تحریر: محمد شاہد رضا خان
دعا کا پیغام :
1–صحیح معنوں میں اگر گناہ و معصیت انسان کی نظر میں برے اور ناپسند ہوجائیں تو انسان کبھی بھی اسے انجام نہیں دے گا اورگناہ و عصیان کا مرتکب نہیں ہوگا۔
2–گناہ اور معصیت کی طرف جانے کا اصل سبب بظاہر اسمیں نظر آنے والی رنگینی ہے جو انسان کو گناہ کی جانب لے جاتی ہے۔
3–اسی بنا پر شیطان کا ایک کام گناہ اور آلودگی کو اچھا بنا کر پیش کرنا ہے تاکہ انسان کو اپنے فریب کے جال میں جکڑ لے
ددعائیہ فقرات کی تشریح
أَللّـهُمَّ حَبِّبْ اِلَىَّ فـيهِ الاِحْسـانَ وَ كَرِّهْ اِلَىَّ فيهِ الْفُسُوقَ وَ الْعِصْيانَ وَ حَرِّمْ عَلَىَّ فيهِ السَّخَطَ وَ النّيرانَ بِعَـوْنِكَ يا غِـياثَ الْمُسْتَغيـثينَ۔
ترجمہ: خدایا ایسا کر دے کہ میں اچھائیوں کو پسند کروں اور برائیوں سے نفرت ، خدایا ایسا کر میں برائیوں اور نافرمانیوں سے بیزار ہوجاؤ ں اور گناہ برے لگنے لگیں، خدایا اپنی ناراضگی اور بھڑکتی آگ کو مجھ پر حرام کردے، اپنی حمایت کے ساتھ ، اے فریادیوں کے فریاد رسا ۔
نکات
(1)احسان اور نیکی کی انجامدہی؛پروردگار سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ہمارے دلوں میں نیک کام انجام دینے کا جذبہ ڈال دے
(2)گناہ اور فسق و فجور سے نفرت کا جذبہ
(3)غیض و غضب الٰہی سے پناہ۔
دعائیہ فِقرات کی تشریح
1– أَللّـهُمَّ حَبِّبْ اِلَىَّ فـيهِ الاِحْسـانَ:
زندگی ایک وقفے کا نام ہے جب انسان پیدا ہوتا ہے تو اس کے کان میں اذان دی جاتی ہے او رجب مرتا ہے تو اُس کی نمازِ جنازہ پڑھائی جاتی ہے گویا اس اذان سے نماز تک کے وقفے کا نام زندگی ہے پروردگارٰ انسان کو موقع فراہم کرتا ہے کہ اُسے اس وقفے کا دورانیہ کس طرح گزارنا ہے اور وہ زندگی گزارنے کے لیے کون سی راہ اختیار کرتا ہے، نیکی کی راہ اختیار کرتا ہے یا برائی کی راہ اختیار کرتا ہے؛ إِنّٰا هَدَيْنٰاهُ اَلسَّبِيلَ إِمّٰا شٰاكِراً وَ إِمّٰا كَفُوراً؛(اور) اسے رستہ بھی دکھا دیا۔ (اب) وہ خواہ شکرگزار ہو خواہ ناشکرا [1]۔ احسان اور نیکی کا انجام دینا درحقیقت خدا کے حکم کو عملی جامہ پہنانا ہے؛ اسلامی اور انسانی اخلاق کا تقاضہ ہے کہ ہم کام بنانے والے بنیں بگاڑنے والے نہیں؛لوگوں کی مشکلات حل کریں چاہے اس راستہ میں اپنی عزت بھی داؤ پر کیوں نہ لگ جائے،کسی کو پریشانی میں مبتلا دیکھنے کے بعد ہنر یہ ہے کہ اسکی مشکل کشائی کریں کیونکہ یہ کہنا کہ ہمارا رہنما اور رہبر مشکل کشاء ہے لیکن عملی زندگی میں اگر ہم اس مشکل کشاءکی سیرت پر عمل نہ کریں تو ہمیں کس منھ سے حق پہنچتا ہے کہ ہم کہیں ہم مشکل کشاء کے ماننے والے ہیں،یاد رکھیں جو کوئی دوسروں کے ساتھ احسان کرتا ہے، وقت کسی کا نہیں ہوتا ،کل کو آپکے اور آپکے بچوں کےلیے یہی کیا گیا احسان کام آئے گا: هَلْ جَزٰاءُ اَلْإِحْسٰانِ إِلاَّ اَلْإِحْسٰانُ؛نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ نہیں ہے[2] ؛دیکھیئے رب العزت نے کتنی تعریف کی ہے احسان اور نیکی کرنے والوں کی: إِنَّ اَللّٰهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ اَلْإِحْسٰانِ وَ إِيتٰاءِ ذِي اَلْقُرْبىٰ وَ يَنْهىٰ عَنِ اَلْفَحْشٰاءِ وَ اَلْمُنْكَرِ وَ اَلْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ؛ابیشک اللہ عدل ,احسان اور قرابت داروں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے اور بدکاری ,ناشائستہ حرکات اور ظلم سے منع کرتا ہے کہ شاید تم اسی طرح نصیحت حاصل کرلو[3]۔ وَ أَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اَللّٰهِ وَ لاٰ تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى اَلتَّهْلُكَةِ وَ أَحْسِنُوا إِنَّ اَللّٰهَ يُحِبُّ اَلْمُحْسِنِينَ ؛ اور راہِ خدا میں خرچ کرو اور اپنے نفس کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ نیک برتاؤ کرو کہ خدا نیک عمل کرنے والوں کے ساتھ ہے[4] ۔
شیریں ، میٹھے اور اچھے لہجہ میں بات کرنا بھی نیکی کے مصادیق میں سے ہے: وَ قُولُوا لِلنّٰاسِ حُسْناً ؛ لوگوں سے اچھی باتیں کرناً[5]۔احسان اور نیکی کے بہترین اور اہم ترین مصادیق میں سے ایک والدین کے ساتھ نیکی اور اچھا برتاؤ ان سے محبت اور الفت انکی دیکھ ریکھ انکی تعظیم ہے: وَ بِالْوٰالِدَيْنِ إِحْسٰاناً ؛ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہنا[6] ۔
امام صادق کے زمانے میں ایک عیسائی نوجوان تازہ مسلمان ہوا تھا لیکن اسکی ماں عیسائی ہی تھی اس نوجون نے امام سے اپنی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا تو امام نے کہا پہلے سے زیادہ اسکی خدمت کرو۔۔۔۔ ماں نے اپنے نوجوان بیٹے کے اندر اخلاق کا یہ بدلاؤ محسوس کیا تو پوچھا آخر بات کیا ہے کہ تو ایسا کر رہا ہے لڑکے نے امام کے ساتھ ہوئی گفتگو بیان کی۔۔۔خاتون متاثر ہوئی اور کہا جب دین اسلام کے اتنے اچھے احکامات ہیں تو میں بھی مسلمان ہوتی ہوں[7]،امام صادق بعنوان ہمارے مذہب کے رئیس ہمیں سکھارہے ہیں کہ دوسروں کو اپنی جانب جذب کرنے،اپنا گرویدہ بنانےکا راستہ اپنے اندرنیکی اور بھلائی پیدا کرنا ہےتاکہ ہماری خوش اخلاقی اور خوش رفتاری دیکھ کر لوگ خود بخود کھنچے چلے آئیں جیسے شمع کے گرد پروانے چلے آتے ۔۔۔
2– وَ كَرِّهْ اِلَىَّ فيهِ الْفُسُوقَ وَ الْعِصْيانَ:
دو قسمیں:کچھ لوگ گناہ سے لگاؤ تو رکھتے ہیں لیکن گناہ نہیں کرتے، جی کرتا ہے کہ فلاں غلط کام کرلیں لیکن خوف خدا یا کسی اور وجہ باز رہتےہیں؛جبکہ دوسری قسم کے لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں گناہوں سے نفرت ہوتی ہے، وہ گناہ کو کراہت بھری نظر سے دیکھتے ہیں ۔۔۔ یہ دونوں مرحلہ انسان کی معرفت سے مرتبط ہیں جیسی جسکی معرفت ہوگی ویسے ہی وہ چیزوں کو دیکھے گا۔۔۔جناب یوسف علیہ السلام کا واقعہ دیکھ لیجیئے انہوں نے قیدخانے میں رہنے کو ترجیح دی گندگی میں گرنے سے: قٰالَ رَبِّ اَلسِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمّٰا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ [8]؛یوسف نے دعا کی کہ پروردگار جس کام کی طرف یہ مجھے بلاتی ہیں اس کی نسبت مجھے قید پسند ہے۔یعنی انسان اس منزل پر پہنچ جائے کے وہ گناہ کو اسکے اصلی روپ میں دیکھنے لگے جیسے مال حرام کھانے کو آگ کی صورت میں دیکھنے لگے اور جب معرفت کا یہ عالم انسان پر کھل جائے گاتو گناہوں سے نفرت بھی بڑھ جائیگی۔۔۔ گناہ کے ارتکاب والا لمحہ بڑا ہی حساس ہوتا ہے صرف ایک لمحہ صرف ایک چھوٹا سا ارادہ پورے نتیجہ کو بدل کے رکھ سکتا ہے۔
ابن سیرین نامی جوان ایک بدکارہ عورت کے گھر میں گرفتار ہوگیا ؛۔۔۔ابن سیرین نے گناہ سے نجات کے لئے گھر میں موجود نجاست اور گندگی کو اپنے اوپر ڈال لیا تاکہ گناہ سے آلودہ نہ ہو؛اپنے بدن کو گندگی سے آلودہ کرلیا تاکہ روح پاک رہے؛ جب اس بکارہ عورت نے ابن سیرین کو اس حالت میں دیکھاتو اس نے ابن سیرین کو گھر سے باہر کردیا؛اس ماجرے کے بعد پروردگار نے ابن سیرین کو دو نعمتوں سے نوازا:
(1)۔بہترین خوشبو؛اس طرح کی خوشبو کہ بغیر عطر لگائے ہی ابن سیرین جدھر سے گذرتے لوگ سمجھ جاتے کہ اس طرف سے ابن سیرین گذرے ہیں۔
(2)تفسیر و تعبیر خواب کا علم؛ ابن سیرین کا تعبیر و تفسیر خواب مشہور ہے۔
3–وَ حَرِّمْ عَلَىَّ فيهِ السَّخَطَ وَ النّيرانَ بِعَـوْنِكَ يا غِـياثَ الْمُسْتَغيـثينَ۔:
غیض و غضب پروردگا اور آتش جہنم کی سوزش معاد جسمانی کی یاد دلاتی ہےجب ہم اپنے جسموں کے ساتھ روز معاد حاضر ہونگے:وَ ضَرَبَ لَنٰا مَثَلاً وَ نَسِيَ خَلْقَهُ قٰالَ مَنْ يُحْيِ اَلْعِظٰامَ وَ هِيَ رَمِيمٌ ؛ اور ہمارے لئے مثل بیان کرتا ہے اور اپنی خلقت کو بھول گیا ہے کہتا ہے کہ ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرسکتا ہے[9]؟ قُلْ يُحْيِيهَا اَلَّذِي أَنْشَأَهٰا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَ هُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ ؛ آپ کہہ دیجئے کہ جس نے پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے وہی زندہ بھی کرے گا اور وہ ہر مخلوق کا بہتر جاننے والا ہے[10]۔یہ آیات معاد جسمانی کی جانب اشارہ کرتی ہیں؛ ہم جب آتش دنیا کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تو کس طرح آتش دوزخ کو برداشت کرینگے؟آئمہ معصومین خوف خدا سے اتنا گریہ کیا کرتے تھے کہ بیہوش ہوجایا کرتے تھےکیونکہ انکی معرفت بلند تھی دوسری جانب ہمیں رحمت خدا سے مایوس بھی نہیں ہونا چاہیئے اور بندگی کا حق ادا کرتے رہنا چاہیئے جب تک دنیا میں ہیں توبہ کرنے کی فرصت ہے لہٰذا توبہ کرلیں کہیں ایسا نہ ہو وقت گذر جائے اور ہم کف افسوس ہی ملتے رہ جائیں،ہر کوئی اپنے آپکو دوسرے سے بہتر پہچانتا ہے اسلئے خود کو دھوکہ نہ دیں سورۂ قیامت میں ارشاد ہے: بَلِ اَلْإِنْسٰانُ عَلىٰ نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ؛ بلکہ انسان خود بھی اپنے نفس کے حالات سے خوب باخبر ہے[11]۔وَ لَوْ أَلْقىٰ مَعٰاذِيرَهُ ؛چاہے وہ کتنے ہی عذر کیوں نہ پیش کرے[12]۔ بَصِيرَةٌ کی ھاء مبالغہ کے لئے ہے ؛ یعنی ہر کوئی اپنے آپکو دوسرے سے بہتر جانتا ہے کہ اسکے حالات کیا ہیں۔۔۔۔۔
پیغام :
1–صحیح معنوں میں اگر گناہ و معصیت انسان کی نظر میں برے اور ناپسند ہوجائیں تو انسان کبھی بھی اسے انجام نہیں دے گا اورگناہ و عصیان کا مرتکب نہیں ہوگا۔
2–گناہ اور معصیت کی طرف جانے کا اصل سبب بظاہر اسمیں نظر آنے والی رنگینی ہے جو انسان کو گناہ کی جانب لے جاتی ہے۔
3–اسی بنا پر شیطان کا ایک کام گناہ اور آلودگی کو اچھا بنا کر پیش کرنا ہے تاکہ انسان کو اپنے فریب کے جال میں جکڑ لے:وَ إِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ وَ قالَ لا غالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَ إِنِّي جارٌ لَكُمْ فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ وَ قالَ إِنِّي بَريءٌ مِنْكُمْ إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ إِنِّي أَخافُ اللَّهَ وَ اللَّهُ شَديدُ الْعِقابِ؛اور اس وقت کو یاد کرو جب شیطان نے ان کے لئے ان کے اعمال کو آراستہ کردیا اور کہا کہ آج کوئی تم پر غالب آنے والا نہیں ہے اور میں تمہارا مددگار ہوں -اس کے بعد جب دونوں گروہ آمنے سامنے آئے تو الٹے پاؤں بھاگ نکلا اور کہا کہ میں تم لوگوں سے بری ہوں میں وہ دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ رہے ہو اور میں اللہ سے ڈرتا ہوں کہ وہ سخت عذاب کرنے والا ہے[13]۔
[1]– الإنسان، 3
[2]– الرحمن، 60
[3]– لنحل، 90
[4]– البقرة، 195
[5]– البقرة، 83
[6]– البقرة، 83
[7]– بحار الانوار ج74/ص53
[8]– يوسف، 33
[9]– يس، 78
[10]– يس، 79
[11]– القيامة، 14
[12]– القيامة، 15
[13]– انفال/48