نومبر 21, 2024

ماہ رمضان المبارک کے نویں دن کی دعا

تحریر: محمد شاہد رضا خان

پیغام:️

خدائے متعال دو رحمت کا مالک ہے: 1- عام اور مطلق رحمت ؛کہ جو بہت وسیع ہےاور تمام موجودات کو اپنے دائرۂ اختیار میں سمیٹے ہےچاہے مؤمن ہو یا کافر،اچھا ہو یا برا «وَ رَحْمَتی وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ؛ اور میری رحمت (کا یہ حال ہے کہ وہ) ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے [6]» «رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْءٍ رَّحْمَةً وَ عِلْماً؛اے ہمارے پروردگار تو اپنی رحمت اور اپنے علم سے ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔» اس بیکراں رحمت کے بالمقابل کسی طرح کا کوئی غیظ و غضب نہیں ہے۔

ماہ رمضان المبارک کے نویں دن کی دعا

أَللّهُمَّ اجْعَلْ لى فيهِ نَصيباً مِنْ رَحْمَتِكَ الْواسِعَةِ وَ اهْـدِنى فـيهِ لِبَراهيـنِكَ السّـاطِـعَةِ وَ خُذْ بِناصِيَتى اِلى مَرْضاتِكَ الْجامِعَةِ بِمَحَبَّـتِكَ يا أَمَـلَ الْمُشْـتاقينَ۔

ترجمہ: اے معبود! آج کے دن میرے لئے اپنی وسیع رحمت میں سے، ایک حصہ قرار دے، اور اپنے تابندہ برہانوں سے میری راہنمائی فرما، اور جہاں کہیں بھی تیری رضااور خوشنودی ہو،میرا رُخ اسی جانب موڑ دے، تجھے تیری محبت کا واسطہ، اے مشتاقوں کی آرزو۔

نکات

اس دعا میں تین بنیادی باتوں کی جانب اشارہ کیا گیا ہے:
(1)پروردگار کی وسیع رحمت
(2)خدا کے دلائل و براہین
(3)خدا کی رضا میں قدم آگے بڑھانا۔

دعائیہ فِقرات کی تشریح

1– أَللّهُمَّ اجْعَلْ لى فيهِ نَصيباً مِنْ رَحْمَتِكَ الْواسِعَةِ:

خدا کی رحمت کے سلسلہ میں گفتگو بہت زیادہ ہے لہٰذا اس سے قطع نظر کرتے ہوئے رحمت کے چند زاویوں کوذکر کرتے ہیں:امام سجاد علیہ السلام سے عرض کیا گیاکہ حسن بصری کہتا ہے:” اس شخص پر تعجب ہے جو گمراہی کے کثیر اسباب کے باوجود نجات کا راستہ اپنا لیتا ہے؛
امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: میں یوں کہتا ہوں کہ: “لَیْسَ الْعَجَبُ مِمَّنْ نَجَى کَیْفَ نَجَى، وَ اِنَّما الْعَجَبُ مِمَّنْ هَلَکَ کَیْفَ هَلَکَ مَعَ سِعَةِ رَحْمَةِ اللهِ؟!” اس شخص پر تعجب نہیں جو نجات کا راستہ اپناتا ہے، بلکہ اس شخص پر تعجب ہے کہ اللہ تعالی کی بے پناہ رحمتوں کے باوجود گمراہی کے راستے کو پکڑ لیتا ہے[1]۔ ۔۔۔ مثبت زاویۂ دید رکھنے والے انسان کو رحمت الٰہی کبھی مایوس نہیں کرتی۔۔۔۔ دونوں اقوال کے زاویۂ دید پر غور فرمائیں اور خود ہی کچھ نکات کشید فرمائیں۔۔۔رحمت وہی عنایت الٰہی ہے جو بندگی اور یاد خدا سے حاصل ہوتی ہے امیر المومنین ارشاد فرماتے ہیں:ذکر و یاد خدا کے ساتھ رحمت کا نزول ہوتا ہے؛ببذل الرحمۃ تستنزل الرحمۃ[2]۔

2– وَ اهْـدِنى فـيهِ لِبَراهيـنِكَ السّـاطِـعَةِ:

برہان کے معنی دلیل اور حجت کے ہیں، ارشاد ربانی ہے: أَمِ اِتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ آلِهَةً قُلْ هٰاتُوا بُرْهٰانَكُمْ هٰذٰا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَ ذِكْرُ مَنْ قَبْلِي بَلْ أَكْثَرُهُمْ لاٰ يَعْلَمُونَ اَلْحَقَّ فَهُمْ مُعْرِضُونَ؛ کیا ان لوگوں نے اس کے علاوہ اور خدا بنالئے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ ذرا اپنی دلیل تو لاؤ،یہ میرے ساتھ والوں کا ذکر اور مجھ سے پہلے والوں کا ذکر سب موجود ہے لیکن ان کی اکثریت حق سے ناواقف ہے اور اسی لئے کنارہ کشی کررہی ہے[3] ۔

راغب اصفہانی نےبرہان کے معنیٰ کو قوی ترین دلیل کے طور پر جانا ہے[4]؛اور برہان ساطع بھی وہی حجت اور روشن دلیل ہےاور چونکہ یہ بذاتہ بہت قوی ہوتی ہے اس لئے اگر طرف مقابل عناد سے کام نہ لے تو سر تسلیم خم کر ہی دیگا اسی لئے تاریخ شاہد ہے کہ انبیاء ومرسلین کےسامنے باطل کی ایک نہ چلتی تھی اسی طرح آئمۂ معصومین خدا کے ایسے زندۂ جاوید چمکتے دلائل و براہین تھےجوطرف مقابل کے عناد کی وجہ سےظلم و ستم کا نشانہ بنتے رہے کیونکہ طرف مقابل کے پاس کوئی چارہ ہی نہ تھا۔۔۔امام باقر ارشاد فرماتے ہیں : برہان رسول خدصلی اللہ علیہ و آلہ ہیں [5]؛اور امیر المؤمنین ارشاد فرماتے ہیں:رسول خدا 1سے بڑھکر محکم حجت کوئی نہیں؛ انہ لم یکن للہ سبحانہ حجۃ فی ارضہ اوکد من نبینا محمد ؛ اسی طرح امیر المؤمنین کے وصف میں زیارت روز غدیر میں ہم پڑھتے ہیں:انت الحجۃ البالغۃ و المحجۃ الواضحہ؛ مولا آپ حجت اور روشن برہان ہیں۔۔۔دلائل و براہین کو قبول نہ کرنے کے متعدد اسباب ہوسکتے ہیں جیسے: دنیا طلبی، ریاست طلبی،خود خواہی،حجاب نفس۔۔۔

3– وَ خُذْ بِناصِيَتى اِلى مَرْضاتِكَ الْجامِعَةِ:

یہاں اس جملہ میں ایک توفیق اجباری مقصود ہے؛لیکن اسکے معنی ہرگز یہ نہیں ہیں خدا کسی کو اپنی بندگی کے لئے مجبور کرتا ہے، بلکہ دعا کے ذریعہ ہم جو خود درخواست کررہے ہیں کہ ہمیں اپنی مرضی کا مالک نہ بننے دینا کہ بلا سوچے سمجھے جس طرف چاہیں منھ اٹھائے چل پڑیں۔۔۔ کیونکہ ہم تو نادان ہیں ہمیں کیا سمجھ ۔۔ہم تو بس جب چڑیا کھیت چُگ جاتی ہے تو بیٹھے کف افسوس ملنے والے افراد ہیں ہماری سرشت ہماری فطرت لغزشوں والی ہے اس لئے خدایا یہ تیرا لطف رہیگا اگر تو ہمیں بھٹکنے نہ دےپھسلنے نہ دے بہکنے نہ دے۔۔۔۔بچپن میں بزرگوں کی تنبیہ گرچہ بری لگتی ہے لیکن وہی آگے چل کر زہرآلود زندگی کے لئے تریاق کا کام کرتی ہے۔۔۔درحقیقت اس دعا کے ذریعہ ہم خدا سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں اچھائی اور بھلائی کا زمینہ فراہم کردےتاکہ ہمیشہ ایسے کام میں مشغول رہیں جو ہر طرح سے اسکی خوشنودی کا سبب بنا رہے۔

4– بِمَحَبَّـتِكَ يا أَمَـلَ الْمُشْـتاقينَ:

جس طرح ایک گاڑی کو ایک شہر سے دوسرے شہر تک پہنچنے کے لئے اسکے غذائی مواد کی فراہمی کی ضرورت پڑتی ہی ویسے ہی شہر گناہ سے اے خدا تیری بارگاہ تک پہنچنے کے لئے مجھے تیری محبت درکارہے ، اے!!!!!

دعا کا پیغام :

1- خدا کی رحمت واسعہ سے فائدہ اٹھانے کی درخواست؛
2- خدا کے واضح اور روشن دلائل براہین کی جانب رہنمائی؛
3۔- خدا کی خشنودی حاصل کرنے والی چیزوں کی جانب قدم آگے بڑھانا؛
4- بندوں کی بہ نسبت خدا کی دوستی و محبت۔

پیغام:️

خدائے متعال دو رحمت کا مالک ہے: 1- عام اور مطلق رحمت ؛کہ جو بہت وسیع ہےاور تمام موجودات کو اپنے دائرۂ اختیار میں سمیٹے ہےچاہے مؤمن ہو یا کافر،اچھا ہو یا برا «وَ رَحْمَتی وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ؛ اور میری رحمت (کا یہ حال ہے کہ وہ) ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے [6]» «رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْءٍ رَّحْمَةً وَ عِلْماً؛اے ہمارے پروردگار تو اپنی رحمت اور اپنے علم سے ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے[7]۔» اس بیکراں رحمت کے بالمقابل کسی طرح کا کوئی غیظ و غضب نہیں ہے۔

2- خاص رحمت: اس قسم کی رحمت ایک خاص طرح کے غیظ و غضب کے بالمقابل ہےاور جو صرف اہل ایمان اور نیک افراد سے مخصوص ہےجس سے کافر اور منافق بے بہرہ ہیں:«إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ؛ بے شک اللہ کی رحمت نیکوکاروں سے قریب ہے۔[8]» «وَ کانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيم؛ اور وہ اہلِ ایمان پر بڑا رحم کرنے والا ہے۔[9]» دعائے كميل میں ہم پڑھتے ہیں: «بِرَحْمَتِكَ الَّتی وَسِعَتْ كُلُّ شَیء»اور دعائے ابوحمزہ ثمالی میں بھی ہم کہتے ہیں: «اَيْنَ رَحْمَتَكَ الْواسِعَة»۔

[1]– سفینة البحار، جلد 1، صفحه 517

[2]– عیون الحکم والمواعظ ص190

[3] – الأنبياء، 24

[4]– المفردات فی غریب القرآن،ص45، مادہ ‘برہ’

[5]– مستدرک سفینۃالبحار، ج1 ص347

[6]– اعراف‌،آیۀ ۱۵۶

[7]– غافر، آیۀ ۷.

[8]– اعراف‌،آیۀ ۵۶.

[9]– احزاب‌، آیۀ ۴۳

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

3 × four =