ مجلس عمل (MMA) جیسی مذہبی سیاسی جماعتوں کا کردار اور ان کا مستقبل خاص اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ یہ جماعتیں، جن میں مختلف دینی مکاتب فکر شامل ہیں اور جو ماضی میں بھی اقتدار کا حصہ رہ چکی ہیں، ملک کی ترقی اور سلامتی میں اپنا کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔
مذہبی قوتیں اور دینی جماعتیں پاکستان کے سماجی و سیاسی تانے بانے کا ایک لازمی جزو ہیں۔ ان کا اثر و رسوخ نہ صرف شہروں بلکہ دیہی علاقوں تک بھی پھیلا ہوا ہے، اور وہ عوامی رائے عامہ کو مضبوطی سے متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ متحدہ مجلس عمل، جو مختلف دینی جماعتوں کا ایک متحدہ پلیٹ فارم ہے، اس صلاحیت کو بروئے کار لا کر ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہے۔
علامہ سید ساجد نقوی کا بصیرت افروز اور متحد کنندہ کردار
اس تناظر میں، علامہ سید ساجد علی نقوی جیسی بابصیرت شخصیات کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ علامہ ساجد نقوی ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی ملک کی سلامتی، قانون کی حکمرانی (رول آف لا)، اور اتحاد بین المسلمین کو فروغ دینے کے لیے وقف کر دی۔ ان کی سوچ، ان کے خطبات، اور ان کی کاوشیں مذہبی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کے لیے ایک روشن اور حقیقی چہرہ ہیں۔ موجودہ صورتحال میں، جہاں سیاسی دھڑے بندی عروج پر ہے، علامہ ساجد نقوی جیسی قیادت ملک میں اتفاق رائے پیدا کرنے، مختلف طبقات کو ایک پلیٹ فارم پر لانے، اور مشترکہ چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے ایک مضبوط آواز فراہم کر سکتی ہے۔ ان کی غیر متنازعہ شخصیت اور ان کی مصالحانہ کاوشیں پاکستان کو موجودہ بحران سے نکالنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہیں۔
موجودہ ملکی حالات میں متحدہ مجلس عمل کا ممکنہ کردار
متحدہ مجلس عمل کئی طریقوں سے موجودہ بحران میں ایک تعمیری اور مثبت کردار ادا کر سکتی ہے:
قومی ہم آہنگی اور فرقہ وارانہ امن کا فروغ: MMA مختلف مسالک اور مذہبی جماعتوں کا ایک جامع اتحاد ہے، جو اسے قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے ایک انتہائی مضبوط پلیٹ فارم بناتا ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ کشیدگی کو کم کرنے، مختلف عقائد کے پیروکاروں کو قریب لانے، اور محبت و بھائی چارے کی فضا کو فروغ دینے میں یہ جماعت انتہائی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اتحاد بین المسلمین کا علامہ ساجدکا وژن اس کوشش کو مزید تقویت دے سکتا ہے۔
معاشی استحکام اور خود انحصاری میں معاونت: اگرچہ MMA بنیادی طور پر ایک مذہبی جماعت ہے، لیکن یہ ملک کی معیشت کے استحکام اور خود انحصاری میں بھی اپنا فعال کردار ادا کر سکتی ہے۔ یہ حکومتی معاشی پالیسیوں پر تعمیری تنقید کر سکتی ہے اور متبادل حل پیش کر سکتی ہے جو اسلامی اقتصادی اصولوں پر مبنی ہوں، جیسے کہ سودی نظام سے پاک معیشت اور زکوٰۃ و عشر کا مؤثر نظام۔ عوامی سطح پر معاشی بیداری پیدا کرنے اور کفایت شعاری کی اہمیت اجاگر کرنے میں بھی اس کا کردار ہو سکتا ہے۔
سیاسی استحکام اور جمہوری عمل کی بحالی: موجودہ سیاسی افراتفری میں MMA ایک متوازن اور مصالحانہ کردار ادا کر سکتی ہے۔ یہ مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہوئے مذاکرات اور افہام و تفہیم کو فروغ دے سکتی ہے تاکہ ایک مستحکم حکومت اور پارلیمانی نظام کی بحالی ممکن ہو سکے۔ یہ جمہوری اقدار اور آئینی بالادستی کو مضبوط کرنے میں بھی اپنا حصہ ڈال سکتی ہے۔
قانون کی حکمرانی کی مضبوطی اور انصاف کی فراہمی: علامہ ساجد نقوی جیسی شخصیات ہمیشہ قانون کی بالادستی اور انصاف کی بروقت فراہمی پر زور دیتی ہیں۔ MMA اس اصول کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عوامی شعور بیدار کر سکتی ہے اور حکومت پر دباؤ ڈال سکتی ہے کہ وہ رول آف لا کو یقینی بنائے اور احتساب کے نظام کو شفاف بنائے۔ یہ عدالتوں اور ریاستی اداروں کی آزادی کے لیے بھی آواز اٹھا سکتی ہے۔
اخلاقی اقدار اور سماجی اصلاحات کا فروغ: دینی جماعتیں معاشرتی اخلاقیات اور اقدار کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ موجودہ دور میں جہاں معاشرتی اقدار میں گراوٹ اور بے راہ روی دیکھی جا رہی ہے، MMA نوجوان نسل میں مثبت اخلاقی رویوں، حب الوطنی، اور ایک ذمہ دار شہری کے کردار کو پروان چڑھا سکتی ہے۔ یہ منشیات، کرپشن، اور دیگر سماجی برائیوں کے خلاف بھی مؤثر مہم چلا سکتی ہے۔
عوامی مسائل کا حل اور احتسابی عمل: MMA چونکہ عوامی سطح پر مضبوط روابط رکھتی ہے، اس لیے یہ عوام کے حقیقی مسائل، جیسے بجلی کی لوڈ شیڈنگ، پانی کی قلت، صحت کی بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی، اور تعلیمی پسماندگی کو اجاگر کر سکتی ہے۔ یہ حکومتی ایوانوں میں ان مسائل کو اٹھا کر ان کے حل کے لیے دباؤ ڈال سکتی ہے، اور حکومتی کارکردگی پر ایک احتسابی نظر رکھ سکتی ہے۔
مستقبل کا لائحہ عمل اور چیلنجز
متحدہ مجلس عمل کو اپنے ماضی کے تجربات سے سبق سیکھتے ہوئے ایک جدید اور مؤثر لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت ہے۔ اسے صرف مذہبی نعروں اور مسلکی اختلافات تک محدود رہنے کے بجائے، ملک کے عصری مسائل، جیسے تعلیم، صحت، روزگار، غربت کا خاتمہ، ماحولیاتی تبدیلی، اور انصاف کے نظام پر بھی اپنی توجہ مرکوز کرنیچاہیے۔ عوامی مسائل پر حقیقی، قابل عمل، اور دور رس حل پیش کر کے ہی یہ جماعت عوام کا اعتماد دوبارہ حاصل کر سکتی ہے اور پاکستان کو ایک مستحکم، خوشحال، اور پرامن مستقبل کی راہ پر گامزن کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکتی ہے۔ علامہ ساجد نقوی جیسی بصیرت افروز قیادت کی رہنمائی میں، متحدہ مجلس عمل ملک کو درپیش چیلنجز سے نکالنے اور قومی تعمیر میں ایک مضبوط ستون ثابت ہو سکتی ہے۔
تاہم، MMA کو چند اہم چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ اسے اپنے اندرونی اختلافات کو ختم کرنا ہوگا اور ایک متحد محاذ کے طور پر کام کرنا ہوگا۔ اسے یہ تاثر بھی زائل کرنا ہوگا کہ وہ صرف ایک مخصوص طبقے کی نمائندہ ہے اور تمام پاکستانیوں کے حقوق اور مفادات کی علمبردار بننا ہوگا۔ میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی کا مؤثر استعمال کر کے اسے اپنے پیغام کو وسیع تر سامعین تک پہنچانا ہوگا اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا ہوگا۔
کیا متحدہ مجلس عمل ان چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے پاکستان کے سیاسی افق پر ایک بار پھر اپنا مؤثر کردار ادا کر سکے گی؟ یہ سوال وقت ہی بتائے گا۔
تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا واٹس ایپ چینل فالو کیجئے۔