نومبر 18, 2024

ماہ رمضان المبارک کے بیسویں دن کی دعا

تحریر: محمد شاہد رضا خان

پیغام:
انسان کا انجام ان دو جگہوں میں ایک پر ختم ہوتا ہے: بهشت يا دوزخ، اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ اپنے عمل کے ذریعے وہ کس مقام کا انتخاب کرتا ہے۔

دعا ۔
أَللّـهُمَّ افْتَحْ لى فيهِ أَبْوابَ الْجِنانِ وَ أَغْلِقْ عَنّى فيهِ أَبْـوابَ النّـيرانِ وَ وَفِّـقْـنى فـيهِ لِتِـلاوَةِ الـْقُـرْانِ يا مُنْزِلَ السَّكينَةِ فى قُلُوبِ الْمُؤْمِنينَ۔

ترجمہ:اے معبود! آج میرے لئے جنت کے دروازے کھول دے اور آج مجھ پر جہنم کے دروازے بند فرما دے اور آج مجھے ،قرآن پڑھنے کی توفیق دے اے ایمان داروں کے دلوں کو تسلی بخشنے والے۔

نکات

1۔بہشت ،حسنِ عمل سے ملتی ہے نہ کہ بہانے سے؛
2۔ جہنّم کے دروازے؛
3 ۔قرآن مجید کی خدمت میں ہونا؛
4۔دلوں کا آرام و سکون۔

تشریح ۔

1–أَللّـهُمَّ افْتَحْ لى فيهِ أَبْوابَ الْجِنانِ:

جنت خدا کا حتمی وعده ہے[1]، لیکن یہ وعده کسے نصیب ہوگا ؟؟؛ جنتیوں کے متعلق نازل ہونے والی تمام آیات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ: وَعَدَ اللهُ المؤمنینَ و المؤمناتِ جَنَّاتٍ تجری مِن تحتِها الأنهارُ[2]؛جنت میں جانے کی ایک شرط ہے اور وه ہے مؤمن ہونا ۔

یہ کہ مومن کون ہے ؟ کیا زبان سے کلمۂ شہادتین پڑھنا ، ایمان کے تحقق اور مومنین کی فہرست میں داخلےکے لئے کافی ہے؟آئیےدیکھتے ہیں! وَمَن یُطِعِ اللهَ و رَسولَهُ یُدخِلهُ جَنَّاتٍ تَجری مِن تَحتِها الأنهارُ”[3] جنت میں جانے والا مؤمن، وه شخص ہوگا جو خدا اور رسول گرامی اسلام کی اطاعت کرتا ہے ؛ خدا اور رسول گرامی اسلام کی اطاعت کس طرح ہوتی ہے ؟ اس سلسله میں موجود مختلف آآیات سے سمجھ میں یہی آتا ہے کہ اس اطاعت میں دومیدان اور حصے ہیں : عقیدتی اور عملی: انَّ الّذینَ آمَنوا وَ عَمِلُوا الصّالحاتِ لَہم جَنّاتٍ تجری مَن تحتِها الأنهارُ[4] ” جو شخص ایماندار ہے اور عمل صالح انجام دیتا ہے وه جنتی ہے “۔لہٰذا جب تک ہم رسول گرامی اسلام کی اطاعت کرنے والے نه ہوں گے مطیع نہیں ہیں ۔

اور اطاعت بھی قلبی اور اعتقادی ہونے کے ساتھ ساتھ عملی بھی ہونی چاہیئے اگر خدا یا رسول خدا کے کسی ایک حکم پر ہمارا عقیده یا عمل نه ہو تو ہم پوری طرح اطاعت کرنے والے نہیں ہو سکتے !

سوره نساء آیت نمبر 59 کے مطابق ولی امر کی اطاعت واجب ہے یہاں تک کی ولی امر کی اطاعت خدا کی اطاعت کے برابر ہے لیکن یہ بھی یاد دہانی ضروری ہے کہ ولی امر کو معصوم ہونا چاہیئے اور جو بھی شخص حاکم بن جائے وه ولی امر نہیں ہوتا اس لئے کہ اگر ولئ امر معصوم نہ ہوگا تو اس بات کا امکان ہے کہ اس کا حکم خدا اور رسول1کے حکم کے خلاف ہو ایسی صورت میں خداکی اطاعت اور ولی امر کی اطاعت کا حکم دو مخالف اور متضاد چیزوں کے ایک جگه جمع ہونے پر تمام ہوگا جو کہ یقیناً محال ہے ۔

سوره شعراء آیت نمبر 89 ؛ و ازلفتِ الجنَّۃ للمتّقینَ سے یہ نکته سمجھ میں آتا ہے”روز قیامت متقیوں کی خدمت میں جنت سچ دھج کر ان کے پاس آئے گی ” اس آیت کا یہ پیغام ہے کہ قلب سلیم کا نتیجہ تقویٰ ہے اور متقین کا انعام جنت ہے ۔

رسول خدا فرماتے ہیں : ” جو شخص پل صراط سے سے تیز ہوا کی مانند تیزی سے گزرنا چاہتا ہے اور حساب و کتاب کے بغیر جنت میں جانا چاہتا ہے ،اسے چاہیئے کہ یقیناً ” فلیتولّ ولی و وصی و صاحبی وخلیفتی علی اھلی علی ابن ابی طالب “وه میرے ولی ، وصی ، اور خلیفہ علی ابن ابی طالب کی ولایت قبول کرے۔

اور جو شخص جہنم میں جانا چاہتا ہے ” فلیترک ولایته فو عزت ربی و جلاله انَّه لباب الله الذی لا یوتیٰ الامنه و انّه الصراط المستقیم و انّه الذی یسئل الله عن ولایته یوم القیامۃ “[5]؛وه ان علی علیہ السلام کی ولایت کو ترک کرے میرے پروردگار کے جلال و عزت کی قسم کہ وہی باب الٰہی ہیں وه باب کہ جس کے سوا کسی اور باب سے خدا تک نہیں پهنچا جا سکتا بلا شبہ وه صراط مستقیم ہیں : یہ وہی ہیں جن کی ولایت کے سلسلے میں خداند عالم روز قیامت لوگوں سے پوچھے گا ۔۔۔

اس دعائیہ فقرے کے ذریعہ یہی دعا ہے کے باب جنت ہم پر مفتوح رہے۔۔۔یہ جو ہے کہ ماؤں کے قدموں تلے جنت ہے اسکا مفہوم ہی یہ ہے کہ جتنا ہوسکے والدین کی خدمت کرتے رہیں اور جنت پہ جنت تعمیر کرتے رہیں۔۔۔

2–وَ أَغْلِقْ عَنّى فيهِ أَبْـوابَ النّـيرانِ:

: جہنم کا لفظ ذہن میں آتے ہی جسم میں خوف ودہشت کی ایک لہر سی دوڑ جاتی ہے۔ اللہ نے گناہ گاروں اور نافرمانوں کے لیے جہنم کی شکل میں ایک ایسا عقوبت خانہ تیار کر رکھا ہے جس کی سختیاں اور ہولناکیاں ہمارے تصور سے بھی بالاتر ہیں۔ یہ ایک ایسا قید خانہ ہے جہاں مجرم موت کو ترسے گا لیکن اسے موت بھی نصیب نہ ہوگی۔ وہ تل تل مرے گا، چاروں طرف موت ہی موت ناچ رہی ہوگی لیکن پھر بھی وہ موت سے دوچار نہیں ہوگا۔ پیاس سے بے حال جہنمی کو جب جہنمیوں کے زخموں سے رسنے والی بدبودار پیپ اور مواد پلائی جائے گی تو اس کی جو کیفیت ہوگی اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ جہنم کی ہولناکیوں کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتا ہے: مِّنْ وَّرَاۗىِٕهٖ جَهَنَّمُ وَيُسْقٰى مِنْ مَّاۗءٍ صَدِيْدٍ★ يَّتَجَرَّعُهٗ وَلَا يَكَادُ يُسِيْغُهٗ وَيَاْتِيْهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَّمَا هُوَ بِمَيِّتٍ ۭ وَمِنْ وَّرَاۗىِٕهٖ عَذَابٌ غَلِيْظٌ؛ ان کے پیچھے جہّنم ہے اور انہیں پیپ دار پانی پلایا جائے گا؛جسے گھونٹ گھونٹ پئیں گے اور وہ انہیں گوارا نہ ہوگا اور انہیں موت ہر طرف سے گھیر لے گی حالانکہ وہ مرنے والے نہیں ہیں اور ان کے پیچھے بہت سخت عذاب لگا ہوا ہے[6]۔

ہم دنیا کی آگ میں جھلسی ہوئی لاشیں دیکھتے ہیں تو لرز جاتے ہیں۔ کمزور دل ودماغ کے لوگ تو جلی ہوئی لاش کو دیکھ ہی نہیں پاتے۔ ذرا سوچیں جہنم کی آگ میں جلنے والے کا انجام کیا ہوگا، بھوک و پیاس سے بے حال جہنمیوں کو کھانے کے لیے زقوم کا درخت دیا جائے گا۔ یہ کیسا ہوگا؟ اللہ فرماتا ہے:اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ ★ طَعَامُ الْاَثِيْمِ ★ كَالْمُهْلِ يَغْلِيْ فِي الْبُطُوْنِ ★ كَغَلْيِ الْحَمِيْمِ؛ بیشک آخرت میں ایک تھوہڑ کا درخت ہے؛جو گناہگاروں کی غذا ہے؛وہ پگھلے ہوئے تانبے کی مانند پیٹ میں جوش کھائے گا؛ جیسے گرم پانی جوش کھاتا ہے[7]۔ سوره كہف میں جہنمیوں کا حال زار کچھ یوں بیان کیا گیا ہے:اِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِيْنَ نَارًا ۙ اَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا ۭ وَاِنْ يَّسْتَغِيْثُوْا يُغَاثُوْا بِمَاۗءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوْهَ ۭ بِئْسَ الشَّرَابُ ۭ وَسَاۗءَتْ مُرْتَفَقًا؛ ہم نے یقینا کافرین کے لئے اس آگ کا انتظام کردیا ہے جس کے پردے چاروں طرف سے گھیرے ہوں گے اور وہ فریاد بھی کریں گے تو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح کے کھولتے ہوئے پانی سے ان کی فریاد رسی کی جائے گی جو چہروں کو بھون ڈالے گا یہ بدترین مشروب ہے اور جہنم ّبدترین ٹھکانا ہے؛ظالموں کے لئے ہم نے وہ آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتیں انہیں گھیر لیں گی۔ اگر وہ فریاد رسی چاہیں گے تو ان کی فریاد رسی اس پانی سے کی جائے گی جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہوگا جو چہرے بھون دے گا بڑا ہی برا پانی ہے اور بڑی بری آرام گاہ (دوزخ) ہے[8]۔ جہنم ایک ایسا قید خانہ ہے جہاں کے قیدیوں کا لباس بھی بالکل نرالا ہے۔ جہنمیوں کے لباس بھی آگ سے بنے ہوں گے:فَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِّنْ نَّارٍ ۭ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِهِمُ الْحَمِيْمُ ★ يُصْهَرُ بِهٖ مَا فِيْ بُطُوْنِهِمْ وَالْجُلُوْدُ ★ وَلَهُمْ مَّقَامِعُ مِنْ حَدِيْدٍ؛ جو لوگ کافر ہیں ان کیلئے آگ کے کپڑے کاٹے جا چکے ہیں ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی انڈیلا جائے گا؛(اور) جس سے ان کے پیٹ کے اندر کی چیزیں اور کھالیں گل جائیں گی؛اور ان کے لئے لوہے کے گرز ہوں گے[9]۔

یہ جہنم کی ہولناکیوں کی صرف چند جھلکیاں ہیں کتنا نادان ہے وہ انسان جو جہنم کی ان ہولناکیوں کے بارے میں جاننے کے بعد بھی خود کو اور اپنے اہل وعیال کو اس سے بچانے کی کوشش نہ کرے: يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلٰۗىِٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَآ اَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ؛ اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آتشِ دوزخ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے اس پر ایسے فرشتے مقرر ہیں جو تُندخو اور درشت مزا ج ہیں انہیں جس بات کا حکم دیا گیا ہے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہ وہی کام کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا گیا ہے[10]۔

کاش ہمیں یہ حقیقت سمجھ میں آ جائے کہ دنیا میں دولت وعزت کما لینا ہی کامیابی نہیں حقیقی کامیابی تو یہ ہے کہ آدمی جہنم کے عذاب سے بچا لیا جائے:كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ ۭ وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۭ وَمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ؛ ہر نفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے اور تمہارا مکمل بدلہ تو صرف قیامت کے دن ملے گا- اس وقت جسے جہّنم سے بچا لیا گیا اور جنّت میں داخل کردیا گیا وہ کامیاب ہے اور زندگانی دنیا تو صرف دھوکہ کاسرمایہ ہے[11]۔

یاد رہے خواہشات نفس کے راستے پر چل کر ہم جہنم سے بچ نہیں سکتے جہنم سے بچنے کے لیے ہمیں اپنی خواہشات کی اتباع چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول گرامی اسلام اور اولی الامر یعنی آئمۂ معصومین علیھم السلام کی اتباع کرنی ہوگی، رب کے سامنے جواب دہی کا احساس اپنے دل میں پیدا کرنا ہوگا تبھی ہم جہنم سے بچ کر جنت میں داخلے کے حقدار بن سکتے ہیں: فَاَمَّا مَنْ طَغٰى ★ وَاٰثَرَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا ★ فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأْوَى ★ وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰى ★ فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى ؛ پھر جس نے سرکشی کی ہے؛اور زندگانی دنیا کو اختیار کیا ہے؛جہنم ّاس کا ٹھکانا ہوگا؛اور جس نے رب کی بارگاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیا ہے اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا ہے؛تو جنّت اس کا ٹھکانا اور مرکز ہے[12]۔

دعائے مجیرجو ماہ رمضان کی تیرہ چودہ اور پندرہ تاریخ کو پڑھی جاتی ہے اسے اپنا وظیفہ بنا لیں۔۔۔اللہ ہم سب کو جہنم سے اپنی پناہ میں رکھے اور جنت میں داخل کرے۔

3–وَفِّـقْـنى فـيهِ لِتِـلاوَةِ الـْقُـرْانِ:

چونکہ قرآن مجید، پیغمبر گرامی اسلام کا لافانی معجزہ اور خدائے متعال کا کلام ہے، اس لئے صدر اسلام سے مسلمانوں کے درمیان خاص احترام و قدر و منزلت کا حامل رہا ہے قرآن مجید کی آیات اور سفارشات اور پیغمبر گرامی اسلام کی احادیث کی رو سے، مسلمان اس آسمانی کتاب کی قرائت کے سلسلہ میں بھی خاص اور اپنی نوعیت کے شرائط اور آداب کی رعایت کرتےرہے ہیں، قرآن مجید نے قرآن مجید کی تلاوت کرنے والوں کو یوں سفارش کی ہے کہ قرآن مجید کو ترتیل اور سنجیدگی کے ساتھ پڑھنا چاہیئے، اس سلسلہ میں ارشاد ہوتا ہے :” اور قرآن کو ترتیل { ٹھر ٹھر کر آرام سے اور ترتیب و سنجیدگی } کے ساتھ پڑھو[13]” ایک دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:” اور جن لوگوں کو ہم نے قرآن دیا ہے وہ اس کی با قاعدہ تلاوت کرتے ہیں اور انہیں اس پر ایمان بھی ہے اور جو اس کا انکار کرے گا اس کا شمار خسارہ والوں میں ہوگا[14]” سورہ بقرہ کی آیت نمبر 121 کے ذیل میں نقل کی گئی ایک حدیث میں آیا ہے، کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:” جو لوگ قرآن مجید کی تلاوت کے حق کے مطابق اسکی تلاوت کرتے ہیں، وہ ہم اہل بیت ہیں[15]۔ در اصل امام صادق علیہ السلام نے تلاوت کرنے والوں کا حقیقی مصداق بیان کیا ہے ممکن ہے بہت سے مؤمن قرآن مجید کی تلاوت کے ظاہری اور باطنی آداب کی رعایت کرنے کے نتیجہ میں قرآن مجید کے حقیقی قُرّاء کے مقام تک پہنچے جائیں، اس لئے آیہ شریفہ : كِتابٌ أَنْزَلْناهُ إِلَيْكَ مُبارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آياتِه[16]؛ کو بیان کرتے ہوئے ہمارے امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:” اس سے مراد یہ ہے کہ قرآن مجید کی آیات کو عمیق نظروں کے ساتھ پڑھیں اور اس کے حقائق کو سمجھ لیں اور اس کے احکام پر عمل کریں اور اس کے وعدوں کے بارے میں پُرامید رہیں اور اس کے انتباہات سے ڈریں، اس کی داستانوں سے عبرت حاصل کریں اور اس کے اوامر کے سامنے تسلیم ہو جائیں اور اس کے نواہی کو قبول کریں، خدا کی قسم آیات کو حفظ کرنے سے مراد سوروں کے حروف کو پڑھنا اور تلاوت کرنا نہیں ہے انہوں نے قرآن مجید کے حروف کو حفظ کیا ہے، لیکن خود قرآن کو ضائع کردیا ہے، اس سے مراد صرف یہ ہے کہ قرآن مجید کی آیات میں غور و فکر اور اس کے احکام پر عمل کرو، جیسا کہ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے:” یہ ایک مبارک کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں اور صاحبان عقل نصیحت حاصل کریں[17]۔

4–يا مُنْزِلَ السَّكينَةِ فى قُلُوبِ الْمُؤْمِنينَ:

اے ایمان داروں کے دلوں کو تسلی بخشنے والےہم پر جنت کے ابواب مفتوح رکھ،جہنم کی ہولناکیوں سے محفوظ رکھ اور عمیق نظروں سےتلاوت قرآن کی توفیق عنایت فرما۔دعا کا پیغام:
1- خدا سے بہشت کی درخواست؛
2- قرآن مجید کی تلاوت کرنے کی توفیق ملنے کی درخواست؛
3- مؤمنين کے قلوب میں خدا اطمینان ودیعت کرتا ہے۔

پیغام:
انسان کا انجام ان دو جگہوں میں ایک پر ختم ہوتا ہے: بهشت يا دوزخ، اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ اپنے عمل کے ذریعے وہ کس مقام کا انتخاب کرتا ہے۔

[1] – سورۂ محمد/15)

[2] – سورۂ توبہ/72

[3] – سوره نساء /13

[4] – سوره بروج/ 11

[5] – شواهد التنزیل ، حسکانی ، ج 1 ، ص 59- 90

[6] – سورہ ابراہیم: 16,17

[7] – سوره الدخان:43-46

[8] – سوره الكہف:29

[9] – سوره الحج:19-21

[10] – سوره التحريم:6

[11] – سورة آل عمران:185

[12] – سورة النازعات:41-37

[13] – مزمل،4

[14] – بقره، 121

[15] – کافی، ج1، ص 215، دار الکتب الاسلامیه، تهران، 1365 ھ ش

[16] – سورۀ ص، 29

[17] – تفسير نمونه، ج‏1، ص 432، دار الکتب الاسلامیه، تهران، 1374 ھ ش

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

6 + six =