تحریر: محمد شاہد رضا خان
پیغام:
1- ابرار کی ہمراہی کی درخواست؛
2- اَشرار اور بد طینت افراد کے ساتھ عدم رفاقت
3- بہشت مؤمنین کے آرام کی جگہ۔ منتخب پیغام:️ حضرت علیؑ فرماتے ہیں: «بُرے اور شریر لوگوں سے دوری اور اچھے لوگوں کی مجلسِ اختیار کرو»
دعا ۔
أَللّـهُمَّ وَفِّقْنى فيهِ لِمُوافَقَةِ الاَبْرارِ وَ جَنِّـبْنى فيـهِ مُـرافَـقَـةَ الاَشْـرارِ وَآوِنى فيهِ بِرَحْمَتِكَ اِلى دارِالْقَرارِ بِاِلهِيَّتِكَ يـا اِلـهَ الْعالَـمينَ۔
ترجمہ:اے معبود! آج مجھے( اس مہینے میں) نیک انسانوں کا ساتھ دینے اور ہمراہ ہونے کی توفیق عطا فرما اور بروں کا ساتھ دینے سے دور کردے، اور اپنی رحمت سے مجھے سکون کے گھر میں پناہ دے، تیری معبودیت کے واسطے اے تمام جہانوں کے معبود۔
نکات
1۔نیک افراد کی ہمراہی اور شریر لوگوں سے دوری؛
2۔خدا کی جاودانہ رحمت کی پشت پناہی۔
دعا کی تشریح۔
1–أَللّـهُمَّ وَفِّقْنى فيهِ لِمُوافَقَةِ الاَبْرارِ وَ جَنِّـبْنى فيـهِ مُـرافَـقَـةَ الاَشْـرارِ:
بعض افراد فتنہ کے ماحول میں، اس جملہ «كُنْ فِى الْفِتْنَةِ كَابْنِ اللَّبُونِ لا ظَهْرٌ فَيُرْكَبَ وَ لا ضَرْعٌ فَيُحْلَبَ»[1] کا استعمال کرتے ہیں اور اس سے غلط مفہوم نکالتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اسکے معنی یہ ہیں کہ جب فتنہ کا دور دورہ ہو اور حالات مشتبہ ہوں تو کنارہ کشی! اختیار کرلی جائےجبکہ کسی طور اس جملہ کا مفہوم «کنارہ کشی» اختیار کرنا نہیں ہے کیونکہ کہ اس جملہ کا اصل مطلب یہ ہے کہ کسی بھی طرح کوئی بھی فتنہ پرور و فتنه گر آپ سے فائدہ نہ اٹھا سکے اور نہ ہی آپ کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے استعمال میں لاسکے «لا ظهر فيركب و لا ضرع فيحلب»؛ نہ سوار و مسلط ہوسکے اور نہ ہی۔۔۔۔۔ ہمیشہ ہشیار اور بیدار رہیں۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ یہ کنارہ کشی وہی پستان ہے جو يُحلب؛ ہے، اور یہ وہی پیٹھ ہے جو يُركب! ہے، کیونکہ کبھی کبھی سكوت، كنارہ کشی، کچھ نہ بولنا، خود فتنہ کی مدد ہے، فتنہ کے دوران ہر ایک کو اپنا موقف واضح اور روشن، اور ہر ایک کو بصیرت سے کام لینا چاہیئے۔
۔۔۔حقیقت تو یہ ہے کہ ہم کسی صورت صرف نظارہ گر بن کے ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتے ،اپنے راستہ اور ہدف اور مَوقَف کومعین کرنا ہی ہوگا ، معین کرنا ہوگا کہ کس جانب ہیں اسی لئے جب کسی دھڑے یا گروہ کے ساتھ دینے کی بات آئے تو اسکا معیار کیا ہو اسے سمجھنا ہوگاکیا ساتھ نبھانے کا مِلاک شخصی فائدہ ہونا چاہیئے یا ایمانی؟کیا ہم صرف مادی منفعت کے بارے سوچ رہے ہیں یا خوف خدا بھی ہے؟کیا کسی گروہ کا ساتھ دینا آخرت کی بنیادوں پر ہے یا کرسی کی لالچ میں؟ظالموں کے مقابل ہمارا رویہ کیسا ہے امریکہ و اسرائیل جو لوگوں کا خون چوس رہے ہیں اور زبانی طور پر لوگوں کے حقوق کا نعرہ بلند کرتے ہوئے مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں اور عملی طور پر دہشتگردوں کو مالی اور سیاسی تعاون پہنچاتے ہیں انکے مقابل میں ہم کیا اقدامات کررہے ہیں؟غور فرمائیں کہ ساری جنگیں اور نا امنی کا ماحول اسلامی ممالک کا رخ کئے ہوئے ہیں جب کہ وہ خود کاخ سفید میں بیٹھ کر ہمارے الجھاؤ پر ہنس رہے ہیںاور آرام و سکون کی زندگی بسر کررہے ہیں گویا تمام جنگ و خونریزی اسی نقطۂ زمین سے مخصوص ہے۔۔اس عالمی تباہکاری کے نقشہ کے سامنے ہمارا کیا کردار ہے؟ بہر حال ابرار و اشرار کا یہ آمنا سامنا جنود رحمان و شیطان کی یہ جنگ ہمیشہ سے ہی ہے؛ اہم یہ ہے کہ ہمارا فریضہ کیا ہے؟آنکھیں بند کئے نہیں رکھ سکتے کم از کم ہمیں اپنا خیمہ معین کرنا ہی ہوگا کہ ہم کس طرف ہیں کیونکہ ماضی میں اپنا موقف معین نہ کرنے والوں کی وجہ سے ہم نے بہت نقصان اٹھایا ہے۔
ربیع بن خثیم امیر المومنین علی علیہ السلام کے ساتھیوں میں سے تھا جو ظاہری طور پر زاہد بھی تھا جنگ صفین کے وقت امام علی علیہ السلام کی خدمت میں آکر کہنے لگا: ایک طرف تو آپ پیغمبر گرامی اسلام کے برحق جانشین ہیں اور دوسری جانب یہ جنگ مسلمانوں کے ساتھ ہورہی ہے!میں نہیں چاہتا کہ اس خونریزی کا شریک بنوں جبکہ دوسری جانب یہ بھی نہیں چاہتا کہ آپکے دائرۂ حکومت سے باہر جاؤں، اس لئے مجھے کسی ایسی جگہ بھیج دیجیئے کہ جہاں میں خدمت بھی انجام دے سکوں اور میرے لئے ایسی کو مشکل بھی نہ ہو! امیر المومنین علی علیہ السلام نے اس سے کچھ نہ کہا اور خراسان کے بارڈر کی نگہبانی اسکے حوالے کرکے روانہ کردیا[2]۔
کیا ربیع بن خثیم کا یہ فعل قابل دفاع ہے؟اس کا فرض تھا کہ وہ امام کے پرچم تلے جنگ کرتا اور میدان نہ چھوڑتا،یہ زہد نہیں بلکہ وسوسۂ شیطانی کی پیروی ہے۔
آپ جانتے ہی ہیں کہ تیں گروہوں نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے بالمقابل فتنہ و فساد برپا کیا،ناکثین نے طلحہ اور زبیر اور۔۔۔کی رہبری میں، قاسطین نے معاویہ کی رہنمائی میں ،اور پھر مارقین ،جوکہ خوارج ہیں، ان تینوں گروہوں نے ، امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے بالمقابل فتنہ و فساد برپا کیا،ناحق خون بہائے مظلوموں کی جانیں لیں ظاہراً اسلام اور قرآن کا دم بھرتے تھے جبکہ حقیقت میں قرآن کے مقابل جنگ کے لئے آئےخاص طور پر خوارج کہ جو ظاہری طور پر بہت زیادہ نماز روزے والے اور اہل دعا اور اہل گریہ تھے۔
ایسی جگہوں پر کیا کرنا چاہیئے؟ہمارا موقف کس کی تائید کریگا؟۔ایسے مواقع پر بصیرت کی سخت ضرورت ہے ہمیں دیکھنا چاہیئے کہ علی علیہ السلام کس جانب کھڑے ہیں کیونکہ پیغمبر عظیم الشان نے ارشاد فرمایا ہے”علی مع الحق والحق مع علی” علی حق کے ساتھ ہیں اور حق بھی علی کے ساتھ ہے[3]، ”علی مع القرآن و القرآن مع علی؛علی قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن بھی علی کے ساتھ۔۔
بے مَوقَف رہنا کچھ نہ بولنا کوئی قابل افتخار کام نہیں ہے جب امیرالمؤمنین علی علیہ السلام واردِ جنگ ہوں تو اپنا موقف واضح ہونا چاہیئےاور آپکی مدد کے لئے دوڑ پڑنا چاہیئےاس لحاظ سے ہم جو تاریخ کے آئینہ میں کچھ کرداروں کو دیکھتے ہیں جنہوں سے سستی سے کام لیا وہ دنیا کے فریفتہ نظر آتے ہیں جیسے پسر سعد،طلحہ و زبیر۔۔۔یا شیطانی وسوسہ کے شکار جیسے خوارج،
حسن بصری کا کردار مقام عبرت ہےجو زہد اور دنیا گریزی میں مشہور ہوگیا ہے ! ایک دن جنگ صفین کے بعد وضو کرنے میں مصروف تھا امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اس سے کہا : اچھی طرح وضو کرلے اے حسن!بہت اچھی طرح،(یہ ایک طرح کا طنز تھا کہ دنیا کی خبر نہیں اور مسجد اور مصلے ہی سے چپکے ہواور امام وقت کا ساتھ دینے سے گریزاں ہو)اس نے جواباً کہا:کل تم نے ایسے لوگوں کو قتل کردیا جو بہت اچھی طرح وضو کرتے تھے!امام علیہ السلام نے فرمایا کیا تمہارا دل انکے لئے مانگ رہا ہے ؛حسن بصری نے کہا: ہاں، امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اسکے لئے بدعا کرتے ہوئے فرمایا ہمیشہ اسی کڑھن اور غم و غصہ میں مبتلا رہو وہ اس تاریح سے لیکر مرتے دم تک غم و غصہ ،افسردگی اور مایوسی میں مبتلا رہا [4]۔
عبید اللہ بن حر جُعفی وہ شخص تھا کہ جس سے امام حسین علیہ السلام نے مدد طلب کی اور اس نے
بے توجہی سے جواباً کہا ”میرے پاس گھوڑا ہے وہ میں آپ کے حوالے کرسکتا ہوں”امام عالی مقام نے قبول نہیں کیا۔امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد ابن زیاد نے اسے بلا بھیجا اور اس سے پوچھا کہاں تھے؟جواب میں اس نے اپنے مریض ہونے کا بہانہ پیش کیا،ابن زیاد نے کنایتاً کہا : تیرا جسم مریض تھا یا تیرا دل؟بعد میں اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا اور روتا پیٹتا کربلا پہنچا کہ افسوس فرزند رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کرنے سے محروم رہا۔۔۔لیکن اب کیا فائدہ!! اپنے موقف کا اظہار بروقت ہونا چاہیئے۔
اسی لئے اس دعا کے پہلے فقرہ میں ہے کہ پروردگار مجھے توفیق دے کے صاحبان ابرار کی ہمراہی کروں انکا ساتھ دوں اور شریر افراد کی دوستی اور انکی ہمراہی سے دور رہوں۔۔۔
2–وَآوِنى فيهِ بِرَحْمَتِكَ اِلى دارِالْقَرارِ:
اس فقرہ میں نیک اور ابرار لوگوں کے روشن اور اچھے مستقبل کی جانب اشارہ ہے ؛ قرآن مجید کی آیات میں ابرار، مقربین اور ان کے عظیم اجر و ثواب کے بارے میں بارہا گفتگو ہوئی ہے ، یہاں تک کہ سورہٴ آل عمران کی آیت 193 کے مطابق اولوا لالباب ( قوی عقل و فکر والے ) تقاضا کرتے ہیں کہ ان کی زندگی کا اختتام ابرار کے ساتھ ہو’’ توفنا مع الابرار‘‘ اور سورہٴ دہر کی آیات میں بھی ان کے لئے بہت اجر ثواب بیان ہوا ہے[5] ، اور سورہٴ انفطار کی آیت 13اور سورہٴ مطففین کے زیر بحث آیت بھی ان کے بارے میں بار بار خدا کی مہربانیوں کو بیان کرتی ہے ۔
ابرابر ” بر“ کی جمع ہے یہ وہی لوگ ہیں جو وسیع روح، بلند ہمت، اچھے اعتقاد اور نیک عمل کے حامل ہیں ۔
ایک حدیث میں امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام سے منقول ہے کہ «کلما فی کتاب اللہ عزوجل من قولہ ان الابرار فو اللہ ماراد بہ الا علی ابی طالب و فاطمہ و انا والحسین »”جہاں کہیں قرآن میں انّ الابرار آیاہے خدا کی قسم اس پروردگار کی مراد علی ابن ابی طالب ، فاطمہ زہرا ، میں اور حسین ہیں” [6]۔
3– بِاِلهِيَّتِكَ يـا اِلـهَ الْعالَـمينَ:
اور پھر دعا کے آخر میں درخواست کرتے ہیں کہ پروردگار تجھے تیری پروردگاری کا واسطہ ہمیں اچھوں اور نیک لوگوں کی ہمراہی اور برے لوگوں سے دوری اور بہشت میں مقام عنایت فرما۔
پیغام:
1- ابرار کی ہمراہی کی درخواست
2- اَشرار اور بد طینت افراد کے ساتھ عدم رفاقت
3- بهشت مؤمنین کے آرام کی جگہ۔
4۔حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: بُرے اور شریر لوگوں سے دوری اور اچھے لوگوں کی مجالسِ میں جانا اختیار کرو[7]۔
منابع ۔
[1]– نہجالبلاغه حکمت ۱
–[2] قاموس الرجال ج4 ص335
[3] – تاریخ بغدادج14ص322
[4] – الکنی و الالقاب ج 2 ص 84
[5]– دہر آیت ۵ تا ۲۲
[6]– نور الثقلین، جلد ۵ ص۵۳۳حدیث ۳۳
[7]– تمیمی آمدی، غرر الحكم و درر الکلم، ح ۴۷۴۶