نومبر 17, 2024

ماہ رمضان المبارک کے سترھویں دن کی دعا

تحریر: محمد شاہد رضا خان

پیغام :

1- نیک اعمال کی جانب خدا کی ہدایت کی درخواست
2- حوائج اور آرزو کی قبولیت کی درخواست۔
3۔ دعا میں صلوات دعا کی قبولیت کی شرط
4۔دعا کی قبولیت اور آرزو کے پورا ہونے کی ️ شرط یہ ہے کہ ہم اپنی امیدوں کو صرف اور صرف خدا سے وابسطہ رکھیں۔

دعا ۔

أَللّـهُمَّ اهْدِنى فيهِ لِصالِحِ الاَعْـمالِ وَ اقْـضِ لى فيهِ الْحَـوآئِجَ وَ الآمـالَ يا مَنْ لايَحْتاجُ اِلَى التَّفْسيرِ وَ السُّؤالِ يا عالِماً بِما فى صُـدُورِ الْعالَـمينَ صَلِّ عَلى مُحَـمَّدٍ وَ آلِهِ الطّاهِـرينَ۔[1]

ترجمہ:اے معبود!آج( اس مہینے میں) مجھے نیک کاموں کی طرف ہدایت دے، اور میری حاجتوں اور خواہشوں کو برآوردہ فرما، اے وہ ذات جو کسی سے پوچھنے اور وضاحت و تشریح کی احتیاج نہیں رکھتی، اے جہانوں کے سینوں میں چھپے ہوئے اسرار کے عالم، درود بھیج محمد(ص) اور آپ(ص) کے پاکیزہ خاندان پر۔

نکات۔

1۔عمل صالح۔
2۔خدا کی معرفت کا سبق۔

دعا کی تشریح۔

1– أَللّـهُمَّ اهْدِنى فيهِ لِصالِحِ الاَعْـمالِ:

عالَم محل انجام عمل ہےاور عمل کی دو قسمیں ہیں اچھا اور صالح عمل اور ناشائستہ و طالح عمل(جس طرح علم و دانش کے دو حصے ہیں مفید اور سودمند ؛جب ہم زمزم کا پانی پیتے ہیں تو اس وقت دعا کرتے ہیں :بارالٰہا اسے میرے لئے مفید علم و دانش کا سبب قرار دے۔۔۔،اسی طرح کچھ علوم زیاں رساں اور نقصان دہ ہیں ،وہ علوم جو نسل کشی کا سبب بنتے ہیں ،ایٹم بم بنا کر اجتماعی خونریزی کا باعث قرار پاتے ہیں۔۔برخلاف اس علم کے جو انسان کے لئے معنوی اور مادی ترقی کا سامان فراہم کرتا ہے صحت و سلامتی اور خوشحالی کا پیغامبر بنتا ہےایسا علم فائدہ مند ہے جس سے موجودہ نسل اور آنے والی نسل بھی بہرہ ور ہوتی ہے۔۔)جو کوئی عمل صالح اور اچھا اور بہتر کام انجام دیتا ہے وہ اپنے علاوہ دوسروں کو بھی اپنے بہتر کام سے سیراب کرتا ہےاس لئے اسکا یہ اچھا کام اسکے لئے ”باقیات صالحات” بن جاتا ہے کیونکہ اس سے فائدہ جہاں موجودہ نسل انسانی اٹھاتی ہے وہیں آئندہ نسل بھی اسکے مرنے کے بعد فائدی اٹھاتی رہے گی،اسی کے مقابل وہ ناشائستہ اور غیر صالح اعمال ہیں وزر و وبال اور جسکا گناہ دامن گیر بن جاتا ہے اور” باقیات طالحات” کے زمرے میں چلا جاتا ہے، کبھی ایک فرد ایک غیر صالح عمل کی بنیاد رکھتا ہے اور کسی منحر ف مسیر کا بنیاد گذار بن جاتا ہے جیسے وہابیت ،بہائیت،قادیانیت۔۔۔کہ جسکے سیاہ آثار گمراہی اور فساد ،قتل و غارت کے قالب میں ظاہر ہوتے رہتے ہیں جو کہ اسلامی تعلیمات سے کوسوں دور ہے کیونکہ اسلام دین امن و آتشی ہے نہ دین قتل و غارت۔۔اور اس طرح اسکے بنیاد گذروں کے نامۂ اعمال سیاہ سے سیاہ تر ہوتے چلے جاتے ہیں اور انکے گناہ کے اعداد وشمار میں بھی بے انتہاء اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

اسی لئے دعا کے اس ٹکڑے میں ہم کہتے ہیں کہ پروردگا اعمال کی انجام دہی میں ہماری مدد فرما، کون سے اعمال؟ اعمال صالح ،جہاں کہیں بھی عمل کی بحث پیش آتی ہے وہاں صالح کی صفت بھی ساتھ میں ہی آتی ہے کیونکہ صرف کام کا انجام دے لینا اہم نہیں ہے بلکہ اہم ہے تو اسکا رنگ، صبغۂ کار کی اہمیت ہے ،جسکا مطلب یہ ہے کہ کام بھی اچھا ہو۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: مَنْ عَمِلَ صٰالِحاً مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثىٰ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيٰاةً طَيِّبَةً وَ لَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مٰا كٰانُوا يَعْمَلُونَ ؛ جو کوئی بھی نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مؤمن ہو تو ہم اسے (دنیا) میں پاک و پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ان کا اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق عطا کریں گے[2]۔ عمل صالح کی انجام دہی میں مؤمن ہونے کی بھی قید لگائی گئی ہے یعنی جوکوئی ایمان کی حالت میں عمل صالح انجام دے وہ ”حیات طیبہ” کا حقدار ہوگا۔

ایمان کا وجود عمل کی قبولیت کے لئے شرط اول ہے ،کوئی اچھا کام تو کرے لیکن ایمان نہ رکھتا ہو تو اسے بہشت کی توقع بھی نہیں کرنی چاہیئےاگرچہ کہ اسکے مثبت آثار کو دیکھے گالیکن بہشت میں ورود فقط اور فقط ایمان سے مشروط ہے۔سورۂ نساء میں ارشاد ہے: وَ مَنْ يَعْمَلْ مِنَ اَلصّٰالِحٰاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثىٰ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولٰئِكَ يَدْخُلُونَ اَلْجَنَّةَ وَ لاٰ يُظْلَمُونَ نَقِيراً ؛ اور جو بھی نیک کام کرے گا چاہے وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ صاحب ایمان بھی ہو- ان سب کو جنّت میں داخل کیا جائے گا اور ان پر ذرّہ برابر ظلم نہیں کیا جائے گا[3]۔عمل صالح انسان کے لئے باقی بچے گا اور اسکا کام جسم اختیار کرتے ہوئے قیامت کے دن اسکے سامنے ہوگا،چاہے اچھے ہوں یا برے؛خدائے سبحان کا ارشاد ہے: فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقٰالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ؛ تو جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس (کی جزا) دیکھ لے گا[4]۔ وَ مَنْ يَعْمَلْ مِثْقٰالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ؛ اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ بھی اس (کی سزا) کو دیکھ لے گا[5]۔

امام جواد علیہ السلام فرماتے ہیں:الناس فی الدنیا بالاموال و فی الآخرۃ بالاعمال؛جس طرح لوگ دنیا میں اموال کے پیچھے بھاگ رہے ہیں آخرت میں اپنے اعمال کے پیچھے بھاگیں گے[6]۔

2– وَ اقْـضِ لى فيهِ الْحَـوآئِجَ وَ الآمـالَ:

حوائج؛ فعلی اور موجودہ ضرورت کو کہتے ہیں جیسے کوئی گھر چاہتا ہو شادی کا ارادہ رکھتا ہو مالی طور پر نیازمند ہو۔۔لیکن آرزو(آمال) بلند مقصد ہدف اور دور رس نتیجہ کو کہتے ہیں ؛دعا کے اس ٹکڑے میں ہم کہتے ہیں کہ پروردگار ہماری موجودہ ضرورتوں کو بھی پورا فرمادے اور اور ہمیں ہماری آرزوؤں تک پہنچنے میں بھی ہماری مددفرمادے۔۔بیشک خدا کے لئے کسی بھی کام کو انجام دینا سخت نہیں ہےاور اسکے ارادہ کرتے ہی وہ چیز صیغۂ وجود میں آجاتی ہے۔

3– يا مَنْ لايَحْتاجُ اِلَى التَّفْسيرِ وَ السُّؤالِ:

شرح و تفسیر کا وہ محتاج ہوتا ہے جو نہیں جانتا جبکہ خدا کے لئے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے، خدا کے لئے غیب و شہود سِرّ و علن ، عیاں و نہاں آشکار اور پوشیدہ،درون و بروں، انفس و آفاق سب ایک جیسے ہیں؛پروردگار سبھی باتوں سے آگاہ ہے چاہے زور سے کہی جائیں یا آہستہ ،رازوں سے آگاہ ہے چاہے دل میں کہے جائیں یا کانوں میں حتیٰ کہ ذہن و دل میں خطور کرنے والے خیالات و افکار سے بھی آگاہ ہے؛ارشاد ربانی ہے: عٰالِمُ اَلْغَيْبِ وَ اَلشَّهٰادَةِ اَلْكَبِيرُ اَلْمُتَعٰالِ؛ وہ غائب و حاضر سب کا جاننے والا بزرگ و بالاتر ہے[7]۔ سَوٰاءٌ مِنْكُمْ مَنْ أَسَرَّ اَلْقَوْلَ وَ مَنْ جَهَرَ بِهِ وَ مَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَ سٰارِبٌ بِالنَّهٰارِ؛ اس کے نزدیک تم میں کے سب برابر ہیں جو بات آہستہ کہے اور جو بلند آواز سے کہے اور جو رات میں چھپارہے اور دن میں چلتا رہے [8]۔

4– يا عالِماً بِما فى صُـدُورِ الْعالَـمينَ:

وہ دنیا کے پل پل کی خبر رکھتا ہے،دھڑکتے دلوں کی صداؤں پر نظر رکھتا ہے کسی چیز سے بے خبر نہیں یہ تو ہم ہیں جو اسے بھولے ہوئے ہیں۔۔

5– صَلِّ عَلى مُحَـمَّدٍ وَ آلِهِ الطّاهِـرينَ:

صلوات کی بحث بہت ہی اہم ہے؛سورۂ مبارکۂ احزاب کی آیت نمبر 56میں ارشاد ہوتا ہے: إِنَّ اَللّٰهَ وَ مَلاٰئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى اَلنَّبِيِّ يٰا أَيُّهَا اَلَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْلِيماً؛ بیشک اللہ اور اس کے ملائکہ رسول پر صلٰوات بھیجتے ہیں تو اے صاحبانِ ایمان تم بھی ان پر صلٰوات بھیجتے رہو اور سلام کرتے رہو[9]۔ ناقص صلوات نہیں بھیجنا چاہیئےیعنی صرف یوں کہے:””اللھم صل علی محمد”” یا “”صلی اللہ علیہ و سلم”” کیونکہ پیغمبر اکرم 1ارشاد فرماتے ہیں: لاَ تُصَلُّوا عَلَيَّ صَلاَةً مَبْتُورَةً بَلْ صِلُوا إِلَيَّ أَهْلَ بَيْتِي وَ لاَ تَقْطَعُوهُمْ فَإِنَّ كُلَّ نَسَبٍ وَ سَبَبٍ يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ مُنْقَطِعٌ إِلاَّ نَسَبِي[10]۔

اہل سنت کی اہم کتابوں میں رسول گرامی اسلام سے نقل ہوا ہے کہ صلوات پڑھتے وقت آل محمد کا نام رسول گرامی اسلام کے نام کے ساتھ ضرور لیا کروورنہ تمہاری صلوات ابتر اور ناقص ہے [11]۔

اہل سنت والجماعت کی مختلف تفاسیر ،(جو اہل سنت کی سب سے اہم کتابیں ہیں) نقل ہوا ہے : ایک شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال :ہم جانتے ہیں کہ آپ کوسلام کیسے کریں لیکن آپ پر صلوات کس طرح بھیجیں ؟۔ پیغمبر گرامی اسلام نے فرمایا اس طرح سے کہو : ” اللھم صل علی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علیٰ ابراھیم وآل ابراہیم انک حمید مجید ”[12]۔

امام شافعی اپنے اشعارمیں اس بات کو یوں کہتے ہیں:

یا اھل بیت رسول اللہ حبکم فرض من اللہ فی القرآن انزلہ
کفا کم من عظیم القدر انکم مَن لم یصل علیکم فلا صلواة لہ [13]

” اے اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! آپکی محبت خدا کی طرف سے قرآن میں فرض ہوئی ہے۔ آپکی عظمت کے لئے یہی بس ہے کہ اگر کوئی شخص نماز میں آپ پر صلوات نہ بھیجے تو اس کی نماز باطل ہے ۔ ”

جی ہاں ! ہر نماز میں آل محمد کی یاد اس بات کا راز ہے کہ رسول اکرم کے بعدان کے اہل بیت کے نقش قدم پر چلیں اور دوسروں کے پیچھے نہ جائیں ورنہ ایسے لو گوںکا نام لینا جن کے مشن کو ہمیشہ جاری رکھنے کی ضرورت نہیں ؛ وہ بھی ہر نماز میں ،ایک عبث کام ہوگا ۔

ایک شخص کعبہ سے گزرا صلوات بھیج رہا تھا لیکن آل محمد کا نام نہیں لے رہا تھا ۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : یہ ہمارے اوپر ظلم ہے [14]۔ رسول خدا نے فرمایا : جو لوگ میری آل کو صلوات سے محروم کریں ، ان تک جنت کی خوشبو نہیں پہنچے گی [15]۔ چنانچہ وہ مجالس و محافل جن میں خدا کا نام اور محمد و آل محمد کی یاد نہ ہو ، قیامت میں حسرت اور افسوس کا باعث ہوں گی[16] ۔حقیقت تو یہ ہے کہ روایات کے مطابقہ جس وقت خدا کے پیغمبروں میں سے کسی پیغمبر کا نام لیا جائے توپہلے حضرت رسول خدا اور ان کی آل پر صلوات بھیجا جائے پھر اس پیغمبر پر صلوات بھیجا جائے[17]۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : حقیقی کنجوس وہ ہے جو ہمارا نام سنے اور صلوات نہ بھیجے ؛ ایسا شخص سب سے زیادہ جفا کرنے والا اور سب سے زیادہ بے وفا ہے[18]۔

پیغام :

1- نیک اعمال کی جانب خدا کی ہدایت کی درخواست؛
2- حوائج اور آرزو کی قبولیت کی درخواست؛
3- دعا میں صلوات دعا کی قبولیت کی شرط۔

4۔دعا کی قبولیت اور آرزو کے پورا ہونے کی ️ شرط یہ ہے کہ ہم اپنی امیدوں کو صرف اور صرف خدا سے وابسطہ رکھیں[19]۔

منابع:

[1]– بحارالأنوار ج : 95 ص : 47

[2]– النحل‏، 97

[3]– النساء، 124

[4] – الزلزلة، 7

[5] – الزلزلة، 8

[6] – بحار الانوار،ج75،ص369

[7] – الرعد، 9

[8] – الرعد، 10

[9] – الأحزاب‏، 56

[10] – وسائل الشیعة, ج 7 , ص 207

[11] – تفسیر نمونہ جلد ١٧ صفحہ ٤٢٠کے مطابق

[12] – تفسیر المیزان جلد ١٦ صفحہ ٣٦٥ کے مطابق ، صحیح بخاری جلد ٦ صفحہ ١٥١ ۔

[13] – الغدیر

[14] – وسائل جلد ٤ صفحہ ١٢١٨

[15] – وسائل جلد ٤ صفحہ ١٢١٩

[16]– کافی جلد ٢ صفحہ ٤٩٧

[17] – بحار الانوار جلد ٩٤ صفحہ ٤٨

[18] – وسائل جلد ٤ صفحہ ١٢٢٠

[19] کلینی، الکافی، ج ۲، ص ۶۶

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

seven − six =