نومبر 18, 2024

ماہ رمضان المبارک کے پندرھویں دن کی دعا

تحریر: محمد شاہد رضا خان

پیغام

حقیقی مؤمن کی ایک صفت «خشوع» ہے،یہ صفت يعنی فروتنی كه جو قلب اور دیگر اعضا و جوارح کو بھی شامل کرتی ہے، خشوع جوارح بغیر خشوع قلب کے ایک طرح سےتظاہر اور نفاق ہے جس سے پرهیز کرنا بہت ضروری ہے۔

دعا ۔
أَللّـهُمَّ ارْزُقْنى فيهِ طاعَةَ الْخاشِعـينَ وَ اشْرَحْ فيهِ صَدْرى بِاِنابَةِ الْمُخْبِتينَ بِأَمانِكَ يا أَمـانَ الْخـآئِفـينَ ۔

ترجمہ:اے معبود! اس مہینے میں عجز و انکسار والوں کی سی طاعت عطا فرما، اور خاکسار اطاعت شعاروں کی سی توبہ کرنے کے لئے میرا سینہ کشادہ فرما، تیری امان کے واسطے، اے خوفزدہ ہونے والوں کی امان۔

نکتہ ۔

(1)رزق فقط مادّی عنایتوں کا نام نہیں اسی لیے پروردگار سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ خاشع افراد والی طاعت و بندگی سے نوازے

دعا کی تشریح۔
1– أَللّـهُمَّ ارْزُقْنى فيهِ طاعَةَ الْخاشِعـينَ:

1۔ رزق کی تمناکرنا انسان کی خواہشات میں شامل ہے ،اکثر لوگ رزق میں اضافے کے لئےعاملین سے رہنمائی لیتے ہیں یا کتابوں سے ایسے وظائف تلاش کر کہ پڑھتے ہیں،ایسے حضرات کے لئے ماہ رمضان انتہائی اہم مہینہ ثابت ہوسکتا ہے ،اس ماہ میں چاہئے کہ وہ اللہ سے دعائیں کریں ،عبادات کریں اور ماہ رمضان میں قرآن مجید کی تلاوت اپنا شعار بنا لیں۔۔۔ لوگوں کے عام تصور کے خلاف کہ”رزق” کو صرف اس کے مادی مصادیق میں استعمال کرتے ہیں، روایتوں میں لفظ “رزق” وسیع معنی میں استعمال ہوا ہے اور خدا وند متعال کی تمام نعمتوں پر مشتمل ہے۔ خواہ وہ نعمت مادی ہو یا معنوی۔ اس لحاظ سے تندرستی، آرام، حج جیسے واجبات بجالانے کی توفیق، اچھے دوست وغیرہ، تمام رزق شمار ہوتے ہیں۔عربی زبان میں رزق کا لفظ جہاں روزی روٹی کے معنی میں آتا ہے وہاں ہر طرح کی عنایات کے لے بھی آتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں بھی یہ مال و دولت کے لیے بھی ہے، متاع حیات کے لیے بھی آیا ہے اور ہدایت و معرفت کے لیے بھی استعمال ہوا ہے ۔ مختصراًہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ رزق کا لفظ اللہ کی طرف سے بندوں کو عطا ہونے والی ہر عنایت کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔

2 خشوع اس کے معنی اس جسمانی اور روحانی خاکساری کے ہیں کہ جو کسی عظیم شخصیت کے سامنے یا کسی اہم حقیقت کی وجہ سے انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے اور اس کا اثر بدن سے ظاہر ہوتا ہے۔ [1]

قرآن مجید میں خداوندمتعال نے خشوع وخضوع کو مؤمنین کی صفت قرار دیا ہے اور اسی کے ذریعے مؤمنوں کا تعارف کرایا ہے ارشاد ہے: قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ؛الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاَتِهِمْ خَاشِعُونَ ؛یقینا صاحبانِ ایمان کامیاب ہوگئے ؛ جو اپنی نمازوں میں گڑگڑانے والے ہیں [2]۔

آیت میں اگرچہ حالت نماز کا ذکر کیا گیا ہے لیکن یہ واضح ہے کہ انکساری کا تعلق صرف نماز کے ساتھ خاص نہیں بلکہ زندگی کے ہر معاملے میں انسان کوخشوع کا مظاہره کرنا چاہیئے اور یہ مؤمنین کی صفات میں سے ایک اہم صفت ہے۔

ان روایات پر توجہ فرمائیں ۔
عیسی بن داؤد نے حضرت ابولحسن امام موسی کاظم علیہ السلام سے روایت بیان کی ہے کہ آپ نے فرمایا خداکی قسم ہمارے شیعہ فقط وہی لوگ ہیں جن کی خداوندعالم نے عبادت وانکساری اور نرم دلی جیسی صفات بیان کی ہیں چنانچہ( سوره مریم میں )ارشاد فرماتا ہے”اور جب ان کے سامنے رحمن(الله) کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وه سجده کرتے ہوئے اور روتے ہوئے جھک جاتے ہیں[3]۔

روی انّ امیرالمؤمنین علیہ السلام خرج ذات لیلةمن المسجد۔۔۔ ولحقه جماعة یقفون اثره فوقف علیہم ثم قال من انتم؟قالواشیعتک یا امیرالمؤمنین ۔۔۔قال فما لی لا أری علیکم سیماء الشیعة، قالوا وماسیماء الشیعة یا امیرالمؤمنین؟فقال،علیہم غبرة الخاشعین۔روایت بیان کی گئی ہے کہ ایک رات حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام مسجد سے نکلے تو کچھ لوگ آپ کے پیچھے چلتے ہوئے آپ کے قریب آگئے ۔آپ ان کے سامنے ٹھہر گئے اور ان سے دریافت کیا کہ تم کون لوگ ہو ؟وه کہنے لگے مولا!ہم آپ کے شیعہ ہیں۔آپ نے فرمایا مجھے کیا ہو گیا ہے کہ میں تم میں اپنے شیعہ کی ایک نشانی بھی نہیں دیکھ پارہا۔وه کہنے لگے یا امیرالمؤمنین شیعہ کی علامتیں کیا ہیں ؟تو آپ نے وه علامتیں بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ان پر خشوع کرنے والوں کا غبار نمایاں ہو[4]۔

2–وَ اشْرَحْ فيهِ صَدْرى بِاِنابَةِ الْمُخْبِتينَ:

1۔شرح صدر(سینہ کی کشادگی) ایک عظیم نعمت اور ضیق صدر(سینہ کی تنگی) ایک خدائی سزا شمار کی گئی ہے ، جیسا کہ خدا اپنے پیغمبر گرامی اسلام سے ایک عظیم نعمت کابیان کرتے ہوئے کہتا ہے:اٴَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ کیا ہم نے آپ کے سینہ کو وسیع اور کشادہ نہیں کیا[5]۔یہ ایک ایسا امر ہے کہ جو افراد کے حالات کا مشاہدہ کرنے سے اچھی طرح معلوم ہوسکتا ہے۔ بعض کی روح اس قدر بلند وکشادہ ہوتی ہے جو ہر حقیقت کو قبول کرنے کے لئے ۔چاہے وہ کتنی بڑی کیوں نہ ہو۔ آمادہ اور تیار ہوتی ہے لیکن اس کے برعکس بعض کی روح اتنی تنگ اور محدود ہوتی ہے جیسے کسی بھی حقیقت کے نفوذ کے لئے اس میں کوئی راہ اور جگہ نہیں ہے ان کی فکری نگاہ کی حد روزمرہ کی زندگی اور کھانے پینے تک ہی محدود ہوتی ہے، اگر وہ انہیں مل جائے تو ہر چیزاچھی ہے اور اگر اس میں تھوڑا سا بھی تغیر پیدا ہوجائے تو گویا سب کچھ ختم ہوگیا ہے اور دنیا خراب ہوگئی ہے۔جس وقت یہ آیت «اٴَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ» نازل ہوئی پیغمبر گرامی اسلام سے لوگوں نے پوچھا کہ شرح صدر کیا ہے تو آپ نے فرمایا:”نور یقذفہ اللّٰہ فی قلب من یشاء فینشرح لہ صدرہ وینفسح“ ”ایک نور ہے کہ جسے خدا جس شخص کے دل میں چاہے ڈال دے تواس کے سائے میں اس کی روح وسیع اور کشادہ ہوجاتی ہے“۔لوگوں نے پوچھا کہ کیا اس کی کوئی نشانی بھی ہے جس سے اسے پہچانا جائے تو آپ نے فرمایا:”نعم الانابة الی دار الخلود والتجافی عن دارالغرور والاستعداد للموت قبل نزول الموت‘‘ہاں! اس کی نشانی ہمیشہ باقی رہنے والےگھر کی طرف توجہ کرنا ، اور دنیا کے زرق برق سے دامن سمیٹنا، اور موت کے لئے آمادہ ہونا (ایمان وعمل صالح اور راہ حق میں کوشش کرنے کے ساتھ ) قبل اس کے کہ موت آجائے “[6]۔[7]
2۔”مخبتین“ ”اخبات“ کے مادہ سے ہے ”خبت“ (بر وزن ”ثبت“ ) سے لیا گیا ہے جو ہموار اور وسیع وعریض زمین کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، جس پر تمام انسان آرام سے چل پھر سکتےہیں، بعد ازآن یہ مادہ اطمینان اور انکساری کے معنیٰ میں استعمال ہونے لگا، کیونکہ زمین پر چلنے والا مطمئن اور اس کے پاوٴں تلے زمین منکسر ومتواضع ہوتی ہے ۔”اخبات“ عجزو انکساری اور تسلیم کا نام ہے، یہ مومنین کی خاص صفات میں سے ہے۔۔۔

4–بِأَمانِكَ يا أَمـانَ الْخـآئِفـينَ: تیری امان کے واسطے، اے خوفزدہ ہونے والوں کی امان۔۔۔۔

پیغام :
1- خاشعانه عبادت ؛
2- شرح صدرکی درخواست؛
3- خدا ترس دلوں کا امان میں ہونا۔
حقیقی مؤمن کی ایک صفت «خشوع» ہے،یہ صفت يعنی فروتنی كه جو قلب اور دیگر اعضا و جوارح کو بھی شامل کرتی ہے، خشوع جوارح بغیر خشوع قلب کے ایک طرح سےتظاہر اور نفاق ہے جس سے پرهیز کرنا بہت ضروری ہے۔

ایک روایت میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز میں اپنی ڈاڑھی کے بالوں سے کھیلتا دیکھا تو فرمایا: «أما إنَّهُ لَوْ خَشَعَ قَلْبُهُ لَخَشَعَتْ جَوَارِحُهُ؛ اگراس کا قلب خاشع ہوتا، تو اسکے اعضاء وجوراح بھی خاشع ہوتے[8]

منابع

[1] تفسير نمونه میں لغات کی بحث ؛ ص204۔

[2]– سوره مؤمنون آیت١،٢

[3]– بحار الأنوار — ج ٢٣ – الصفحة ٢٢٤

[4] – بحارالانوار، 65، صفحه 151

[5]–[5] سورہٴ الم نشرح، آیہ :۱

[6]– مجمع البیان، جلد ۴، صفحہ ۳۶۳

[7] تفسير الصافي ج۲ ص۱۵۵۔

[8]– محمدی ری‌شهری، محمد، میزان الحکمه، ج ۳، ص ۳۹

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

twelve + 19 =