تحریر: محمد شاہد رضا خان
پیغام:️
خدا کی عبادت کے راستے میں واجبات و مستحبات الهی کے علاوہ بہت سے ایسے کام ہیں جنہیں انجام دینا بہت ضروری ہےلیکن شیطانی وسوسے،کوتاہی ایسی چیزیں ہیں جو اچھے کاموں کو انجام دینے نہیں دیتے اس لیے ہردم خدا سے مدد طلب کرتے رہنا چاہیئے۔رسول گرامیﷺ فرماتے ہیں: «چاہے جو بھی تمہاری ضرورت ہو چاہے جوتے کے بَند ہی کیوں نہ باندھنا ہو؛اپنے ہاتھوں کو خدا کی بارگاہ میں پھَیلاؤ؛کیونکہ جب تک وہ نہ چاہے کوئی بھی کام آسان نہیں ہوسکتا۔»
دعا ۔
أَللّـهُمَّ وَفِّرْ فيهِ حَظّى مِنْ بَرَكاتِهِ وَ سَهِّـلْ سَبـيلى اِلـى خَـيْراتِهِ وَ لا تَحْرِمْنى قَبُولَ حَسَنـاتِهِ يا هادِياً اِلَى الْحَقِّ الْمُبينِ۔[1]
ترجمہ: اے معبود! آج کے دن اس ماہ کی برکتوں میں میرا حصہ بڑھا دے اور اس کی نیکیوں اور بھلائیوں کی طرف میرا راستہ ہموار اور آسان فرما اور میری نیکیوں کی قبولیت سے مجھے محروم نہ کر اے روشن اور آشکار حق وحقیقت کی طرف ہدایت کرنے والے۔
نکات
1۔اگر مانگنے والا فقیر ہی کاہل ہو تو اسمیں صاحبخانہ کی کیا غلطی ہے؟
2۔ آسان اور سیدھا راستہ؛
3۔قبولیتِ دعا مگر کس سے؟
دعا کی تشریح
1– أَللّـهُمَّ وَفِّرْ فيهِ حَظّى مِنْ بَرَكاتِهِ:
کبھی برکت کا تعلق اشخاص سے ہوتا ہے جیسے :رسول خدا اور امیرالمؤمنین علیہ السلام کا وجود مبارک کہ جنکی ذات ہی خود برکتوں کا سرچشمہ تھی؛ اور کبھی برکت مکان سے متعلق ہوتی ہےجیسے:مکہ ، مدینہ،بقیع ، کربلا، نجف ،مشہد، قم۔۔۔اور کبھی برکت مربوط ہوتی ہے زمان اور ایام سے جیسے:ماہ مبارک رمضان،شب قدر،شب جمعہ،روز جمعہ،روز عرفہ۔۔۔اس فقرےمیں برکتِ زمانی مدّ نظر ہے؛یعنی اس ماہ مبارک رمضان کی عظیم برکتوں سے محروم نہ رہیں اور جتنا ہوسکے اس سے فائدہ اٹھالیں،لُغوی لحاظ سے برکت کے معنی نُمو اور زیادہ ہونے کے ہیں جسے جوہری نے صحاح میں بیان کیا ہےاسی طرح سودرسانی اور فائدہ پہنچانے کے بھی یہی معنی ہیں کہ انسان کے شخصی وجود کے آثار میں اس قدر نمو پیدا ہو کہ جس سے دوسرے افراد بھی سیراب ہوں،سورۂ مریم کی آیت نمبر 31 میں حضرت عیسیٰ علیٰ نبینا و آلہ و علیہ السلام کے سلسلہ میں مذکور ہے کہ: وَ جَعَلَنِي مُبٰارَكاً أَيْنَ مٰا كُنْتُ وَ أَوْصٰانِي بِالصَّلاٰةِ وَ اَلزَّكٰاةِ مٰا دُمْتُ حَيًّا؛ اور جہاں بھی رہوں بابرکت قرار دیا ہے اور جب تک زندہ رہوں نماز اور زکوِٰکی وصیت کی ہے[2]۔ اس آیت شریفہ میں ” مُبٰارَكاً” کی تفسیر نفع سے کی گئی ہے[3]۔ یعنی وہ شخص جو بہت زیادہ فائدہ پہنچانے والا ہواور جسکے وجود کی برکت دوسروں تک بہت زیادہ فائدہ پہنچتا ہو،پروردگا نے رسول اکرم سے متعلق حضرت عیسیٰ کو وحی کے ذریعہ پیغام دیا کہ: إِنَّمَا نَسْلُهُ مِنْ مُبَارَكَةٍ لَهَا بَيْتٌ فِي اَلْجَنَّةِ؛اسکی نسل مبارک ہے[4]۔
ماہ مبارک رمضان ماہ برکت ہے یتیموں کی سرپرستی کا مہینہ رشتہ داروں عزیزوں قرابت داروں اور ضرورت مندوں کو افطار دینے کا مہینہ ہےماہ معنویت اور تقویت روح کا مہینہ ہےاسی لئے اس دعائیہ جملہ میں ہم خدا سے درخواست کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ اس دن کی برکتوں سے فائدہ اٹھائیں ،اس جملہ میں صرف فائدہ اٹھانے کا ذکر نہیں ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا مہم ہے۔
2– وَ سَهِّـلْ سَبـيلى اِلـى خَـيْراتِهِ:
بعض راستے ناہموار اور پیچیدہ اوراوبڑ کھابڑہوتے ہیں بعض صاف ستھرے اور کچھ گرد و غبار سے اَٹے ہوئے ہوتے ہیں؛اسی طرح خیرات کا راستہ اور نیک اور اچھے کام انجام دینے کا راستہ مسائل اور دشواریوں سے بھرا ہوا ہےاڑچنیں رکاوٹیں قدم قدم پہ ملیں گی کہ انسان کوئی ایک چھوٹا سا بھی اچھا کام نہ کرپائے اسی لئے اچھے کام انجام دینے میں جلدی کرنی چائے کہ کہیں شیطان کا جال سدّ راہ نہ بن جائے،ارشاد رب العزت ہے: فَاسْتَبِقُوا اَلْخَيْرٰاتِ؛ نیکیوں کی طرف سبقت کرو[5]۔امیر المؤمنین علیہ السلام کا بیان نہج البلاغہ میں ملاحظہ فرمائیں: وَسُئِلَ عَنِ الْخَيْرِ مَا هُوَ؟ لَيْسَ الْخَيْرُ أَنْ يَكْثُرَ مَالُکَ وَوَلَدُکَ، وَلَكِنَّ الْخَيْرَ أَنْ يَكْثُرَ عِلْمُکَ۔ وَأَنْ يَعْظُمَ حِلْمُکَ، وَأَنْ تُبَاهِيَ النَّاسَ بِعِبَادَةِ رَبِّکَ؛ فَإِنْ أَحْسَنْتَ حَمِدْتَ اللَّهَ، وَإِنْ أَسَأْتَ اسْتَغْفَرْتَ اللَّهَ؛ آپ سے خیر کے بارے میں سوال کیا گیا ؟تو فرمایا کہ خیر، مال اور اولاد کی کثرت نہیں ہے، خیر علم کی کثرت اور حلم کی عظمت ہے؛اور یہ ہے کہ لوگوں پر عبادت پروردگار سے ناز کرولہٰذا اگر نیک کام کرو تو اللہ کا شکر بجا لاؤ اور بُرا کام کرو تو استغفار کرو، اور یاد رکھو کہ دنیا میں خیر صرف دو طرح کے لوگوں کے لئے ہے ،وہ انسان جو گناہ کرے تو توبہ سے اسکی تلافی کرلےاور وہ انسان جو نیکیوں میں آگے بڑھتا جائے[6]۔سورۂ حج میں ارشاد ہے: وَ اُعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَ اِفْعَلُوا اَلْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ؛ ایمان والو ! رکوع کروً سجدہ کرو اور اپنے رب کی عبادت کرو اور کارخیر انجام دو کہ شاید اسی طرح کامیاب ہوجاؤ اور نجات حاصل کرلو[7]۔
خیر کے بہت سارے مصادیق ہیں جنمیں سے ایک امیر المؤمنین علیہ السلام کی پیروی بھی ہے جسے اس آیت شریفہ کے ذیل میں امام موسی کاظم علیہ السلام نے بیان فرمایاہے: اَلْإِمَامُ مُوسَى بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِيهِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ : فِي قَوْلِ اَللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ يٰا أَيُّهَا اَلَّذِينَ آمَنُوا اِرْكَعُوا وَ اُسْجُدُوا ؛ إِلَى آخِرِهَا أَمَرَهُمْ بِالرُّكُوعِ وَ اَلسُّجُودِ وَ عِبَادَةِ اَللَّهِ وَ قَدْ اِفْتَرَضَهَا اَللَّهُ عَلَيْهِمْ وَ أَمَّا فِعْلُ اَلْخَيْرِ فَهُوَ طَاعَةُ اَلْإِمَامِ أَمِيرِ اَلْمُؤْمِنِينَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلاَمُ بَعْدَ رَسُولِ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ[8]۔۔۔
3– وَ لا تَحْرِمْنى قَبُولَ حَسَنـاتِهِ:
یہ دنیا خدا کی دنیا ہے اسے اس نے ایک خاص مقصدسے بنایا ہےاس کی ساخت اور اس کا نظام، دونوں انسان کی آزمائش کے لیے وضع کئے گئے ہیں اس لئے اس کے نظام اور ساخت میں ایسی چیزیں رکھ دی گئی ہیں جو ہمارے لئے امتحان کی صورت پیدا کرتی رہتی ہیں، حسنات بھی امتحان ہیں اگر فقط اور فقط فی الدنیا کے لباس میں ہوں لیکن اگر فی الآخرۃکے قالب میں بھی ہو تو دونوں مل کے انسان کو اس امتحان سے سرخرو کرکے نکال لے جاتی ہیں کیونکہ اس دنیا میں آسانیوں اور مشکلوں کا ایک طویل اور مسلسل سلسلہ رکھ دیا گیا ہے جو دو طرف سے ہمارا امتحان لیتی رہتی ہیں، دُو رُخاامتحان عمل اور رد عمل کی جانچ کے لئے ہے مثلاً نعمتیں اور حسنات اس لئے دیں کہ آدمی نعمت پا کر کیا کرتا ہے ،محروم اس لئے رکھا کہ وہ رد عمل میں کیا کچھ کر گزرتا ہے۔ قرآن مجید میں حسنہ کا ذکر کچھ یوں بھی ملتا ہے: وَ مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنٰا آتِنٰا فِي اَلدُّنْيٰا حَسَنَةً وَ فِي اَلْآخِرَةِ حَسَنَةً وَ قِنٰا عَذٰابَ اَلنّٰارِ ؛ اور بعض کہتے ہیں کہ پروردگار ہمیں دنیا میں بھی نیکی عطا فرما اورآخرت میں بھی اور ہم کو عذاب جہّنم سے محفوظ فرما [9]۔
حسنہ کےمعنی ہے نیکی اس کا ایک وسیع مفہوم ہے اس میں تمام مادی و معنوی نعمتیں شامل ہیں لیکن بعض احادیث میں حسنہ کے مفہوم کے بارے میں پیغمبر اسلام سےمنقول ہے:و من اوتی قلبا شاکرا و لسانا ذاکرا و زوجة مومنة تعینة علی امر دنیا و اخرة فقد اوتی فی الدنیا حسنة و فی الاخرة حسنة و وقی عذاب النار؛ جسے خدا، شکر گزار دل دے ،یادِ حق میں مشغول زبان بخشے اور صاحب ایمان بیوی عطا کرے جو امور دنیا و آخرت میں اس کی مدد گار ہوتو خدا نے اسے دنیاو آخرت کی نیکی بخشی ہے اور آتش جہنم کے عذاب سے بچایا ہے[10]۔ سورۂ نمل میں پروردگار کا ارشاد ہے: مَنْ جٰاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَيْرٌ مِنْهٰا وَ هُمْ مِنْ فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ ؛ جو کوئی نیکی کرے گا اسے اس سے بہتر اجر ملے گا اور وہ لوگ روزِ قیامت کے خوف سے محفوظ بھی رہیں گے[11]۔وَ مَنْ جٰاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَكُبَّتْ وُجُوهُهُمْ فِي اَلنّٰارِ هَلْ تُجْزَوْنَ إِلاّٰ مٰا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ؛ اور جو لوگ برائی کریں گے انہیں منہ کے بَل جہنم میں ڈھکیل دیا جائے گا کہ کیا تمہیں تمہارے اعمال کے علاوہ بھی کوئی معاوضہ دیا جاسکتا ہے[12]۔ روایت میں اس آیت کے ذیل میں مذکور ہے کہ بِالْحَسَنَةِ سے مراد امیر المؤمنین علیہ السلام کی ولایت اور بِالسَّيِّئَةِ سے مراد عداوت اور بغض امیر المؤمنین علیہ السلام ہے؛ أَبِي عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ : أَنَّهُ قَرَأَ مَنْ جٰاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثٰالِهٰا فَقَالَ إِذَا جَاءَ بِهَا مَعَ اَلْوَلاَيَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَ إِذَا جٰاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلاٰ يُجْزىٰ إِلاّٰ مِثْلَهٰا وَ أَمَّا قَوْلُهُ: مَنْ جٰاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَيْرٌ مِنْهٰا وَ هُمْ مِنْ فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ فَالْحَسَنَةُ وَلاَيَتُنَا وَ حُبُّنَا وَ مَنْ جٰاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَكُبَّتْ وُجُوهُهُمْ فِي اَلنّٰارِ فَهِيَ بُغْضُنَا أَهْلَ اَلْبَيْتِ لاَ يَقْبَلُ اَللَّهُ لَهُمْ عَمَلاً وَ لاَ صَرْفاً وَ لاَ عَدْلاً وَ هُمْ فِي نَارِ جَهَنَّمَ لاٰ يُخْرَجُونَ مِنْهٰا وَ لاٰ يُخَفَّفُ عَنْهُمُ اَلْعَذٰابُ [13]۔
آج انیسویں تاریخ ہے امیرالمؤمنین علیہ السلام کی ضربت کی تاریخ خدا سے دعا کریں کہ ہمیں نعمت ولایت امیرالمؤمنین علیہ السلام سے مالا مال رکھے،۔۔۔۔طولِ تاریخ میں کتنے ہی ایسے افراد گذرے ہیں جو ولایت علی علیہ السلام کے جرم میں موت کے گھاٹ اتار دئے گئےاسکی حفاظت جان دیکر بھی کریں۔۔۔
اللہ اللہ کیا تاریخ ہے اصبغ بن نباتہ،، ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا:’’يَا عَلِيُّ أَبْشِرْ بِالشَّهَادَةِ فَإِنَّكَ مَظْلُومٌ بَعْدِي مَقْتُولٌ فَقَالَ عَلِيٌّ ع يَا رَسُولَ اللَّهِ وَ ذَلِكَ فِي سَلَامَةٍ مِنْ دِينِي قَالَ فِي سَلَامَةٍ مِنْ دِينِكَ إِنَّكَ لَنْ تَضِلَّ وَ لَنْ تَزِلَّ وَ لَوْلَاكَ لَمْ يُعْرَفْ حِزْبُ اللَّهِ بَعْدِي، “یا علیؑ! آپؑ کو شہادت کی خوشخبری ہو کیونکہ آپ میرے بعد مظلوم ہوں گے اور قتل کیے جائیں گے، تو حضرت علی علیہ السلام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا اس وقت میرا دین سالم ہوگا؟ آنحضرت نے فرمایا: ہاں آپؑ کا دین سالم ہوگا، یقیناً آپؑ ہرگز گمراہ نہیں ہوں گے اور ہرگز آپؑ سے لغزش سرزد نہیں ہوگی اور اگر آپؑ نہ ہوتے تو میرے بعد اللہ کا گروہ (حزب اللہ) نہ پہچانا جاتا”۔۔۔۔ حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: ” فَلَمّا خَلا لَهُ الطَّريقُ اعتَنَقَني ، ثُمَّ أجهَشَ باكِيا ، فَقالَ : بِأَبِي الوَحيدُ الشَّهيدُ ! فَقُلتُ : يا رَسولَ اللّه ِ ، ما يُبكيكَ ؟ فَقالَ : ضَغائِنُ في صُدورِ أقوامٍ لا يُبدونَها لَكَ إلّا مِن بَعدي ؛ أحقادُ بَدرٍ ، وتِراتُاُحُدٍ ۔ قُلتُ : في سَلامَةٍ مِن ديني ؟ قالَ : في سَلامَةٍ مِن دينِكَ ” جب راستہ میں خلوت ہوگئی تو آنحضرت نے مجھے گلے لگایا اور اچانک رونے لگے اور فرمایا: میرے باپ قربان ہوں تنہا شہید پر! تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کو کس بات نے رلایا ہے؟ تو آنحضرت نے فرمایا: بعض لوگوں کے دل میں کینہ ہے جسے وہ آپ پر ظاہر نہیں کریں گے، مگر میرے بعد! بدر کے کینے اور احد کا انتقام،!! میں نے عرض کیا: کیا میرا دین سالم ہوگا؟ فرمایا: آپؑ کا دین سالم ہوگا[14]۔۔۔۔۔
4– يا هادِياً اِلَى الْحَقِّ الْمُبينِ:
اے روشن اور آشکار حق وحقیقت کی طرف ہدایت کرنے والےمیری دعاوؤں کو شرف قبولیت عنایت فرما۔
پیغام:
1- ماه رمضان کی برکات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا
2- راه ِخیرات کا آسان ہونا۔
3- حسنات کی انجامدہی سے محروم نہ رہنا۔
4- دین حق کی جانب ہدایت۔
5۔خدا کی بندگی کے راستے میں واجبات و مستحبات الهی کے علاوہ بہت سے ایسے کام ہیں جنہیں انجام دینا بہت ضروری ہےلیکن شیطانی وسوسے،کوتاہی ایسی چیزیں ہیں جو اچھے کاموں کو انجام دینے نہیں دیتے اس لیے ہردم خدا سے مدد طلب کرتے رہنا چاہیئے۔
رسول گرامی اسلام فرماتے ہیں: چاہے جو بھی تمہاری ضرورت ہو چاہے جوتے کے بَند ہی کیوں نہ باندھنا ہو؛اپنے ہاتھوں کو خدا کی بارگاہ میں پھَیلاؤ؛کیونکہ جب تک وہ نہ چاہے کوئی بھی کام آسان نہیں ہوسکتا[15]۔
منابع ۔
[1]– بحارالأنوار ج : 95 ص : 149
[2] – مريم، 31
[3] – تفسیر قمی ،ج 2،ص50
[4] – بحار الانوار ج 14 ص 285
[5] – البقرة، 148
[6] – نہج البلاغہ حکمت 94
[7] – الحج، 77
[8] – تفسیر البرهان , ج 3 , ص 911
[9] – البقرة، 201
[10]– مجمع البیان : آیت مذکورہ کے ذیل ہیں؛ وَ قَالَ اَلنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ: مَنْ أُوتِيَ قَلْباً شَاكِراً وَ زَوْجَةً صَالِحَةً تُعِينُهُ عَلَى أَمْرِ دُنْيَاهُ وَ آخِرَتِهِ فَقَدْ أُوتِيَ فِي اَلدُّنْيٰا حَسَنَةً وَ فِي اَلْآخِرَةِ حَسَنَةً وَ وُقِيَ عَذَابَ اَلنَّارِ . فقه القرآن , ج 1 , ص 299؛
[11] – النمل، 89
[12] – النمل، 90
[13] – بحار الأنوار , ج 24 , ص 45
[14] – بشارة المصطفى لشيعة المرتضى (ط – القديمة)، النص، ص: 58
[15]– محمدی ریشهری، محمد، ميزان الحكمه، ج 4، ص 24