نومبر 17, 2024

ماہ رمضان المبارک کے اکیسویں دن کی دعا

تحریر: محمد شاہد رضا خان

پیغام:

امام علیؑ علیہ السلام سے ایک شخص نے کہا :خدا کہتا ہے کہ مجھ سے دعا کرو تاکہ اسے قبول کروں ؛تو ایسا کیونکر ہے کہ ہم دعا تو کرتے ہیں مگر وہ قبول نہیں ہوتی؟امام علیہ السلام نے فرمایا: «کیونکہ تمہارے دل آٹھ مقامات پر خیانت اور بے وفائی کرتے ہیں

أَللّـهُمَّ اجْعَلْ لى فيهِ اِلى مَرْضاتِكَ دَليلاً وَ لا تَجْعَلْ لِلشَّيْطانِ فيهِ عَلَىَّ سَبيلاً وَ اجْعَلِ الْجَنَّةَ لى مَنْزِلاً وَ مَقيلاً يا قاضِىَ حَوآئِجِ الطّالِبينَ۔

ترجمہ:اے معبود! اس مہینے میں میرے لئے تیری خوشنودی کی جانب راہنما نشان قرار دے، اور شیطان کے لئے مجھ پر دسترس پانے کا راستہ قرار نہ دے، اور جنت کو میری منزل اور جائے آرام قرار دے، اے طلبگاروں کی حاجات بر لانے والے۔

نکات۔

1۔راستوں کے راہنما؛

2۔ولايتِ شيطان؛

3بہشت ہمیشہ باقی رہنے والی منزل۔

تشریح۔

1–أَللّـهُمَّ اجْعَلْ لى فيهِ اِلى مَرْضاتِكَ دَليلاً:

ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ چاہے کہ مجھے خدا کے راستہ پر چلنا ہے لیکن نہیں جانتا کہ اسے کونسا راستہ اختیار کرنا چاہیئےاسی لئے اسے دلیل اور رہنما کی ضرورت پیش آتی ہے؛کلی طور پر اگر کہا جائے تو انسان کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں:ایک وہ راستہ جسکی پیروی کرتے ہوئے خدا اوراسکی رضا اور رضوان الٰہی حاصل ہواور دوسرا وہ راستہ جو شیطان کی ڈگرگاہ ہو،کہ جسکی پیروی آتش جہنم کا مستحق بنادے۔ راستہ کا انتخاب ہمارے اوپر ہے؛الٰہی فرامین ،مرسلین کی ہدایتیں،اور آئمۂ معصومین علیہم السلام کی رہنمائیاں راستہ دکھانے کے لئے موجود تو ہیں پھر بھی وہ شخص جسے خود اپنے اختیار کے ساتھ راستہ کا انتخاب کرنا ہے وہ خود انسان ہے،کسی نے کسی کو مجبور نہیں کیا ہے کہ وہ اچھا ہی ہو جائے یا بُرا ہی بن جائےکیونکہ اگر انسان اچھے یا برے ہونے میں مجبور ہوتا تو عذاب و ثواب ،جہنم و بہشت کے کوئی معنیٰ نہیں بچتا، سورۂ بلد میں ارشاد ہے: أَ يَحْسَبُ أَنْ لَنْ يَقْدِرَ عَلَيْهِ أَحَدٌ ﴿البلد، 5﴾ کیا وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اس پر کوئی قابو نہ پاسکے گا؛ يَقُولُ أَهْلَكْتُ مٰالاً لُبَداً ﴿البلد، 6﴾ وہ کہتا ہے کہ میں نے بہت سا مال اڑادیا ؛أَ يَحْسَبُ أَنْ لَمْ يَرَهُ أَحَدٌ ﴿البلد، 7﴾ کیا وہ خیال کرتا ہے کہ اسے کسی نے نہیں دیکھا؛أَ لَمْ نَجْعَلْ لَهُ عَيْنَيْنِ ﴿البلد، 8﴾ کیا ہم نے اس کیلئے دو آنکھیں نہیں بنائیں؟ وَ لِسٰاناً وَ شَفَتَيْنِ ﴿البلد، 9﴾ اور ایک زبان اور دو ہونٹ؟ وَ هَدَيْنٰاهُ اَلنَّجْدَيْنِ ﴿البلد، 10﴾ اور ہم نے اسے دونوں راستے دکھا دئیے ہیں؛فَلاَ اِقْتَحَمَ اَلْعَقَبَةَ ﴿البلد، 11﴾ مگر وہ (نیکی کی) دشوار گزار گھاٹی سے نہیں گزرا ؛وَ مٰا أَدْرٰاكَ مَا اَلْعَقَبَةُ ﴿البلد، 12﴾ اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ دشوار گزار گھاٹی کیا ہے؟۔ سورۂ انسان میں ارشاد ہوتا ہے: إِنّٰا هَدَيْنٰاهُ اَلسَّبِيلَ إِمّٰا شٰاكِراً وَ إِمّٰا كَفُوراً﴿الإنسان‏، 3﴾یقینا ہم نے اسے راستہ کی ہدایت دے دی ہے چاہے وہ شکر گزار ہوجائے یا کفران نعمت کرنے والا ہوجائے۔

مسیرِ رضوان اور اچھا راستہ اختیار کرنے پر خدا کی رضایت اور اسکی خوشنودی حاصل ہوتی ہے مگر اس راستہ میں ہمیں دلیل اور رہنما کی ضرورت پیش آتی ہے کہ جسے حجت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اور دلیل و حجت کی دو قسمیں ہیں: یا داخلی ہے یا خارجی؛ دلیل داخلی عقل ہے جسے خدا نے بشر کو عنایت فرمایا ہے کہ جسکی کلیات کے درک کی طاقت سے انسان دوسرے موجودات پر امتیاز رکھتا ہے،عقل حجت باطنی ہے کہ جسے پروردگار ہر انسان کو ودیعت کیا ہے اور یہ بشر پر اللہ کی پہلی حجت ہے،اگر یہ حجت داخلی اور باطنی نہ ہو تو حجت خارجی بھی کام آنے والی نہیں۔امام موسی کاظم علیہ السلام کا ارشاد ہے: يَا هِشَامُ إِنَّ لِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حُجَّتَيْنِ حُجَّةً ظاہرةً وَ حُجَّةً بَاطِنَةً فَأَمَّا الظاہرةُ فَالرُّسُلُ وَ الْأَنْبِيَاءُ وَ الْأَئِمَّةُ ع وَ أَمَّا الْبَاطِنَةُ فَالْعُقُول‌[1]۔

جب تک ان دونوں حجتوں کو اپنے ساتھ نہیں رکھیں گے کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ پائیں گے،اگر کبھی اندھیرے میں چلنا ہو تو ہمیں چراغ روشن کرنا پڑے گا تاکہ راستہ صحیح دکھائی دے لیکن یہ چراغ ہمارا ہاتھ پکڑ کر منزل تک نہیں پہنچا دیگا اسکے لئے ہمیں خود چلنا پڑیگا ۔

عقل بھی چراغ کی طرح ہے کہ جو راستہ روشن کردیتی ہے اور پیغمبر و مرسلین اورآئمہ معصوم علیھم السّلام اس راستہ کے رہنما ہیں کہ اگر ہم نے انکی پیروی کی تو منزل تک پہنچ سکتے ہیں وگرنہ وادئ گمراہی و ضلالت میں بھٹکتے ہی پھرینگے اور ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔نتیجتاً رضوان الٰہی کا حصول حجت باطنی یعنی عقل اور حجت ظاہری یعنی پیغمبر و مرسلین اور آئمۂ طاہرین علیہم السلام کی پیروی سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔۔۔

2–وَ لا تَجْعَلْ لِلشَّيْطانِ فيهِ عَلَىَّ سَبيلاً:

شیطان کی عمر انسانیت کی پوری تاریخ کے برابر ہے، اس کے پاس ارب ہا انسانوں کو گمراہ کرنے کا تجربہ ہے، وہ بڑے بڑے زاہدوں کو گمراہ کرچکاہے، اگر کوئی نہیں جانتا تو وہ بنی اسرائیل کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لے۔ اس نے پور ی کی پوری اقوام کو راہِ حق سے بھٹکا یا ہے۔ تَاللّٰهِ لَقَدْ أَرْسَلْنٰا إِلىٰ أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ اَلشَّيْطٰانُ أَعْمٰالَهُمْ فَهُوَ وَلِيُّهُمُ اَلْيَوْمَ وَ لَهُمْ عَذٰابٌ أَلِيمٌ؛ للہ کی اپنی قسم کہ ہم نے تم سے پہلے مختلف قوموں کی طرف رسول بھیجے تو شیطان نے ان کے کاروبار کو ان کے لئے آراستہ کردیا اور وہی آج بھی ان کا سرپرست ہے اور ان کے لئے بہت بڑا دردناک عذاب ہے[2]۔

شیطان آدمی کے پاس ایک خارجی مشیر کی حیثیت سے نہیں آتا ، بلکہ وه انسان کے ذہن میں داخل ہو کر اس کی سوچ کو متاثر کر کے اس کو ایسا بنا دیتا ہے کہ وه جو کچھ کریں ، اس طرح کریں جیسے کہ وه جو کچھ کر رہے ہیں ، وه خود اپنی سوچ کے تحت کر رہے ہیں ۔مثلا ایک شخص کو دوسرے شخص سے ایک ذاتی شکایت پیدا ہوئی ، اس وقت شیطان اس کی سوچ میں داخل ہو کر اس کو اس طرح متاثر کرتا ہے کہ وه یہ سمجھے کہ اس کی سوچ ایک درست (genuine) سوچ ہے ،یہی شیطانی تزئین ہے ، اس وقت جو آدمی اس راز کو جان لے کہ میں شیطان کی مداخلت سے ایسا سوچنے لگا ہوں ، اس نے اپنے آپ کو ہلاکت سے بچایا ، اور جو آدمی اس طرح نہ سوچے ، وہی وه شخص ہے جو ہلاک ہوا،وہ ہمیں دیکھتا ہے مگرہم اسے نہیں دیکھ سکتے، وہ ہماری کمزوریوں سے واقف ہے، ہم اس ذات کی مدد سے ہی شیطان کا مقابلہ کر سکتے ہیں، جو شیطان کو دیکھتی ہے اور شیطان اسے نہیں دیکھ سکتا -یعنی اللہ سبحانہ ؛خدائے متعال نے ہمیں شیطان کے طریقہ ٔواردات سے آگاہ اور خبردار کردیا ہے،اللہ ٰ نے بیان کیا ہے کہ شیطان کو انسان پر کوئی اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ زبردستی انسان کو کسی کام پر مجبور کردے، مگر یہ کہ انسان خود ہی اپنی مرضی سے شیطان کی فرمانبرداری کو اپنا لے،اسی بنا پر کوئی بھی شخص اپنے گناہوں کا ذمہ دار شیطان کو نہیں ٹھہرا سکتا: وَ قٰالَ اَلشَّيْطٰانُ لَمّٰا قُضِيَ اَلْأَمْرُ إِنَّ اَللّٰهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ اَلْحَقِّ وَ وَعَدْتُكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ وَ مٰا كٰانَ لِي عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطٰانٍ إِلاّٰ أَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي فَلاٰ تَلُومُونِي وَ لُومُوا أَنْفُسَكُمْ مٰا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَ مٰا أَنْتُمْ بِمُصْرِخِيَّ إِنِّي كَفَرْتُ بِمٰا أَشْرَكْتُمُونِ مِنْ قَبْلُ إِنَّ اَلظّٰالِمِينَ لَهُمْ عَذٰابٌ أَلِيمٌ؛ اور شیطان تمام امور کا فیصلہ ہوجانے کے بعد کہے گا کہ اللہ نے تم سے بالکل برحق وعدہ کیا تھا اور میں نے بھی ایک وعدہ کیا تھا پھر میں نے اپنے وعدہ کی مخالفت کی اور میرا تمہارے اوپر کوئی زور بھی نہیں تھا سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں دعوت دی اور تم نے اسے قبول کرلیا تو اب تم میری ملامت نہ کرو بلکہ اپنے نفس کی ملامت کرو کہ نہ میں تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہوں نہ تم میری فریاد کو پہنچ سکتے ہو میں تو پہلے ہی سے اس بات سے بیزار ہوں کہ تم نے مجھے اس کا شریک بنا دیا اور بیشک ظالمین کے لئے بہت بڑا دردناک عذاب ہے[3]۔

جو شیطان سے بچنا چاہتا ہے وہ اپنے آپ کو گناہ کے پہلے قدم پر روک لے: وَ إِمّٰا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ اَلشَّيْطٰانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿الأعراف‏، 200﴾ اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی غلط خیال پیدا کیا جائے تو خدا کی پناہ مانگیں کہ وہ ہر شے کا سننے والا اور جاننے والا ہے ۔إِنَّ اَلَّذِينَ اِتَّقَوْا إِذٰا مَسَّهُمْ طٰائِفٌ مِنَ اَلشَّيْطٰانِ تَذَكَّرُوا فَإِذٰا هُمْ مُبْصِرُونَ ﴿الأعراف‏، 201﴾ جو لوگ صاحبان تقویٰ ہیں جب شیطان کی طرف سے کوئی خیال چھونا بھی چاہتا ہے تو خدا کو یاد کرتے ہیں اور حقائق کو دیکھنے لگتے ہیں ۔وَ إِخْوٰانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي اَلغَيِّ ثُمَّ لاٰ يُقْصِرُونَ ﴿الأعراف‏، 202﴾ اور مشرکین کے برادران شیاطین انہیں گمراہی میں کھینچ رہے ہیں اور اس میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے ہیں ۔

شیطان فوراً ایک مسلمان سے یہ نہیں کہتا کہ وہ کافر ہو جائے کیونکہ میں تمہیں جہنم میں لے جانا چاہتا ہوں، بلکہ اس کا طریقہ کار خفیہ اور آہستہ آہستہ ایک شخص کو دین سے دور کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ جو اللہ سے ڈرتے ہیں جب شیطان کی طرف سے ان پر کوئی وار ہوتا ہے تو وہ چوکنے ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ اس آیت میں بیان کیا گیا۔ لیکن وہ لوگ جو اس کے تابع بن جاتے ہیں ،شیطان انہیں گمراہی میں کھینچتا جاتا ہے اور وہ اس راستے سے باز نہیں آتے۔

3–وَ اجْعَلِ الْجَنَّةَ لى مَنْزِلاً وَ مَقيلاً:

’’مقیل‘‘ قیلولہ سے ہے جسکے معنی ہیں دوپہر کے بعد تھوڑی دیر کے لئے آرام جیسا کہ سورۂ فرقان میں ارشاد ہے: أَصْحٰابُ اَلْجَنَّةِ يَوْمَئِذٍ خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَ أَحْسَنُ مَقِيلاً؛ اس دن صرف جنت ّ والے ہوں گے جن کے لئے بہترین ٹھکانہ ہوگا اور بہترین آرام کرنے کی جگہ ہوگی [4]۔

دعا کا یہ تیسرا ٹکڑا پہلے کے دوفِقرات کا نتیجہ ہے یعنی جب صحیح حجت و رہنمائے الٰہی کی پیروی کرلی جائیگی اور شیطان کو اپنے اوپر مسلط نہ ہونے دیا جائیگا تو جنت میں ورود اور اسمیں منزل و مقام کا حصول اور اسمیں ٹھہرنا اور آرام کرنا یہ سب چیزیں حاصل ہو جائیں گی۔

4–يا قاضِىَ حَوآئِجِ الطّالِبينَ: اے طلبگاروں کی حاجات بر لانے والے مجھےاپنی خوشنودی کی جانب رہنمائی فرما اور مجھ پر شیطان کو مسلط نہ ہونے دے۔

دعا کا پیغام:

1- رضائے خدا کا حصول۔

2- شیطان سے دوری؛

3- بہشت کا حصول؛

4- حاجات کی قبولیت۔

پیغام:

امام علی علیہ السلام سے ایک شخص نے کہا :خدا کہتا ہے کہ مجھ سے دعا کرو تاکہ اسے قبول کروں ؛تو ایسا کیونکر ہے کہ ہم دعا تو کرتے ہیں مگر وہ قبول نہیں ہوتی؟امام علی علیہ السلام نے فرمایا: «کیونکہ تمہارے دل آٹھ مقامات پر خیانت اور بے وفائی کرتے ہیں:

1-خدا کو پہچانتے ہوئے بھی اس طرح کہ جس طرح اس کا حق ادا کرنا چاہیئے تھا اسکا حق ادا نہیں کرتے؛

2- پیغمبر خدا پر ایمان لانے کے باوجود عملی طور پرانکی سیرت و سنت کی مخالفت کرتے ہو،

3- کتاب خدا کی تلاوت کرتے ہو مگر اس پر عمل نہیں کرتے؛

4۔ کہتے ہو کہ ہم جہنم کی آگ سے ڈرتے ہیں مگر گناہوں کے ذریعہ اسی کی طرف جاتے ہو؛

5۔کہتے ہو کہ ہمیں جنت میں جانا ہے لیکن کام ایسے کرتے ہو کہ جو تمہیں اس سے دور کرتا ہے؛

6- خدا کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہو مگر اسکا شکر ادا نہیں کرتے؛

7۔ خدا نے فرمایا ہے کہ شیطان تمہارا دشمن ہےاسے دشمن رکھواور تم زبان سے شیطان پر لعنت بھیجتے ہو مگر عملی طور پر اسکی اطاعت کرتے ہو؛8- لوگوں کے عیوب کو اپنے سامنے رکھتے ہو جبکہ اپنے عیوب سے آنکھیں بند رکھتے ہواور نتیجتاً ایسے کو ملامت کرتے ہو کہ اس کے مقابل تم خود زیادہ ملامت کے حقدار ہو۔

ایسی حالت میں کس طرح تمہاری دعا قبول ہوسکتی ہے جبکہ تم نے اپنے ہی ہاتھوں سے اسکی قبولیت کے دروازے کو بند کر رکھا ہے؟تقوے کو اپنا شِعار بنا لو اپنے کاموں کی اصلاح کرلو،اور امر بہ معروف اور نہی عن المنکر کروتاکہ خدا تمہاری دعاؤں کو شرفِ قبولیت بخش دے[5]۔

[1] – کافی ، ج 1 ، ص 16

[2] – النحل‏، 63

[3] – إبراهيم‏، 22

[4] – الفرقان‏، 24

[5] – بحار الأنوار، ج 93، ص 376 و 377

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

4 × three =