نومبر 18, 2024

ماہ رمضان المبارک کے ساتویں دن کی دعا 

تحریر: محمد شاهد رضا خان

پیغام:

قرآن میں ، توفیق «آسان‌کرنے» کے معنوں میں ہے،اس لحاظ سے کہ خدا کسی کو توفیق عطا کرتا ہے،ان معنوں میں ہے کہ خدا انسان کے قلبی رجحانات و خواہشات کو خداپسند امور کی جانب موڑ دیتا ہےاور اسکے لیے یہ راستہ آؔسان بنا دیتا ہے ،اس رہگزر پر چلنے کے اسباب و عوامل کو دسترس میں رکھ دیتا ہے،معارف کو اچھے سے درک اور اس پر عمل آسانی سے عمل کرنے لگتا ہے،اسکے برخلاف بے توفیقی ہے ؛ یعنی پئے در پئے گناہوں کے باعث انسان کا قلبی رجحان نا پسندیدہ رجحانات کی جانب ہوجاتا ہے۔

ماہ رمضان المبارک کے ساتویں دن کی دعا

اللَّهُمَّ أَعِنِّي فِيهِ عَلَى صِيَامِهِ وَ قِيَامِهِ وَ جَنِّبْنِي فِيهِ مِنْ هَفَوَاتِهِ وَ آثَامِهِ‏ وَ ارْزُقْنِي فِيهِ ذِكْرَكَ بِدَوَامِهِ بِتَوْفِيقِكَ يَا هَادِيَ الْمُضِلِّينَ‏۔

ترجمہ :

اے معبود! اس مہینے(دن) کے دوران اس کے روزے رکھنےاور شب زندہ داری میں میری مدد فرما، اور مجھے اس مہینے کے گناہوں اور لغزشوں سے دور رکھ، اور اپنا ذکر اور اپنی یاد کی توفیق جاری رکھنے کی توفیق عطا فرما، اپنی توفیق کے واسطے اے گم گشتۂ راہ کی ہدایت کرنے والے۔

نکات،:

دعا میں چند مسائل کی جانب اشارہ کیا گیا ہے

(1)روزہ

(2)نماز

(3)گناہوں اور لغزشوں سے دوری

(4)خدا کی مسلسل یاد اور اسکا ذکر۔

دعائیہ فِقرات کی تشریح

1– اللَّهُمَّ أَعِنِّي فِيهِ عَلَى صِيَامِهِ:

ایک خاص خصوصیت جو ایک روزہ دار کے روزہ میں ہے اور جو دوسری عبادتوں میں کم تر درجہ پر پائی جاتی وہ روزہ میں خلوص کا درجہ ہےکیونکہ روزہ میں دوسری عبادتوں کی بہ نسبت خلوص کا درجہ اور پیمانہ زیادہ جلوہ گر نظر آتا ہے، اسکا سبب یہ ہے کہ روزہ ایک امر عدمی ہے یعنی اسمیں سلبیاتی امور زیادہ ہیں کیونکہ اسمیں انسان کچھ چیزوں کو ترک کرنے پر معمور کیا گیا ہے ؛ کھانا نہ کھائے پانی نہ پیئے۔۔۔چونکہ کسی چیز کو انجام نہ دینے کا مسئلہ روزہ میں محوریت کا حامل ہے اور یہ ایک امر عدمی ہےاس لئے ریا اور شرک کا جنبہ اسمیں بہت کم پایا جاتا ہے اسی لئے روزہ میں بذاتہ دوسری عبادتوں کی بہ نسبت زیادہ خلوص پایا جاتاہے۔

بقیہ دوسری عبادتوں میں شیطان کے دخل کا کھٹکا لگا ہے ممکن ہے کہ وہ گھس کر عبادت کی نیت اور قربت کو خراب کردے اور خلوص کے فی صد کو کم کردے؛ واحد عبادت روزہ ہے جسمیں ایسا کوئی امکان نہیں ، حدیث قدسی میں وارد ہے:الصوم لی وانا اجزی بہ ؛ روزہ میرے لئے ہے اور روزہ کا صلہ میں خود ہوں[1](یا میں خود روزہ کا صلہ عطا کرونگا) ۔۔۔ بہر طور روزہ ایک واجبِ دینی ہے اور تمام امتو ں میں اسکا ایک تاریخی سلسلہ ہےکیونکہ سابقہ امتوں پر بھی روزہ واجب تھا ۔۔۔روزہ رکھنا خدا کی ایک بہت بڑی توفیق ہے اسی لئے پروردگار سے اس توفیق کی دعا ہے اللَّهُمَّ أَعِنِّي فِيهِ عَلَى صِيَامِهِ ۔۔۔ روزہ چونکہ قمری مہینہ کی بنیاد پر رکھا جاتا ہے اس لئے سال بھر کے مختلف موسموں میں گردش کرتا رہتا ہے ؛ کبھی گرمی میں تو کبھی سردی میں اور کبھی کسی اور موسم میں گرمیوں میں اسکے گھنٹے بھی زیادہ ہوجاتے ہیں اور انسان کو مزید گرمی برداشت کرنا پڑتی ہے لیکن بہر صورت بندہ کو اپنی بندگی انجام دینی ہی ہے۔

2– وَ قِيَامِهِ:

اسکے بعد دوسری عبادات اور نماز کے مرحلہ کا ذکر ہے ؛ یہاں قیام سے مراد عبادت اور شب زندہ داری اور نماز ہے ، وہ نماز ،جو اہلبیت علیہم السلام سے مروی روایات کی بنیاد پر دین کی بنیاد اور ہر پرہیزگار انسان کے خدا سے نزدیک ہونے کاوسیلہ ہے، الصلاۃ قربان کل تقی [2]؛بقیہ اعمال کی قبولی کی شرط نماز ہے ؛ آج کی زبان میں اگر کہا جائے تو نماز ایک ایسا کوڈ یا پاسورڈ ہے کہ جب تک اسے اپنے اعمال کے اندر نہ ڈالا جائے تب تک وہ عمل عبادت کہلائے گا ہی نہیں، جس طرح ہر شہر کا ایک الگ کوڈ ہوتا ہے کہ جب تک اسے نہ ڈائل کیا جائے تب تک اس شہر سے رابطہ نہیں ہوسکتا ،اعمال و عبادات کا بھی ایک کوڈ ہے جسکا نام نماز ہے،نماز کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ کسی بھی حالت میں نہیں چھوڑ سکتے چاہے ڈوب ہی کیوں نہ رہے ہوں یا بستر مرگ پر ہی کیوں نہ ہوں حتیٰ کہ مرنے کے بعد بھی اسکی قضا ادا کرنا واجب ہے۔

3– وَ جَنِّبْنِي فِيهِ مِنْ هَفَوَاتِهِ وَ آثَامِهِ:

اگر انسان اپنے گناہوں کی بھرپائی نہ کرے تو سرانجام سقوط اسکا مقدر ہوگا اور ایک برا انجام اسکی ٹُوہ میں ہمیشہ رہے گا اور آخر کار وہ اسمیں گرکرتباہ و برباد ہوجائے گا کیونکہ گناہ اپنے برے اثرات کا کنواں انسان کے پاؤں تلے مسلسل بناتا رہتا ہے؛ اس جملہ میں ظالم قوموں ستمگر حکمرانوں کے سقوط کا رمز و راز پوشیدہ ہےکہ جب قومیں بہک جاتی ہیں لیڈر گناہوں کے گرداب میں پھنس جاتے ہیں تو کیسے تباہی و بربادی تاریخ کے صفحات کو خونی بنا جاتی ہے۔

4– وَ ارْزُقْنِي فِيهِ ذِكْرَكَ بِدَوَامِهِ:

یاد، ہمیشہ سے ہی ایک بہت ہی اہم چیزوں میں شمار کی جاتی ہے اور خدا کے ذکر کی یاد صرف لقلقۂ زبان نہیں ہے اگرچہ کہ اذکار و اوراد کا دُہراتے رہنا بھی بہت اہم ہے لیکن بحث یہاں ہے کہ انسان کو کسی بھی حالت میں خدا کو فراموش نہیں کرنا چاہیئے؛ہمیشہ ہر حال میں خدا کو اپنے اعمال پر شاہد و ناظر جاننا چاہیئےکیونکہ عالم محضر خدا ہے اور محضر خدا میں گناہ نہیں کرنا چاہیئے[3]امیر المؤمنین ارشاد فرماتے ہیں: الذکر لذۃ المحبین؛ذکر میں دوستدار خدا کے لئے کیف و مستی کا عالم ہے[4]؛ وَ اُذْكُرِ اِسْمَ رَبِّكَ بُكْرَةً وَ أَصِيلاً [5]؛اور صبح وشام اپنے پروردگار کا نام لیتے رہو؛ يٰا أَيُّهَا اَلَّذِينَ آمَنُوا اُذْكُرُوا اَللّٰهَ ذِكْراً كَثِيراً[6]؛اے اہل ایمان خدا کا بہت ذکر کیا کرو ۔

ایک باایمان انسان چاہے خلوت میں ہو یا جلوت میں پوشیدہ طور پہ ہو یا علانیہ ظاہر بہ ظاہر ہو یا کہیں اور، ہمیشہ خدا کی یاد اور اسکے ذکر کے ساتھ ہےکیونکہ کبھی ایک چھوٹی سی غلط رضایت بھی انسان کو جہنمی بناسکتی ہے؛ذکر خدا اور اسکے مسلسل ذکر سے مراد یہ ہے کہ کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت کو خدا کے حضور سے خالی نہ سمجھیں اور ہمیشہ اسے اپنا نگہبان اور ناظر جانیں امیر المؤمنیں علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: من ذکر اللہ فی السر فقد ذکر اللہ کثیراً؛ جس نے خدا کو تنہائی میں یاد رکھا اس نے خدا کا خوب ذکر کیا[7]۔

5– بِتَوْفِيقِكَ يَا هَادِيَ الْمُضِلِّينَ:

اس دعا میں ہم نے رب العزت سے روزہ کی انجامدہی ،شب زندہ داری ،عبادت ،لغزشوں اور گناہوں سے دوری کی درخواست کی ہے لیکن یہ تمام چیزیں حاصل نہیں ہوسکتیں جب تک خدا کی نظر عنایت شامل حال نہ ہو اور اسکی توفیق ہمراہی نہ بنے؛یعنی خود خدا ہمیں اپنی راہ پر ڈال دے کہ ہم اس راہ پر قدم بڑھاتے ہوئے اسکی خاص عنایتوں سے بہرہ ور ہوتے رہیں ورنہ ہم کیا اور ہماری اوقات کیا کہ اس قدسی بارگاہ کا خواب دیکھیں جہاں معصومین جیسی ذوات مقدسہ نے اپنے سروں کا نذرانہ پیش کردیا ہو،لیکن پھر بھی رب العزت کے علاوہ کون ہے جو ہمارے ہاتھوں کو تھامے اور ہم گم گشتۂ راہ ہدایت کو ہدایت کے راستہ پر باقی رکھے؟

دعا ہے کہ معبود ہم سب کو اعمال صالحہ بجا لانے کی توفیق عنایت فرما! آمین ۔

پیغام :

1- نماز و روزه کی انجامدہی میں خدا سے مدد کی طلب.

2-گناہوں اور لغزشوں سے دوری؛

3- ہر دم ذکر خدا میں مشغول رہنے کی درخواست۔

4.خدا سےتوفيق کی طلب۔

پیغام:

قرآن میں توفیق «آسان‌کرنے» کے معنوں میں ہے،اس لحاظ سے کہ خدا کسی کو توفیق عطا کرتا ہے،ان معنوں میں ہے کہ خدا انسان کے قلبی رجحانات و خواہشات کو خداپسند امور کی جانب موڑ دیتا ہےاور اسکے لیے یہ راستہ آؔسان بنا دیتا ہے ،اس رہگزر پر چلنے کے اسباب و عوامل کو دسترس میں رکھ دیتا ہے،معارف کو اچھے سے درک اور اس پر عمل آسانی سے عمل کرنے لگتا ہے،اسکے برخلاف بے توفیقی ہے ؛ یعنی پئے در پئے گناہوں کے باعث انسان کا قلبی رجحان نا پسندیدہ رجحانات کی جانب ہوجاتا ہے۔

امام رضاؑ فرماتے ہیں: «جو کوئی خدا سے توفیق کا طالب ہو مگر تلاش و کوشش نہ کرتا ہو تو گویا اس نے اپنا خود کا مذاق بنا لیا ہے»[8] ۔

[1]– من لا یحضرہ الفقیہ،2/75

[2]– الکافی 3/265

[3]– صحیفۂ امام ج13ص461

[4]– عیون الحکم و المواعظ،ص32

[5]– الإنسان25

[6]– الأحزاب‏، 41

[7]– راوندی،ص20

[8]– میزان ‌الحکمه،ج ۲ ص ۸۶۲

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1 × 1 =