تحریر: محمد شاہد رضا خان
پیغام:️
ایک دن پیغمبر اکرمﷺنے ارشاد فرمایا: «کیا جانتے ہو کہ ایمان کا کونسا دروازہ سب سے محکم ہے؟ سب نے ایک جواب دیا، پھر آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اَلْحُبُّ فِی اللهِ وَ الْبُغْضُ فِی اللهِ وَ تَوالِی اَوْلِياءَ اللهَ و التَّبَرِی مِنْ اَعدَاءِ اللهِ؛ ایمان کاسب سے محکم دروازہ،خدا کی راہ میں دوستی اور دشمنی اور اسکے اولیاء سے دوستی اور اسکے دشمنوں سے بیزاری ہے۔»
دعا ۔
أَللّـهُمَّ اجْعَلْنى فيهِ مُحِبّاً لِاَوْلِيآئِكَ وَ مُـعـادِيـاً لاَعْـدآئِـكَ مُسْتَنّاً بِسُنَّةِ خاتَمِ أَنْبِيآئِكَ يـا عـاصِـمَ قُـلُوبِ النَّبِيّـينَ۔
ترجمہ:اے معبود! مجھے اس دن (مہینے میں) اپنے اولیاء اور دوستوں کا دوست اور اپنے دشمنوں کا دشمن قرار دے، مجھے اپنے پیغمبروں کے آخری پیغمبر کی راہ و روش پر گامزن رہنے کی صفت سے آراستہ کردے، اے انبیاء کے دلوں کی حفاظت کرنے والے۔
نکات۔
1۔ محبّت و عشق کی لکیر؛
2۔تولّى ٰ اور تبرّىٰ،، دو «اصل» يا دو «فرع»؟
؛3۔پیغمبر اکرم کی سنت کی پیروی۔
تشریح۔
1–أَللّـهُمَّ اجْعَلْنى فيهِ مُحِبّاً لِاَوْلِيآئِكَ:
شہر ربیعہ میں یوسف بن یعقوب نامی ایک مالدار زندگی بسر کرتا تھا کسی نے متوکّل عباسی سے اسکی چغلخوری کردی،متوکّل نے اسےسامرہ بلا لیاتاکہ اسے سزا دے،یوسف سامرہ آتے وقت راستہ میں بہت پریشان تھا،جب سامرہ کے قریب پہنچا تو اس نے اپنے آپ سے کہا کہ میں اپنے آپ کو سو اشرفی میں خدا سے خریدتا ہوں اگر مجھے متوکّل سے کوئی تکلیف نہ پہنچی تو میں ان اشرفیوں کوابن الرضاامام محمد تقی کی خدمت میں پیش کروں گا ،جن کو خلیفہ نے مدینہ سے سامرہ بلاکر خانہ نشین کردیا ہے اور میں نے سنا ہے کہ وہ اقتصادی اعتبار سے بہت زیادہ سختی میں ہیں۔وہ جیسے ہی سامرہ کے دروازہ پر پہنچااس نے اپنے آپ سے کہا بہتر ہے کہ متوکّل کے پاس جانے سے پہلے سو دینار مولا کی خدمت میں لے جاوٴں لیکن وہ آپ کا گھر ہی نہیں جانتاتھا،سوچا اگر کسی سے آپ کےگھر کا پتہ معلوم کرتا ہے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بات متوکّل کو معلوم ہوجائے کہ میں ابن الرضا کے گھر کی تلاش میں تھا تو وہ اور زیادہ غضبناک ہوجائے گا۔
وہ کہتا ہے کہ اچانک میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ میں اپنی سواری کو آزاد چھوڑدوں ممکن ہے خدا کے لطف وکرم سے بغیر کسی سے معلوم کیے ہی امام کے گھر پہنچ جاوٴں۔وہ کہتا ہے کہ میں نے اپنی سواری کو آزاد چھوڑدیا وہ گلیوں اور بازاروں سے گذرتی ہوئی ایک گھر کے دروازے پر جاکر رک گئی میں نے بہت کوشش کی لیکن وہ وہاں سے آگے نہ بڑھی۔میں نے ایک شخص سے پوچھا یہ کس کا گھر ہے؟اس نے جواب دیا یہ ابن الرضا رافضیوں کے امام کا گھر ہے۔میں نے کہا کہ ان کی عظمت وشرافت کے لئے یہی کافی ہے کہ انہوں نے بغیر سوال کے میری سواری کو اپنے دروازے پر لاکر کھڑا کردیا۔
میں اسی فکر میں تھا کہ ایک سیاہ فام غلام گھر سے باہر آیا اور کہا: تم ہی یوسف بن یعقوب ہو؟میں نے جواب دیا: ہاں۔غلام نے کہا:سواری سے اترو:وہ مجھے گھر کے اندر لے گیا اور خود ایک کمرہ میں چلا گیا۔میں نے اپنے آپ سے کہاکہ یہ دوسری دلیل ہے کہ جس غلام نے مجھے آج تک دیکھا ہی نہیں وہ کیونکر میرے نام سے آگاہ تھا۔ میں تو ابھی تک اس شہر میں بھی نہیں آیا تھا؟!
غلام دوبارہ آیا اور اس نے کہا:جن سو اشرفیوں کو تونے اپنی آستین میں چھپا رکھا ہے لاوٴاسے دے دو۔میں نے اپنے آپ سے کہا:یہ ہوئی تیسری دلیل۔غلام گیا اور فوراً پلٹ آیا اور اس نے مجھ سے گھر کے اندرونی حصہ کی طرف جانے کو کہا۔ میں نے اپنے خچر کووہیں باندھا اور گھر میں داخل ہوگیا۔میں نے دیکھا کہ ایک شریف اور با عظمت شخص تشریف فرما ہیں۔انہوں نے فرمایا:اے یوسف! کیا تونے اتنے دلائل وبراہین نہیں دیکھ لیے کہ اب اسلام لے آئے؟میں نے کہا: میں نے یہ اندازے والی چیزیں ہیں،جسکا میں نے کافی مشاہدہ کیا ہے۔آپ نے فرمایا:افسوس کہ تو مسلمان نہ ہوگا لیکن تیرا بیٹا اسحاق مسلمان ہوجائے گا اور وہ میرے شیعوں میں سے ہو گا۔اے یوسف! بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہماری محبت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔خدا کی قسم ایسا نہیں ہے بلکہ جو بھی ہم سے محبت کرے گا وہ اس کا فائدہ دیکھے گا۔چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم! اب تو مطمئن ہو کر متوکّل کے پاس جاوٴ اور ذرا بھی نہ گھبراوٴ،تمہیں اس سے کوئی تکلیف نہ پہنچے گی۔جب تم شہر میں داخل ہوئے تو خداوندعالم نے تمہارے لئے ایک َملک کو معین کیا جوتمہارے خچر کی راہنمائی کررہا تھا اور اسے میرے گھر تک لے آیا۔
یوسف بن یعقوب کے بیٹے اسحاق نے جب اپنے باپ کی واپسی پر ماجرا سنا تو وہ مسلمان ہوگیا۔لوگوں نے امام سے اس کے باپ کے بارے میں سوال کیا توآپ نے فرمایا:اگر چہ وہ مسلمان نہیں ہوا اور جنت میں نہ جا سکے گالیکن وہ ہم سے محبت کا نتیجہ اور فائدہ ضرور دیکھے گا[1]-
2–وَ مُـعـادِيـاً لاَعْـدآئِـكَ:
جس طرح انسان کی سرشت میں شناخت اور علم ہی نہیں بلکہ اس کے وجود کے اندر جہل بھی پایا جاتا ہے اسی طرح انسان جذبات و احساسات کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ انسان ایک ایسا موجود ہے جس کے اندر مثبت احساسات و جذبات بھی پائے جاتے ہیں اور منفی بھی؛ یعنی ایک وجود دو طرح کے احساسات کا مالک ہے مثبت اور منفی۔ جس طرح خوشی ہمارے وجود میں موجیں مارتی ہے اسی طرح غم بھی ہچکولے کھاتا ہے۔ خدا نے ہماری تخلیق کو اس طرح سے بنایا ہے کہ نہ خوشی کے بغیر کوئی زندگی گذار سکتا ہے اور نہ غم و اندوہ کے بغیر۔ گریہ و ہنسی یہ ہماری اس مختصر سی حیات کے دو پہلو ہیں کسی بھی ایک پہلو یا رخ کو معطل کرنے کے یہ معنی ہوں گے کہ خدادادی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اُٹھایا۔خدا وند عالم نے ہمارے اندر محبت کو پیدا کیا ہے تاکہ ان لوگوں کی نسبت جو ہمارے ساتھ مہربانی کرتے ہیں اور ان لوگوں کی نسبت جو صاحبان کمال ہیں اظہار محبت کریں۔ جب انسان کسی کمال کو پاتا ہے یا کسی صاحب کمال کو پاتا ہے تو چاہتا ہے کہ اس کمال یا اس صاحب کمال سے محبت کرے۔ اس کے برخلاف انسان کے اندر محبت کے مقابلہ میں نفرت اور دشمنی بھی پائی جاتی ہے۔ جس طریقے سے انسانی فطرت اس شخص سے جو اس کے ساتھ احسان کرتا ہے محبت کرنا چاہتی ہے اسی طرح فطرت انسانی اس شخص سے جو اس کو نقصان پہنچاتا ہے نفرت کرنا چاہتی ہے۔البتہ دنیوی نقصانات ایک مومن شخص کے لئے زیادہ قابل اہمیت نہیں ہوتے اس لئے کہ دنیا اس کے سامنے کوئی قدر و قیمت نہیں رکھتی۔ لیکن اگر کوئی شخص انسان کے دین اور عقیدہ کو ضرر پہنچائے اس کی سعادت ابدی کو انسان سے چھین لے تو اس سے کیسے چشم پوشی کی جاسکتی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔ إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوّاً إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ ؛ بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے تو اسے دشمن سمجھو وہ اپنے گروہ کو صرف اس بات کی طرف دعوت دیتا ہے کہ سب جہنمیوں میں شامل ہوجائیں[2] ۔شیطان کے ساتھ مسکرا کر بات نہیں کی جاسکتی ورنہ انسان بھی شیطان ہوجائے گا۔
اگر انسان اولیائے الہی سے دوستی کرنا چاہتا ہے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ دشمنان خدا سے دشمنی کرے یہ انسانی فطرت ہے۔ اور انسانی سعادت کے تکامل کا ذریعہ بھی ہے۔ اگر خدا کے دشمنوں سے دشمنی نہ ہو تو کسی نہ کسی حوالے سے ان سے دوستی ہوگی جب ان سے دوستی ہوگی تو ان کی باتوں کو بھی قبول کرے گا اور آہستہ آہستہ شیطان ہوجائے گا۔ جس طرح انسان کے جسم کے اندر مفید مواد کو جذب کرنے کا عامل موجود ہے اسی طرح ایک دفاعی سسٹم بھی موجود ہے جو جراثیم کو دفع کرتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ جراثیم کا بدن میں داخل ہونا اشکال نہیں رکھتا اور یہ کہے کہ یہ ہمارے مہمان ہیں لہذا انکا احترام واجب ہے تو کیا اس صورت میں ہمارا بدن صحیح و سالم رہے گا؟ انسان کی روح کے اندر بھی اس طرح کی استعداد کا ہونا بہت ضروری ہے یعنی ایک روحانی قوت ،جاذبہ رکھتی ہو تا کہ جو لوگ ہمارے لئے مفید ہوں وہ ہمیں اچھے لگیں اور ہم انہیں دوست رکھیں اور ان کے نزدیک ہوں ان سے علم، کمال، ادب ،معرفت، اور اخلاق حاصل کرسکیں ۔ کیوں انسان اپنی پسندیدہ چیزوں کو دوست رکھتا ہے اس لئے کہ جب ان سے نزدیک ہوتا ہے تو ان سے فائدہ اُٹھاتا ہے اسی لئے ان اچھے لوگوں کی نسبت جو منشاء کمال ہیں اور معاشرے کی ترقی کے لئے موثر ہیں دوستی کا اظہار کریں اور ان کے مقابلہ میں وہ لوگ جو نقصان دہ ہیں جو سماج کی سرنوشت اور ترقی کی راہ میں راہ رکاوٹ ہیں عملی طور پر ان سے دشمنی کا اظہار کریں۔ان تمام باتوں کے بعد یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ اگر کوئی انسان کوئی خطا کرتا ہے تو اسے سماج سے باہر نہیں نکال دینا چاہیئے بلکہ اس کی اصلاح کرنے کی کوشش کرنا چاہیے کیونکہ وہ ایک ایسا بیمار ہوتا ہے جسکی تیمارداری لازمی۔ یہ دشمنی کے اظہار کا مقام نہیں ہے ۔ لیکن غدار ، کینہ پرور اور بنیادی دشمنوں کے ساتھ نہایت غصب و غصہ اور سخت لہجہ کے ساتھ بات کرنا چاہیے ۔ انہیں مار ڈالنا اور موت کے گھاٹ اتار دینا ہی واحد راستہ بچتا ہے اس لئے کہ وہ ہماری موت کے علاوہ کسی دوسری چیز پر راضی نہیں ہوسکتے۔ نہ صرف ہمارے بدن کی موت بلکہ ہماری روح اور ہمارے دین کی موت پر راضی ہوتے ہیں۔
3–مُسْتَنّاً بِسُنَّةِ خاتَمِ أَنْبِيآئِكَ:
خاتم الانبیاء اور اہلبیتِ طاہرین علیہم السلام کی سیرت اپنی ظاہری و باطنی وسعتوں اور پنہائیوں کے لحاظ سے کوئی شخصی سیرت نہیں، بلکہ ایک عالم گیر اور بین الاقوامی سیرت ہے، جو کسی شخصِ واحدکا دستور زندگی نہیں، بلکہ جہانوں کے لیے ایک مکمل دستور حیات ہے، جوں جوں زمانہ ترقی کرتا جائے گا اسی حد تک انسانی زندگی کی استواری وہمواری کے لئے اس سیرت کی پیروی و اتباع شدید سے شدید تر ہوتی جائے گی،زندگی میں کسی بھی چیز کی پیروی کرنے کے لیے ایک مکمل شخصیت کا نمونہ ہونا ضروری ہے، خواہ وہ معاشی فلسفہ ہو یا زندگی گزارنے کا مکمل طریقہ، آج تک جس شخص نے بھی کوئی نظریہ پیش کیا سب سے پہلے اسی کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کی، تب کہیں جا کر لوگوں نے اس کے افکار کو قبول کیا، انبیائے کرام تو انسانوں کی ہدایت، فلاح و کامیابی کے لیے اس دنیا میں تشریف لائے ہیں، ان کی زندگی تمام کی تمام وحی کی تعلیمات کے مطابق ڈھلی ہوتی ہے، ہم اگر قرآن مجید کی آیات کا مطالعہ کریں تو ہزاروں آیتیں در حقیقت وہ سیرت کا علمی اور تعارفی اسلوب ہیں اور سیرت کے یہ ہزاروں گوشے قرآن کے عملی پہلو ہیں ۔قرآن مجید میں جو چیز قال ہے وہی ذات نبوی اور اہلبیت طاہرین علیہم السلام میں حال ہے اور جو قرآن میں نقوش ہیں وہی انکی ذات اقدس میں سیرت ہیں۔قرآن مجید کے مختلف مضامین جو قرآنی سورتوں میں پھیلے ہوئے ہیں ان سے اپنی اپنی نوعیت اور مناسبت کے مطابق سیرت کے مختلف الانواع پہلو ثابت ہوتے ہیں، قرآن حکیم میں ذات و صفات کی آیات آپ کے عقائد ہیں ، احکام کی آیتیں آپ کے اعمال ،تکوین کی آیتیں آپ کا استدلال،تشریع کی آیتیں آپ کا حال، قصص و امثال کی آیتیں آپ کی عزت،تذکیر کی آیتیں آپ کی نیابت،اخلاق کی آیتیں آپ کی عبدیت،کبریائے حق کی آیتیں آپ کا حسن معاشرت،توجہ الی اللہ کی آیتیں آپ کی خلوت ہیں، اس طرح تربیت خلق اللہ کی آیتیں آپ کی جلوت، قہرو غلبہ کی آیتیں آپ کا جلال اور مہرو رحمت کی آیتیں آپ کا جمال، رحمت کی آیتیں آپ کی رجاء،عذاب کی آیتیں آپ کا خوف،انعام کی آیتیں آپ کا سکون و انس ہیں۔ غرض ہم کسی بھی نوع کی آیت کا مطالعہ کریں، تفسیر دیکھیں تو وہ آپ کی کسی نہ کسی پیغمبرانہ سیرت اور کسی نہ کسی مقام نبوت کی تعبیر ہے اور آپ کی سیرت ،اس کی تفسیر ہے ۔
خاتم الانبیآء اور اہلبیتِ طاہرین علیہم السلام کی سیرت نہ صرف عالم اسلام بلکہ عالم انسانیت کی رہنمائی اور فلاح ونجات کا باعث ہے، اس سے دنیا کا ہر انسان اپنی دنیوی اور ظاہری زندگی بسر کرنے کے اسلوب سیکھ سکتا ہے اور اخروی نجات کے اسباب بھی پیدا کرسکتا ہے۔اگر امت مسلمہ بالخصوص اور عالم انسانیت بالعموم ،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور فرامین پر عمل کرے تو خطہ ارض سے تمام مشکلات کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ امت مسلمہ کی نجات کے لئے وصالِ نبوی کے بعد اہل بیت اطہار علیہم السلام نے امت کے تمام معاملات میں رہنمائی کی۔ عالم انسانیت کے انفرادی،اجتماعی’،روحانی ،دینی اور دنیوی مسائل کا حل اہل بیت علیہم السلام نے اپنے عمل و کردار سے پیش کیا اور خاتم النبین کے بعد حقیقی جانشین کے طور پر اپنے فرائض انجام دیئے۔اگر ہم خواہش مند ہیں کہ سیرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عملی مشاہدہ کریں اور سنت نبوی کی عملی تعبیر و تشریح دیکھیں تو ہمیں سیرت اہلبیت علیہم السلام کا مطالعہ و مشاہدہ کرنا ہوگا کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام اور سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور اپنے اہلبیت علیہم السلام کی تربیت اس نہج پر کی کہ اہلبیت علیہم السلام ہر مرحلے، ہرمیدان، ہر موڑ اور ہر انداز میں شبیہ پیغمبر نظر آئے۔ موجودہ پرفتن اور سنگین حالات میں ہمیں سیرت خاتم الانبیاء اور روشِ اہلبیت علیہم السلام سے درس لیتے ہوئے باہمی اختلافات اور فروعی مسائل کے حل کے لئے امن، محبت’،رواداری’،تحمل اور برداشت کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ امت مسلمہ میں شیعہ سنی کی تفریق اور مسلکی اختلافات کے خاتمے، امن و آشتی کے فروغ اور حکومت سازی کے اسلامی معیار کے قیام کے لئے سیرت خاتم الانبیاء اور روشِ اہلبیت علیہم السلام پر عمل ہی واحد راستہ ہے۔ اپنے دشمن کے ساتھ گولی اور گالی کا طریقہ اپنانے کے بجائے علم،عقل و شعور، محبت اور تحمل اور برداشت کا راستہ اپنانا ہوگا اور اپنے خدا اور خاتم الانبیاء کی خوشنودی حاصل کرنا ہوگی۔
4–يـا عـاصِـمَ قُـلُوبِ النَّبِيّـينَ:
خدا کی مخلوق میں خدا کے بعد سب سے بڑا مرتبہ انبیاء و مرسلین کا ہے،یہ ہستیاں دنیا کے لئے خدا کے خلیفہ ہیں اور ”تخلقوا باخلاق اللہ“ کے سب سے بڑے نمونے ہیں،اللہ کی اطاعت و عبودیت کے سب سے اونچے پیکر، مجسم العلوم و معرفت الہیہ کے سب سے زیادہ عالم و عارف، خدا کی ذات و صفات کے ہمہ وقت مشاہدہ و استحضار سے مستفید و مستنیر۔جتنی خوبیاں اور جتنے اوصافِ کمال خدا کی ذات کے بعد کسی مخلوق میں جمع ہوسکتے ہیں وہ سب انبیاء و مرسلین میں جمع ہوئے ہیں، اسی لیے کسی ایک نبی کے مرتبہ کمال علمی و عملی کو بڑے سے بڑا ملک مقرب بھی نہیں پہنچ سکتا اور اپنے اپنے دور کے ہر نبی کو ”بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر“ کا مصداق کہا جاسکتا ہے۔ اس لئے دعا کے اس آخری فقرہ میں انبیائے کرام کے پاکیزہ قلوب کا واسطہ دیتے ہوئے ہم اپنی حاجات خدا کے حضور رکھتے ہیں۔۔۔۔
دعا کا پیغام:
1-خدا کے دوستوں سے دوستی اور خدا کے دشمنوں سے دشمنی؛
2- پيغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی؛
پیغام:️
یک دن پیغمبر اکرمﷺنے ارشاد فرمایا: «کیا جانتے ہو کہ ایمان کا کونسا دروازہ سب سے محکم ہے؟ سب نے ایک جواب دیا، پھر آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اَلْحُبُّ فِی اللهِ وَ الْبُغْضُ فِی اللهِ وَ تَوالِی اَوْلِياءَ اللهَ و التَّبَرِی مِنْ اَعدَاءِ اللهِ؛ ایمان کاسب سے محکم دروازہ،خدا کی راہ میں دوستی اور دشمنی اور اسکے اولیاء سے دوستی اور اسکے دشمنوں سے بیزاری ہے[3]۔»
[1] – مجمع النورین نقل از خرائج وبحار الانوار/ج/۱۲
[2] –فاطر ۶
[3]– مجلسی،بحار الأنوار، ج 69، ص 243