جولائی 1, 2025

تحریر: بشارت حسین زاہدی

کربلا کا واقعہ محض ایک تاریخی سانحہ نہیں، بلکہ ہر دور اور ہر زمانے کے انسانوں کے لیے ایک ابدی پیغام اور رہنمائی کا سرچشمہ ہے۔ امام حسینؑ کا قیام، یزید کی ظالم اور فاسق حکومت کے خلاف ایک ایسی جرات مندانہ جدوجہد تھی جس کا مقصد دینِ اسلام کی حقیقی روح کو بچانا اور انسانیت کے اعلیٰ اقدار کو قائم کرنا تھا۔ آج اکیسویں صدی میں، جب دنیا نت نئے چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے، ہماری ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں۔ ہمیں اس عظیم قیام کی روشنی میں اپنے کردار کا جائزہ لینا ہوگا اور اسے اپنے عمل کا حصہ بنانا ہوگا۔

ظلم کے خلاف آواز اٹھانا

امام حسینؑ نے ہمیں سکھایا کہ جب معاشرے میں ظلم، ناانصافی اور حق تلفی عام ہو جائے تو خاموش رہنا گناہ ہے۔ انہوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے یہ پیغام دیا کہ باطل کے سامنے سر جھکانے کے بجائے سر کٹانا بہتر ہے۔ عصرِ حاضر میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ہر قسم کے ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں۔ چاہے وہ سیاسی جبر ہو، معاشی ناانصافی ہو، یا معاشرتی تفریق۔ ہمیں مظلوم کا ساتھ دینا چاہیے اور ظالم کو للکارنا چاہیے۔ یہ ہماری ایمانی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔

اقدار کی پاسداری

آج کا دور مادیت پرستی اور اخلاقی گراوٹ کا دور ہے۔ امام حسینؑ نے ہمیں یاد دلایا کہ اصولوں اور اقدار پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے شہادت قبول کی لیکن اپنے نانا کے دین کے اصولوں پر آنچ نہیں آنے دی۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں اسلامی اقدار، جیسے سچائی، امانت، عدل، ایثار اور بھائی چارے کو اپنائیں اور انہیں فروغ دیں۔ ہمیں اپنے ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر معاشرتی بھلائی کے لیے کام کرنا چاہیے۔

جہالت سے مقابلہ اور شعور بیداری

یزیدیت کی ایک بڑی علامت جہالت اور ناواقفیت تھی۔ امام حسینؑ نے اپنے خطبوں اور عمل سے لوگوں کے شعور کو بیدار کیا اور انہیں حق و باطل میں فرق کرنے کی ترغیب دی۔ آج بھی جہالت، انتہا پسندی اور گمراہی ہمارے معاشروں میں رائج ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم تعلیم کے ذریعے جہالت کا مقابلہ کریں، صحیح اسلامی تعلیمات کو فروغ دیں اور لوگوں میں شعور بیدار کریں۔ ہمیں فرقہ واریت اور تنگ نظری سے بالا تر ہو کر اتحاد و یگانگت کا درس دینا چاہیے۔

ایثار اور قربانی کا جذبہ

کربلا ایثار اور قربانی کی لازوال داستان ہے۔ امام حسینؑ اور ان کے رفقاء نے اپنے سب کچھ کو دین کی خاطر قربان کر دیا۔ یہ جذبہ آج بھی ہمارے اندر زندہ رہنا چاہیے۔ ہمیں اپنے ذاتی آرام اور خواہشات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے معاشرتی خدمت اور انسانیت کی بھلائی کے لیے کام کرنا چاہیے۔ ایک بہتر معاشرہ بنانے کے لیے عملی اقدامات کرنا اور اس کے لیے قربانی دینا ہی حسینی راستہ ہے۔                                                                                                                         عمل کی اہمیت

قیامِ امام حسینؑ محض ایک واقعہ نہیں، بلکہ ایک تحریک ہے جو ہمیں عمل پر ابھارتی ہے۔ صرف نوحہ خوانی اور ماتم سے یہ مقصد پورا نہیں ہوتا۔ اصل مقصد یہ ہے کہ ہم امام حسینؑ کے پیغام کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بنائیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اندر ایسی تبدیلیاں لائیں جو ہمیں حسینی طرز زندگی کی طرف لے جائیں۔ اپنے گھروں سے لے کر معاشرتی سطح تک، ہر جگہ عدل و انصاف اور حق پرستی کا پرچار کریں۔

فکری اور عملی جدوجہد

عصرِ حاضر میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ایک فکری اور عملی جدوجہد کریں۔ فکری جدوجہد اس طرح کہ ہم امام حسینؑ کے افکار اور مقاصد کو سمجھیں اور انہیں آج کے مسائل پر منطبق کریں۔ عملی جدوجہد یہ کہ ان افکار کو اپنی زندگی اور معاشرت کا حصہ بنائیں۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہمارے اندر یزیدی طرز فکر اور عمل تو موجود نہیں؟ اگر موجود ہے تو اسے ختم کرنے کی کوشش کریں۔

نتیجہ

قیامِ امام حسینؑ ہمیں ایک ایسی مشعل فراہم کرتا ہے جس کی روشنی میں ہم اپنے تاریک معاشروں کو منور کر سکتے ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس عظیم میراث کو نہ صرف زندہ رکھیں بلکہ اسے آنے والی نسلوں تک بھی منتقل کریں۔ اگر ہم امام حسینؑ کے پیغام کو صحیح معنوں میں سمجھ لیں اور اسے اپنی عملی زندگی میں اپنا لیں تو نہ صرف یہ کہ ہم ایک بہتر فرد بنیں گے بلکہ ایک بہتر معاشرہ بھی تشکیل دے سکیں گے۔ کیا ہم اس عظیم ذمہ داری کو نبھانے کے لیے تیار ہیں؟

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

twenty − thirteen =