تحریر: محمد شاہد رضا خان
پیغام ۔ روایات میں ہے کہ انسان جب گناہ کرتا ہے تو اسکے ہر گناہ کی وجہ سے اس کے دل میں ایک کالا دھبہ پیدا ہوجاتا ہے اور اسی طرح جب انسان مسلسل گناہ انجام دیتا ہے تو اسکا پورا دل سیاہ ہوجاتا ہے اور جب اسکا پورا دل سیاہ ہوجاتا ہے تو اسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس پر کس بھی نصیحت یا اچھی بات کا اثر نہیں ہوتا، جب انسان اس مرحلہ پر پہونچ جائے تو اس سے نجات پانے کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ خداوند متعال کی بے پناہ رحمت سے متمسک ہوکر اس سے مدد مانگے اور خدا سے دعا مانگے کے اس کے گناہ کو معاف کردے کیونکہ صرف اور صرف خدا ہی کی وہ ذات ہے جو ہمارے گناہوں کو بخشنے والی ہے، جیسا کہ خداوند عالم قرآن مجید میں فرما رہا ہے: « قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعاً إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ[سورہ زمر، آیت:۵۳] پیغمبر آپ پیغام پہنچا دیجئے کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ہے رحمت خدا سے مایوس نہ ہونا اللہ تمام گناہوں کا معاف کرنے والا ہے اور وہ یقینا بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے»۔
ماہ رمضان المبارک کے تیرویں دن کی دعا
اَللّٰھُمَّ طَہِّرْنِی فِیہِ مِنَ الدَّنَسِ وَالْاَقْذارِ وَصَبِّرْنِی فِیہِ عَلَی کائِناتِ الْاَقْدارِ، وَوَفِّقْنِی فِیہِ لِلتُّقی وَصُحْبَةِ الْاَ بْرارِ، بِعَوْ نِکَ یَا قُرَّةَ عَیْنِ الْمَساکِینِ ۔[۱]
خدایا مجھ کو اس میں گندگی اور کثافت سے پاک کردے، اور مجھ کو صبر دیدے کائنات قضا و قدر پر، اور مجھ کو توفیق دیدے تقوی اور نیک لوگوں کی صحبت کی اپنی مدد سے اے مسکینوں کی آنکھ کی ٹھنڈک
مختصر شرح ۔
گناہوں سے بچنے کا ایک راستہ موت ہے، احادیث میں ہے کہ اپنی موت کو زیادہ سے زیادہ یاد کرو کیونکہ انسان جب موت کو یاد کرتا ہے تو یہ سونچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ جو دنیا ہے یہ ختم ہونے والی ہے، اور انسان جب اس بات کا یقین کرلیتا ہے کہ اسے اس دنیا سے جانا ہے تو وہ خود بخود گناہوں سے دور ہونے لگتا ہے، خداوند عالم کی جانب سے موت، مؤمن کے لئے بہت بڑا تحفہ ہے کیونکہ موت انسان کے تمام گناہوں کو معاف کروادیتی ہے، جیسا کے امام صادق(علیہ السلام) فرما رہے ہیں: « الْمَوْتُ كَفَّارَةٌ لِذُنُوبِ الْمُؤْمِنِين[۲] موت مؤمن کی گناہوں کے لئے کفارہ ہے»۔
اسی لئے آج کے دن خداوند عالم کی بارگاہ میں دعا ہے: « اَللّٰھُمَّ طَہِّرْنِی فِیہِ مِنَ الدَّنَسِ وَالْاَقْذارِ؛ خدایا مجھ کو اس میں گندگی اور کثافت سے پاک کردے»۔
صبر مؤمن کی نشانی ہے، مومن زندگی کے مشکل سے مشکل حالات میں بھی صبر کا دامن نہیں چھوڑتا اور اپنے رب کے بتاۓ ہوۓ اصولوں کے مطابق چلتے ہوۓ اپنے ایمان کی حفاظت کرتا ہے۔ روز مرّہ پیش آنے والے واقعات خوشگوار بھی ہوسکتے ہیں اور نہایت برے بھی، ان دونوں حالتوں میں ہمیں صبرکو اختیار کرنا چاہیۓ اور کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیۓ جو ہمارے ایمان کی خرابی کا باعث ہو، صبر ایک ایسی عظیم صفت ہے جس کے لئے خداوند عالم نے اپنے نبیوں اور رسولوں کی صفات میں تعریف کرتے ہوئے بیان فرمایا: « وَإِسْمَاعِيلَ وَإِدْرِيسَ وَذَا الْكِفْلِ كُلٌّ مِّنَ الصَّابِرِينَ[سورہ انبیاء،آیت:۸۵] اور اسماعیل(علیہ السلام)و ادریس(علیہ السلام) و ذوالکفل (علیہ السلام) کو یاد کرو کہ یہ سب صبر کرنے والوں میں سے تھے »۔
حضرت علی(علیہ السلام) صبر کے بارے میں فرمارہے ہیں: « وَ الصَّبْرُ مِنْهَا عَلَى أَرْبَعِ شُعَبٍ عَلَى الشَّوْقِ وَ الشَّفَقِ وَ الزُّهْدِ وَ التَّرَقُّبِ فَمَنِ اشْتَاقَ إِلَى الْجَنَّةِ سَلَا عَنِ الشَّهَوَاتِ وَ مَنْ أَشْفَقَ مِنَ النَّارِ اجْتَنَبَ الْمُحَرَّمَاتِ وَ مَنْ زَهِدَ فِي الدُّنْيَا اسْتَهَانَ بِالْمُصِيبَاتِ وَ مَنِ ارْتَقَبَ الْمَوْتَ سَارَعَ [فِي] إِلَى الْخَيْرَات[۳] صبر کی چار قسمیں ہیں: شوق، خوف، زہد، انتظار، جو کوئی جنت کا مشتاق ہے اپنی خواہشوں کو ترک کردے، اور جو کوئی جھنم کی آگ سے ڈرتا ہے،حرام کاموں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے، اور جو کوئی زہد کو اختیار کرنا چاہے، مصیبتوں کو ہلکا سمجھے، اور جو کوئی موت کا انتظار کرے، نیکیوں کے بجالانے میں جلدی کرے»۔
آج کے دن خداوند متعال کی بارگاہ میں دعا ہے: « وَصَبِّرْنِی فِیہِ عَلَی کائِناتِ الْاَقْدارِ؛ اور مجھ کو صبر دیدے کائنات قضا و قدر پر»۔
پیغام ۔
اگر خداوند عالم کی بارگاہ میں تقرب کو اختیار کرنا ہے تو تقوی کو اختیار کرنا ضروری ہے، تقوی، واجبات کو انجام دینا اور محرمات سے اپنے آپ کو بچاکر رکھنے کا نام ہے، جو شخص متقی ہوتا ہے وہ کبھی بھی برے لوگوں کے ساتھ نہیں رہتا اسی لئے آج کی دن خداوند متعال سے ہم دعا مانگ رہے ہیں:« وَوَفِّقْنِی فِیہِ لِلتُّقی وَصُحْبَةِ الْاَ بْرارِ، بِعَوْ نِکَ یَا قُرَّةَ عَیْنِ الْمَساکِینِ؛ اور مجھ کو توفیق دیدے تقوی اور نیک لوگوں کی صحبت کی اپنی مدد سے اے مسکینوں کی آنکھ کی ٹھنڈک»۔
حوالہ جات
[۱]۔ ابراہیم ابن علی عاملی الکفعمی، المصباح للکفعمی، دار الرضی(زاھدی)، ۱۴۰۵ق، ص۶۱۴۔
[۲]۔محمد بن الحسن طوسى، الأمالي (للطوسي)، دار الثقافة، ۱۴۱۴ق، ص۱۱۰.
[۳]۔محمد بن حسين شريف الرضى، نهج البلاغة، هجرت، ۱۴۱۴ ق، ص۴۷۳.