تحریر: سید اعجاز اصغر
اٹھارہویں صدی نے تین بڑے انقلاب دیکھے ہیں، برطانیہ کا صنعتی انقلاب، امریکہ کا اعلان آزادی، اور انقلاب فرانس، پہلے دو انقلابوں کا انگلستان کے ساتھ برائے راست تعلق تھا تیسرے انقلاب نے انگلستان سمیت سارے یورپ کو متاثر کیا، اٹھارہویں صدی کے انقلاب کا ہندوستان پر انگلستان کی تاریخ کا براہ راست اثر پڑا ان تینوں انقلابوں نے ہندوستان کو متاثر کیا، سولہویں صدی سے یورپ کے سوداگر سمندری راستہ سے ہندوستان کے بن بلائے مہمان بننا شروع ہوگئے، سترہویں صدی تک پورے ہندوستان میں پھیل گئے، ان بن بلائے تاجروں کی تجارت اٹھارہویں صدی میں اپنے عروج کو پہنچ گئی، وہ سرمایہ جو ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کی تجارت سے کمایا اسی کمائی سے انگریزوں نے برطانیہ میں صنعتی انقلاب برپا کردیا، سر ولیم ڈگبی کے الفاظ ہیں کہ انگلستان کو صنعتی اقتدار صرف اسی وجہ سے ملا کہ اسے بنگال اور کرناٹک کے خزانے استعمال کرنے کا موقع مل گیا، ورنہ اس سے پہلے انگلستان کی صنعت زوال پذیر تھی، یہی صورتحال آج بھی پاکستان کے اندر معدنیات کے ذخائر کے بارے میں ہے جس پر پاکستان کا تسلط انتہائی غیر محفوظ ہے،
موجودہ دور میں ایشیا اور افریقہ کے اکثر ممالک کے لئے یورپ ترقی کا ایک ماڈل ہے کہ جس کی تاریخ کا مطالعہ کر کے اس ترقی و عروج کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، کوشش کی جانی چاہیئے کہ اسی تاریخی عمل کو دہراتے ہوئے انہی خطوط پر چل کر ترقی کی جائے کہ جن خطوط پر چل کر یورپ نے ترقی کی ہے، ہندوستان کے باشندوں کی نالائقی، غداری، نااتفاقی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انگریزوں نے میر جعفر اور میر صادق پیدا کئے اور مال مفت دل بے رحم کے مصداق ٹھہرے، ہندوستان کنگال ہوگیا اور یورپ اپنی چالاکی اور جبر و ستم کے بل بوتے پر مال مفت اور دل بے رحم کا تجربہ میر جعفر اور میر صادق جیسے میزبانوں کے ہوتے ہوئے مستفید ہوتا گیا، جنگ عظیم دوئم کے بعد یورپی ممالک نے کمزور ممالک کو دبانے کا سلسلہ جاری کیا جو تا حال جاری و ساری ہے،
یہی سلسلہ یورپ کے بعد مشرقی ممالک کے کچھ ممالک نے ایشیا کے ترقی پذیر ممالک کو یرغمال کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہوا ہے، جس کی حالیہ دنوں کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب اور مصر کی ریکوڈک کے مقام پر سرمایہ کاری کے روپ میں مداخلت نظر آئی ہے، ریکوڈک افغانستان اور ایران کی سرحد کے قریب ایک تکونی سرحد ہے، ریکوڈک کے مقام پر سونے اور تانبے کے قیمتی ذخائر دریافت ہوئے چھیالیس سال گزر چکے ہیں، ابتدائی کام 1993 میں شروع ہوا، پاکستان نے بیرک گولڈ کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیا جو کہ سات ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا معاہدہ ہے، اندازہ کے طور پر 27173 ملیین پاؤنڈ وزن کا سونا کان میں موجود ہے، تانبے کا اندازہ نہیں کتنا پاونڈ وزن کا ہوگا، بیرک گولڈ کمپنی نے یہ اعلان کیا ہے اس کے حصص برائے فروخت نہیں ہیں، تو پاکستان اپنے حصص فروخت کرنے کے لئے سعودی عرب اور مصر کو کیوں دعوت دے رہا ہے، مصری ارب پتی نجیب سوارس حصے دار بننا چاہتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ غیر ملکی طاقتیں نہیں چاہتی کہ پاکستان پرامن اور خوشحال ہو، پاکستان کی بھی مجبوری بن گئی ہے کہ ان سرمایہ کاروں کی موجودگی سے ہمیں بھی کچھ نہ کچھ مل جائے گا، غیر ملکی طاقتیں ہماری کمزوریوں ،مجبوریوں سےواقف ہیں، اگر میر جعفر و میر صادق اس وقت کے بن بلائے مہمان انگریزوں کے میزبان نہ ہوتے تو آج کے بیرونی ممالک کے طاقت ور سرمایہ کار بھی پاکستان میں اس وقت کے میر جعفر اور میر صادق کو نہ کہتے کہ مان نہ مان ہم تیرے مہمان۔