تحریر: محمد شاهد رضا خان
پیغام:
استغفار، اسلام کے بلند ترین حقائق میں سے ایک ہےجسکے بارے میں 80 سے زیادہ قرآن مجید کی آیات میں تاکید کی گئی ہے،حقیقی توبہ کی چار بنیادی شرائط ہیں:
ماضی کے غلط کاموں پر اظہار ندامنت،
گناہ کو دوبارہ انجام نہ دینے کا پکّا وعدہ ،
حقوق الهى۔
اور لوگوں کے حقوق کی ادائیگی ۔
اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي فِيهِ مِنَ الْمُسْتَغْفِرِينَ وَ اجْعَلْنِي فِيهِ مِنْ عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ الْقَانِتِينَ وَ اجْعَلْنِي فِيهِ مِنْ أَوْلِيَائِكَ الْمُقَرَّبِينَ بِرَأْفَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ۔
ترجمہ: خدایا اس دن مجھے استغفار کرنے والوں میں شامل کردے، خدایا مجھے اپنے نیک بندوں میں قرار دے تاکہ تیرا فرمانبردار ہوں اور تیری اطاعت کروں، اپنےلطف و کرم سے ہمیں اپنے اولیاء و مقربین کی بارگاہ میں قرار دےتاکہ انکے تابع رہیں،اے خدا تیری رحمت سب سے زیادہ رحم کرنے والوں پر غالب ہے۔
نکات
استغفار کرنے والے:
اپنے گناہوں پر شرمندہ ہیں اور ہمیشہ خوف اور امید کے ساتھ خدا سے معافی مانگتے ہیں ، اور ان کا استغفار عذاب ، غم ، خوف اور پریشانی دور کردیتا ہے۔ استغفار سے انسان کی روزی میں اضافہ ہوتا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ عبدِصالح ہونا ہماری قابلیت سے بڑھ کر ہے ، لیکن اپنے خدا سے بڑی چیزیں کیوں نہ مانگی جائے؟ مگر اس کے علاوہ بھی کوئی بات ہے کہ خدا اپنے صالح بندوں میں اضافہ کرنے کے لیے آمادہ اور خوشحال ہے۔ اب جب کہ نعمتوں کا دسترخوان ایک بار پھر بچھا دیا گیا ہے تو آئیے ہم رب کی بہترین نعمت کے طلب گار بنیں ، یعنی نعمتوں اور برکتوں کے علاوہ ، ہم خوداس ماہ کے میزبان کے قریب ہوجائیں۔
دعائیہ فِقرات کی تشریح
1– اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي فِيهِ مِنَ الْمُسْتَغْفِرِينَ :
استغفارکا نتیجہ
جو زیادہ استغفار کرتا ہے اسے تین چیز یں نصیب ہوتی ہیں: مَنْ أَكْثَرَ اَلاِسْتِغْفَارَ جَعَلَ اَللَّهُ لَهُ مِنْ كُلِّ هَمٍّ فَرَجاً وَ مِنْ كُلِّ ضِيقٍ مَخْرَجاً وَ رَزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لاَ يَحْتَسِبُ[1]۔
اول: جَعَلَ اَللَّهُ لَهُ مِنْ كُلِّ هَمٍّ فَرَجاً : جو مشکل و پریشانی ہے وہ ختم ہوجاتی ہے۔
دوم: وَ مِنْ كُلِّ ضِيقٍ مَخْرَجاً :اگر پریشان ہیں (شادی کی مشکل، گھر کی مشکل و۔۔۔۔) ہے تو استغفار کریں، خدا ان مشکلات کی گرہ کھول دے گا۔
استغفار کےشرائط
ایک شخص حضرت علی کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: ’’استغفرالله‘‘ حضرت علی Aنے فرمایا: تیری ماں تیرے غم میں روئے ۔ جانتے بھی ہو کہ استغفار کیا ہے ۔۔۔۔؟ یہ وہی استغفار ہے جو علیین کا درجہ رکھتا ہے یہ وہ نام (علیین) ہے جس کے چھ معنی ہیں: (1)ماضی کے کیئے پر افسوس کرے(2)گناہ و معصیت سے دوری کا عزم و ارادہ کرے تا ابد(3)مخلوقات کے حق کو ادا کرے تاکہ پاک و مطہر ہو کر خدا سے ملاقات کرے یعنی مخلوقات کا حق تمہاری گردن پر نہ ہو(4)ہر وہ فریضہ و واجب جو ضائع کردیا ہے اس کی ادائیگی کرے(5)وہ گوشت جو حرام کے ذریعے پروان چڑھاہے اسے محنت و مشقت کے ذریعے پگھلاؤ، یہاں تک کہ ہڈی اور جلد کے درمیان دوسرا گوشت پروان چڑھ جائے(6)تم نے جو گناہوں کی لذت اٹھائی ہے اسے جسمانی درد و رنج کے ذریعے مٹاؤ، تب جاکر کہہ سکتے ہو”استغفرالله‘‘۔
سوم : وَ رَزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لاَ يَحْتَسِبُ: ایسی جگہ جہاں سے انسان گمان بھی نہیں کرتا وہاں سے روزی ملتی ہے۔
رزق، فقط پیسہ ہی نہیں
رزق ہمیشہ پیسہ ہی نہیں، حدیث میں بارہا آیا ہے کہ اگر فلاں کام کرو گے تمہارا رزق زیادہ ہوگا، رزق سے مراد رزق معنوی بھی ہے ، اچھا دوست رزق ہے، زندگی کے اچھے ہمسفر اور دوست رزق ہیں۔
2– َ اجْعَلْنِي فِيهِ مِنْ عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ الْقَانِتِينَ:
خدایا مجھے اپنے نیک بندوں میں قرار دے تاکہ تیرا فرمانبردار ہوں اور تیری اطاعت کروں،کیونکہ پروردگار فرمانبردار انسان کو پسند کرتا ہے،اس دن ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ ہمیں بھی بندگان صالح اور اس کے حکم کا مطیع قرار دے۔
3– وَ اجْعَلْنِي فِيهِ مِنْ أَوْلِيَائِكَ الْمُقَرَّبِينَ :
آیات و روایات کے پیش نظر؛ جسے قرب الہی نصیب ہو وہ کبھی بھی اپنی زندگی کے کسی بھی حصہ میں یاد خدا سے غافل نہیں ہوگا اور خدا کی بندگی صرف اور صرف خدا کی رضا کے لئے انجام دیگا؛ اس بات کوسمجھنے کے لئے بہتر نمونہ و مثال حضرت علی کی ذات والاصفات ہے آپ پروردگار سے مناجات کرتے ہوئے اس طرح فرماتے ہیں: ”الهی ما عبدتک خوفا من نارک و لاطمعا فی جنتک لکن وجدتک اهلا للعباده فعبدتک” خدایا تیری عبادت جہنم کے خوف سے اور بہشت کی لالچ میں نہیں کرتا بلکہ تجھے عبادت کے لائق سمجھتا ہوں اسلئے تیری عبارت کرتا ہوں، ہم بھی معبود سے اس دن چاہتے ہیں کہ وہ اپنےلطف و کرم سے ہمیں اس کے دوستان و مقربان کی بارگاہ میں قرار دےتاکہ انکے تابع رہیں۔
4– بِرَأْفَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ:
کہتے ہیں کہ خدایا اپنی مہربانی سے ہماری دعاؤں کو قبول کر، اے خدا تیری رحمت سب سے زیادہ رحم کرنے والوں پر غالب ہے۔
پیغام:
1- استغفار کرنے والوں کی صَف میں قرار پانا۔
2- اطاعت گزار صٓلح افراد میں قرار پانا۔
3- مقرب اولیائے خدا کی صَف میں ہونا۔
4- خدا کی رأفت و رحمت کی درخواست۔
پیغام:️
توبہ و استغفار، اسلام کے بلند ترین حقائق میں سے ایک ہےجسکے بارے میں اَسّی سے زیادہ قرآن مجید کی آیات میں اس پر تاکید کی گئی ہے،حقیقی توبہ کی چار بنیادی شرائط ہیں: ماضی کے غلط کاموں پر اظہار ندامنت،گناہ کو دوبارہ انجام نہ دینے کا پکّا وعدہ ، حقوق الهى اور لوگوں کے حقوق کی ادائیگی ۔
تکمیلی شرائط:
(1) عبادت میں تکلیف و شدائد کا برداشت کرنا۔
(2) معصیت کے دوران پروان چڑھنے والے گوشت و پوست کو پگھلا ڈالنا۔
پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: «کیا تمہیں معلوم ہے کہ تائب (توبہ کرنے والا) کون ہے ؟ لوگوں نے کہا: نہیں! آپ نے فرمایا: توبہ کرنے والا اگر اپنے سے گِلہ شکوہ رکھنے والے کو جب تک راضی نہ کرلے وہ تائب نہیں ہے؛ جو کوئی توبہ کرےلیکن اپنے رہن سہن اور اپنے کھانے پینے کو نہ بدلے وہ تائب نہیں ہے؛جو کوئی توبہ کرے لیکن گناہ کے دَوران کے ساتھیوں کو نہ بدلے ،وہ تائب ہے؛ جو کوئی توبہ کرے لیکن اسکے عبادتوں میں اضافہ نہ ہو تو ایسا شخص بھی تائب نہیں ہے[2]۔
[1]– بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار علیهم السلام , ج 74 , ص 172۔ عوالي اللئالي , ج 1 , ص 170
[2]– مستدرک الوسائل، ج ۱۲، ص ۱۳۱؛بحار الأنوار، ج ۶، ص ۳۵ و ۳۶