نومبر 23, 2024

ماہ رمضان المبارک کے دوسرے دن کی دعا

تحریر:محمد شاهد رضا خان 

 پیغام:

خدا کے غیظ و غضب سے دور رہنے کے لیےان چیزوں کا پہچان لینا نہایت ضروری ہے کہ جواس مسئلہ کا سبب بنتے ہیں۔ حضرت علیؑAفرماتے ہیں: پانچ چیزیں خدا کے غیظ و غضب کا سبب ہیں:

1- والدین کو تکلیف پہنچانا،

2-قطع صلۂ رحم،

3- اول وقت نماز میں تأخیر ،

4-خدا کے حقوق کی عدم ادائیگی (جیسے: زکات و خمس)

5-رَدِّ مأمول (کسی ایسے کو مایوس اور ناامید کردینا جس نے آپ سے امید باندھ رکھی ہو)۔

ماہ رمضان المبارک کے دوسرے دن کی دعا:

اللَّهُمَّ قَرِّبْنِي فِيهِ إِلَى مَرْضَاتِكَ وَ جَنِّبْنِي فِيهِ مِنْ سَخَطِكَ وَ نَقِمَاتِكَ وَ وَفِّقْنِي فِيهِ لِقِرَاءَةِ آيَاتِكَ بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ۔ترجمہ: اے معبود! مجھے اس روز اپنی خوشنودی سے قریب تر فرما، اور مجھے اپنی ناراضگی اور انتقام سے دور رکھ اور مجھے اپنی آیات کی قرائت کی توفیق عطا فرما اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے تجھے تیری رحمت کا واسطہ۔

نکات

1 ۔رضائےالٰہی کے حصول کے لئے قدم بڑھانا۔

(2)۔خدا کی ناراضگی مول نہ لینا۔

(3)۔قرآن مجید کی تلاوت کی اہمیت۔

دعائیہ فِقرات کی تشریح.

1– اللَّهُمَّ قَرِّبْنِي فِيهِ إِلَى مَرْضَاتِكَ:

(الف) زندگی کا سب سے قیمتی حصہ وہ ہے جو خدا کی خوشنودی کے لیے صَرف کیا جائے کیونکہ مقامِ رضا وہ عظیم مقام ہے جس تک ہر کوئی نہیں پہنچ سکتا مگر یہ کہ اخلاص کے ساتھ سعی مسلسل جاری رہے کہ خدا کو خود کہنا پڑے: اِرْجِعِي إِلىٰ رَبِّكِ رٰاضِيَةً مَرْضِيَّةً[1]؛اپنے رب کی طرف پلٹ آ اس عالم میں کہ تواس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی ہے، روزِ عاشوارا سید الشہدا کی حالت مقام رضا کی تجلی گاہ ہے جہاں لمحہ بہ لمحہ بڑھتے مصائب و آلام کے درمیان خدا کے حضور میں امام عالی مقام کے لبوں پر، یا دعا ہے یا مناجاتوں کا نذرانہ۔۔۔

(ب)ہمارے اعمال و افعال کے دو حصے ہیں: ایک: وہ اعمال و افعال، حرکات و سکنات جس سے خدا راضی اور خوش ہوتا ہے اور وہ اعمال ہمیں خدا سے نزدیک کرتے ہیں جیسے: نیک اعمال۔۔۔، دوسرا: ہمارے اعمال کا وہ حصہ جو ہمیں خدا سے دور کرنے کا سبب بنتے ہیں جیسے برے اعمال۔۔۔اس دعا میں ہم پہلے حصہ کے اعمال سے متمسک ہونے کی دعا مانگتے ہیں۔

2– وَ جَنِّبْنِي فِيهِ مِنْ سَخَطِكَ وَ نَقِمَاتِكَ:

سَخَط رضا کے مقابل استعمال ہوتا ہےاور نَقِمات کے معنی غضب کے ہیں، اس دعائیہ فقرہ کا مطلب یہ ہے کہ پروردگار وہ سارے کام جو تیری ناراضگی اور غیض و غضب کا سامان فراہم کریں مجھے ان سب سے دور رکھ۔

3– وَ وَفِّقْنِي فِيهِ لِقِرَاءَةِ آيَاتِكَ بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ :

ماہ مبارک رمضان تلاوت قرآن کی بہار اور ماہ قرآن ہے،ماہ رمضان المبارک اللہ کا مہینہ ہے اور اس مہینے کو اللہ کے کلام سے خاص نسبت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اپنے انبیاء کرام پر جو کتابیں وقتاً فوقتاً نازل فرمائیں ان میں سے اکثر اسی مہینے میں نازل ہوئیں،اگر ہم اندازہ لگانا چاہیں کہ رمضان المبارک کی شکل میں ہمارے پاس رحمتوں اور برکتوں کا کتنا بڑا خزانہ موجود ہے تو ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ اس مہینے کے ایک منٹ میں ہم قرآن مجید کی تلاوت کے ذریعے کتنی نیکیاں کما سکتے ہیں۔ ایک منٹ… جی ہاں صرف ایک منٹ میں ہم قرآن مجید کی ایک مختصر سورت تلاوت کر سکتے ہیں، ایک مختصر آیت مبارکہ زبانی یاد کر سکتے ہیں اور اسی طرح اگر ہم اپنے ایک ایک منٹ کو قیمتی بناتے جائیں تو اندازہ کر لیں کہ ماہِ مبارک کے بقیہ دنوں میں ہم قرآن مجید کی کتنی تلاوت کر سکتے ہیں،کلامِ الٰہی قیامت تک کیلئے ایک زندہ و تابندہ معجزہ ہے،جو بھی انسان اس کو جس زمانے میں بھی تلاشِ حق کی نیت سے پڑھے گا، یہ قرآن اُس کو ضرور راہِ ہدایت دکھائے گا۔ یہ وہ کتابِ مبین ہے جس کا پڑھنا، پڑھانا، سننا، سنانا، سمجھنا، سمجھانا عبادت ہے، یہ گمراہوں کیلئے نشانِ منزل ہے، ظاہری اور باطنی بیماروں کیلئے پیغام شفاء ہے اور یہ وہ نسخۂ کیمیا ہے جو دنیا اور آخرت کے تمام مسائل کا حل ہے،یہ انسان کے زنگ آلود دل سے قساوت، کجروی اور برے خیالات کو ختم کرکے نیک جذبات پیدا کرتا ہے، یہ وہ تیر بہدف نسخہ ہے جو صرف افراد ہی نہیں بلکہ مردہ قوموں کو بھی زندہ کردیتا ہے اور یہ وہ چشمۂ صافی ہے جس پر آنے والا کبھی محروم اور مایوس نہیں پلٹتا،اس لیے اگر قرآن مجید کی تلاوت اور اس میں غور و فکر کرنے پر کوئی اجرو ثواب نہ ملتا تب بھی ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم قرآنِ مجید پڑھتے اور اسےسمجھتے رہیں، لیکن قربان جائیے اللہ کی رحمت پر کہ قرآن مجید کی تلاوت پر ایسے انعامات عطا فرمائے جاتے ہیں کہ اگر انسان پوری زندگی اسی کام میں گزار دے تو بھی ان انعامات کا شکر ادا نہیں ہو سکتا ، قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے جو اپنی زندگیوں کو اس پاک کلام کے مطابق ڈھال لیتے ہیں ، اُن کے بارے میں پروردگار کا ارشاد ہے: إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّـهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَّن تَبُورَ لِيُوَفِّيَهُمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُم مِّن فَضْلِهِ إِنَّهُ غَفُورٌ شَكُورٌ[2] ؛ یقینا جو لوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور انہوں نے نماز قائم کی ہے اور جو کچھ ہم نے بطور رزق دیا ہے اس میں سے ہماری راہ میں خفیہ اور اعلانیہ خرچ کیا ہے یہ لوگ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جس میں کسی طرح کی تباہی نہیں ہےتاکہ خدا ان کا پورا پورا اجر دے اور اپنے فضل و کرم سے اضافہ بھی کردے یقینا وہ بہت زیادہ بخشنے والا اور قدر کرنے والا ہے۔

پیغام:

1–رضائے خدا کی اہمیت ؛

2- خدا کے غیظ و غضب سے دوری؛

3- قرآن مجید کی تلاوت کرنے کی توفیق ملنے کی درخواست؛

4- رحمت خدا ہمیشہ سایہ فگن رہے۔

نتیجه.

خدا کے غیظ و غضب سے دور رہنے کے لیےان چیزوں کا پہچان لینا نہایت ضروری ہے کہ جواس مسئلہ کا سبب بنتے ہیں۔

حضرت علیؑ فرماتے ہیں: پانچ چیزیں خدا کے غیظ و غضب کا سبب ہیں:

1- والدین کو تکلیف پہنچانا،2-قطع صلۂ رحم 3- اول وقت نماز میں تأخیر ،

4-خدا کے حقوق کی عدم ادائیگی (جیسے: زکات و خمس)

5-رَدِّ مأمول (کسی ایسے کو مایوس اور ناامید کردینا جس نے آپ سے امید باندھ رکھی ہو)[3]۔

[1]– الفجر، 28

[2] –سورۂ فاطر: ۲۹،۳۰

[3]– فشارکی اصفهانی، محمدباقر، عنوان الکلام ص ۴۴.

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

3 × one =