نومبر 18, 2024

ماہ رمضان المبارک کے اٹھائیسویں دن کی دعا

تحریر: محمد شاہد رضا خان

پیغام:️
«وسيلہ» کے معنیٰ تقرّب حاصل کرنے کے ہیں یا ایسی چیز کے ہیں جو تقرب کا باعث بنتی ہیں یا اس نتیجے کے ہیں جو تقرب سے حاصل ہوتا ہے؛اس ترتیب سے وسیلہ ایک وسیع مفہوم رکھتا ہےکہ جو ہر لائق و شائسہ کام کو اپنے اندر شامل کرلیتا ہے۔

دعا ۔
أَللّـهُمَّ وَفِّرْ حَظّى فيهِ مِنَ النَّوافِلِ وَ أَكْرِمْـنى فيـهِ بِاِحْـضـارِ الْمَسـائِلِ وَ قَرِّبْ فيهِ وَسيلَتى اِلَيْكَ مِنْ بَيْنِ الْوَسائِلِ يـا مَنْ لا يَشْـغَلُهُ اِلْحـاحُ الْمُـلِحّـينَ۔

ترجمہ:اے معبود! اس مہینے کے نوافل اور مستحبات سے میرا حصہ بڑھا دے، اور اس میں میری التجاؤں کی قبولیت سے مجھے عزت دے، راستوں کے درمیان میرا راستہ اپنے حضور قریب فرما، اے وہ جس کو اصرار کرنے والوں کا اصرار [دوسروں سے] غافل نہیں کرتا۔

نکات۔

1۔نوافل و مستحبات کا اجرا؛
2۔التجاؤں کی قبولیت؛
3۔خدا کی معرفت۔

تشریح۔

1–أَللّـهُمَّ وَفِّرْ حَظّى فيهِ مِنَ النَّوافِلِ:

نافلہ مستحب اور پسندیدہ اور نیک عمل کو کہا جاتا ہے جو انسان پر واجب نہیں ہے، نیز لفظ “نافلہ” پوتے (فرزند زادہ)، غنیمت اور عطاء کے معنی میں بھی آیا ہے[1]،قرآن میں بیٹے اور پوتے [اولاد] کو نافلہ کہا گیا ہے[2]،فقہاء کی اصطلاح میں، لفظ نافلہ کا زیادہ تر اطلاق مستحب نمازوں پر ہوتا ہے[3]،دین اسلام میں مستحب نمازوں پر بہت تاکید ہوئی ہے اور ان کے لئے بہت زیادہ اجر و ثواب بیان ہوا ہے، مستحب نمازوں کے درمیان نماز شب (تہجد) کی فضیلت دوسرے نوافل سے زیادہ ہے،معصومین علیھم السلام سے نافلہ کی اہمیت کے بارے میں بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں: امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: “إِیّا كُمْ وَالْكَسَل۔ إِنَّ رَبّكُمْ رَحيمٌ يَشْكُرُ الْقَليلَ۔ إِنَّ الرَجُلَ ليُصَلّی رَكْعَتَينِ تَطَوُّعاً يُريدُ بِہِما وَجْہَ اللہِ فَيَدْخُلُہُ اللہُ بِہِما الْجَنَّةَ؛
امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں: “خداوند متعال تمہاری نمازوں کے نقصان کا ازالہ کرتا ہے [تمہارے] نوافل کے ذریعے[4]۔” نوافل کا اہم ترین اثر قرب نوافل نامی حدیث میں بیان ہوا ہے: خداوند عزّ و جلّ نے فرمایا:”۔۔۔ جب کبھی میرا بندہ نافلے کے ذریعے مجھ سے قربت حاصل کرتا ہے کہ میں اس سے محبت کروں، تو جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کی زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بات کرتا ہے[5]۔۔۔” فضیل بن یسار نقل کرتے ہیں کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:” ۔۔۔الْفَرِیْضَةُ وَالنَّافِلَةُ إِحْدَى وَخَمْسُونَ رَكْعَةً مِنْہَا رَكْعَتَانِ بَعْدَ الْعَتَمَةِ جَالِساً تُعَدّانِ بِرَكْعَةٍ وَہُوَ قائِمٌ الْفَرِیْضَةُ مِنْہَا سَبْعَ عَشَرَةَ رَكْعَةً والنَّافِلَةُ اَرْبَعُ وَثَلاثُوْنَ رَكْعَةً۔۔۔

نوافل کی تعداد، بجز یومِ جمعہ، 34 ہے: نمازِ نافلۂ ظہر کی رکعتیں آٹھ ہے اور اس کا وقت نماز ظہر کا واجب وقت ہی ہے اور نافلۂ ظہر کو قبل از نماز ظہر پڑھا جاتا ہے،نماز نافلۂ عصر کی رکعتیں آٹھ ہیں اور اس کا وقت نماز عصر کا واجب وقت ہی ہے اور یہ عصر کی واجب نماز سے قبل بجا لائی جاتی ہے،نماز نافلۂ مغرب کی رکعتیں چار ہیں، نماز نافلۂ مغرب کا وقت نماز مغرب کا واجب وقت ہی ہے اور نماز مغرب کے بعد پڑھی جاتی ہے،نماز نافلۂ عشاء کی رکعتیں دو ہیں اور چونکہ نافلۂ عشاء کی دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھی جاتی ہیں لہذا یہ دو رکعتیں ایک رکعت سمجھی جاتی ہے، نماز نافلۂ عشاء نماز عشاء کے بعد پڑھی جاتی ہے,نماز نافلۂ شب (نماز شب) کی رکعتیں گیارہ ہیں؛ جس کی آٹھ رکعتیں نماز شب کے طور پر پڑھی جاتی ہیں، دو رکعتیں نماز شَفع کے عنوان سے اور ایک رکعت بعنوان وَتر، [یا وِتر، یا وُتَیرہ] پڑھی جاتی ہے، نماز نافلۂ شب آدھی رات سے اذان صبح تک پڑھی جاتی ہے،نماز نافلۂ صبح کی رکعتیں دو ہیں اور یہ نماز صبح سے قبل پڑھی جاتی ہے۔۔۔

2–وَ أَكْرِمْـنى فيـهِ بِاِحْـضـارِ الْمَسـائِلِ:

قرآن مجید کے رُو سے یہ خاص اعزاز ہمیں حاصل ہے کہ ہمیں دعا مانگنے کا حکم دیا گیا ہے اورساتھ ہی اس کی قبولیت کا وعدہ بھی کیا گیاہے اور جو دعا نہ مانگے اس کے لئے عذاب کی وعید آئی ہے[6]، پہلے زمانے میں یہ خصوصیت انبیاء علیہم السلام کی تھی، کہ ان کو اللہ کی طرف سے حکم ہوتا تھا کہ آپ دعا کریں میں قبول کروں گا۔۔۔۔دعا اور عبادت اگرچہ لفظی مفہوم کے اعتبار سے جدا جدا ہیں مگر مصداق کے اعتبار سے دونوں متحد ہیں کیونکہ ہر دعا عبادت ہے اور ہر عبادت دعا ہے، وجہ یہ ہے کہ عبادت نام ہے کسی کے سامنے انتہائی تذلل اختیار کرنے اور التجائیں کرنےکا اور ظاہر ہے کہ اپنے آپ کو کسی کا محتاج سمجھ کر اس کے سامنے سوال کے لئے ہاتھ پھیلانا بڑا تذلل ہے جو عبادت کا مفہوم رکھتا ہے، اسی طرح ہر عبادت کا حاصل بھی اللہ ٰ سے مغفرت اور جنت اور دنیا اور آخرت کی عافیت مانگنا ہے۔۔۔،دعا مانگنے کے لئے بظاہر کوئی شرط نہیں، یہاں تک کہ مسلمان ہونا بھی قبولیت دعا کی شرط نہیں ہے کافر کی دعا بھی اللہ قبول فرماتا ہے،یہاں تک کہ ابلیس کی دعا تا قیامت زندہ رہنے کی قبول ہوگئی۔اسی لئے اسکی بارگاہ میں دعا کرنا التجا کرنا گڑگڑا ناذلت نہیں بلکہ عزت و وقار ہے۔۔

3–وَ قَرِّبْ فيهِ وَسيلَتى اِلَيْكَ مِنْ بَيْنِ الْوَسائِلِ:

وسیلے سے اور تمسک کا مفہوم قرآن کریم سے ماخوذ ہے، توسل کی طرف روشن ترین اور واضح ترین اشارہ سورہ مائدہ میں آیا ہے جہاں خداوند متعال نے تقرب الہی کے حصول کیلئے مؤمنین کو وسیلے کی تلاش کا واضح طور پر حکم دیا ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَابْتَغُواْ إِلَيهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُواْ فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ؛ترجمہ: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو! اور اس تک پہنچنے کے لیے وسیلہ تلاش کرو۔ اور اس کی راہ میں جہاد کرو۔ تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ[7]۔ سورہ نساء کی آیت 64 میں بھی گنہگاروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ رسول گرامی اسلام کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے درخواست کریں کہ وہ ان کے لئے استغفار کریں تا کہ خداوند متعال انہیں بخش دے۔ نیز حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی جب اپنے کیے پر پشیمان ہوئے تو خداوند متعال سے براہ راست عفو و درگذر کی درخواست کے بجائے اپنے والد یعقوب نبی علیہ السلام سے درخواست کی کہ اللہ کی بارگاہ میں ان کے لئے مغفرت کی دعا کریں [8]۔ نیز آیت کریمہ میں بندوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں: وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِیعاً وَلا تَفَرَّقُوا؛ اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھامو اور تتر بتر نہ ہو[9]۔ روایات کے مطابق اللہ کی رسی سے مراد اہل بیت رسول علیھم السلام ہیں[10]۔ توسل کے متعلق اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات میں روایات کی کثیر تعداد پائی جاتی ہے کہ جن میں توسل کے معانی، “وسیلے” کے مصادیق نیز توسل کے آثار اور نتائج بیان کئے گئے ہیں۔حضرت زہراء سلام اللہ علیہا سے روایت میں منقول ہے:جو کچھ بھی آسمان اور زمین میں ہے وہ اللہ کے تقرب کے لئے وسیلے کی تلاش میں ہے،اللہ اور اس کی مخلوقات کے درمیان ہم اہل بیتِ نبی علیھم السلام وسیلہ اور واسطہ ہیں[11]۔۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ہم (اہل بیت علیہم السلام) وہی اللہ تبارک و تعالی کی مضبوط رسی ہیں کہ جس کے پکڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے[12] ۔ نیز احادیث کے مطابق، حضرت آدم علیہ السلام نے جنت سے نکالے جانے کے بعد پیغمبر گرامی اسلام اور اہل بیت علیہم السلام سے توسل کیا تو وہ عفو پروردگار سے فیض یاب ہوئے۔ سابقہ انبیاء بھی پیغمبر گرامی اسلام کے مقام مرتبت سے توسل کیا کرتے تھے۔امیرالمومنین علی علیہ السلام نے بھی ایک حدیث کے ضمن میں وسیلے کے برترین و والاترین مصادیق ذکر کئے ہیں[13]،جن میں سے بعض کچھ یوں ہیں: ایمان باللہ؛ خدا کی راہ میں جہاد؛ واجبات پر عمل کرنا؛ روزہ؛ حج؛ اورعمرہ۔

احادیث کے علاوہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل بیت علیہم السلام سے وارد زیارتنامے اور دعائیں بھی ہیں جو توسل سے متعلق مضامین سے بھرپور ہیں اور ان میں خدا کو پیغمبر گرامی اسلام اور اہل بیت علیہم السلام کا واسطہ دیا گیا ہے جو بجائے خود ایک قسم کا توسل ہے۔ توسل کے شرعی جواز سے متعلق روایات اور احادیث شیعہ تک منحصر و محدود نہیں ہیں اور اہل سنت کے منابع میں بھی اس سلسلے میں روایات نقل ہوئی ہیں۔

4–يـا مَنْ لا يَشْـغَلُهُ اِلْحـاحُ الْمُـلِحّـينَ:

اے وہ میرے سبحان معبود جس کو اصرار کرنے والوں کا اصرار [دوسروں سے] غافل نہیں کرتا، اے معبود! اس مہینے کے نوافل اور مستحبات سے میرا حصہ بڑھا دے، اور اس میں میری التجاؤں کی قبولیت سے مجھے عزت دے، راستوں کے درمیان میرا راستہ اپنے حضور قریب فرما۔

دعا کا پیغام :
1- مستحبات اور نوافل سے فائدہ اٹھانے کی درخواست؛
2- دعا کی اجابت کی درخواست؛
3- تقرّب کے بہترین وسیلے کی درخواست۔

پیغام:️
«وسيلہ» کے معنیٰ تقرّب حاصل کرنے کے ہیں یا ایسی چیز کے ہیں جو تقرب کا باعث بنتی ہیں یا اس نتیجے کے ہیں جو تقرب سے حاصل ہوتا ہے؛اس ترتیب سے وسیلہ ایک وسیع مفہوم رکھتا ہےکہ جو ہر لائق و شائسہ کام کو اپنے اندر شامل کرلیتا ہے۔

قرآن مجید بھی مؤمنین کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: «يَا أیہا الّذينَ امَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَابْتَغُوا إلَيهِ الْوَسِيلَةَ وَ جَاهِدُوا فِی سَبيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ؛ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچے کا وسیلہ تلاش کرو اوراس کی راہ میں جہاد کرو کہ شاید اس طرح کامیاب ہوجاؤ[14]»

اس آیت میں صاحبان ایمان سے عاقبت بخیر ہونے کے لیے تین کام انجام دینے کے لیے کہا گیا ہے: تقوائے الهی اختیار کریں ، خدا کا تقرب حاصل کرنے کے لیے وسیلے کا انتخاب کریں،اور خدا کی راہ میں جہاد اور کوشش کریں۔ اميرالمؤمنين، علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ: «سب سے بہترین چیز کہ جس کے ذریعہ سے انسان خدا کا قرب حاصل کرسکتا ہے وہ خدا پر ایمان ،پیغمبر گرامی اسلام پر ایمان اور خدا کی راہ میں جہاد ہے[15]»

[1] – المنجد، ج2

[2] – انبیاء72

[3] – مصطلحات الفقہ، ص528۔

[4] – منتہی الآمال، ج1، باب 6

[5] – اصول کافی، ج4، ص53

[6] – غافر، 60

[7] – سورہ مائدہ آیت 35

[8] – سورہ یوسف آیت 97

[9] – سورہ آل عمران، آیت 103]

[10] – تفسیر المیزان، ذیل آیت۔بحارالانوار، ج 24، ص84۔

[11] – بلاغات النساء، ص14، شرح نهج البلاغه، ج2، ص267

[12] – بحارالانوار، ج 24، ص84

[13] – نہج البلاغہ، خطبہ 110

[14] – مائده، آيه 35

[15]– نهج البلاغه، خ 109

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

10 − five =