تحریر: بشارت حسین زاہدی
پاکستان میں شیعیانِ علیؑ کی قیادت کا مسئلہ ہمیشہ سے ایک حساس اور اہم موضوع رہا ہے۔ ایک ایسی قیادت جو نہ صرف ملت کے داخلی استحکام کو یقینی بنائے بلکہ خارجی چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے قوم کو یکجا رکھ سکے۔ اس ضمن میں، قائد محترم نے اپنی بصیرت اور حکمت عملی سے تشیع پاکستان کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ انہوں نے نہ صرف ملت کو درپیش مسائل پر گہری نظر رکھی بلکہ انہیں حل کرنے کے لیے عملی اقدامات بھی کیے۔ ان کی قیادت میں ملت کو ایک واضح سمت ملی اور مختلف محاذوں پر کامیابیوں کا حصول ممکن ہوا۔ یہ انہی کی دور اندیشی اور انتھک کوششوں کا نتیجہ ہے کہ ملتِ تشیع نے سیاسی میدان میں بھی اہم کامیابیاں حاصل کیں۔ سینٹ، قومی اسمبلی، اور گلگت بلتستان میں حکومت کی تشکیل میں قائد محترم کی قیادت نے کلیدی کردار ادا کیا، جو قوم کے لیے ایک قابلِ فخر باب ہے۔
بدقسمتی سے، کافی مدت سے کچھ افراد نے ذاتی مفادات کی خاطر قیادت کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا، جس سے نہ صرف قیادت کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی بلکہ حریم تشیع میں انتشار بھی پیدا ہوا۔ ان عناصر نے خود کو قیادت کے متبادل کے طور پر پیش کیا اور مختلف ناموں سے تنظیمیں بنائیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے اقدامات نے ملت کو منتشر کرنے کے سوا کوئی قابلِ ذکر کام نہیں کیا۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان عناصر نے ہمیشہ وہی کام کیا جس پر وہ پہلے قیادت کو ہدفِ تنقید بناتے رہے۔ مثال کے طور پر، جب قائد محترم نے اپنی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک میں اتحاد بین المسلمین کی اہمیت پر زور دیا اور دیگر مذاہب کے ساتھ مل کر اتحادِ ملت کے لیے بے مثال خدمات انجام دیں—جس کی روشن مثال ملی یکجہتی کونسل میں ان کی فعال شرکت اور کردار ہے—تو اس وقت قیادت کے مخالفین نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ انہیں یہ عمل "غلط” اور "بے جا” محسوس ہوا۔ قائد محترم کی یہ گہری سوچ تھی کہ پاکستان جیسے کثیرالمذاہب معاشرے میں امن و استحکام کے لیے تمام مکاتبِ فکر کے درمیان ہم آہنگی ناگزیر ہے۔ ان کی کوششوں سے اتحاد بین المومنین (شیعہ مکاتبِ فکر کے درمیان) اور اتحاد بین المسلمین (اہلِ سنت اور شیعہ کے درمیان) کو غیر معمولی فروغ ملا، جو کہ آج بھی ان کی قیادت کا ایک روشن باب ہے۔
لیکن جب انہی عناصر نے خود اپنی تنظیمیں بنائیں، تو انہوں نے وہی کام شروع کر دیا جس پر وہ پہلے قیادت کو برا بھلا کہتے تھے۔ یہ عمل اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ان کے پاس کوئی نیا وژن یا حکمت عملی نہیں تھی، بلکہ وہ صرف اقتدار کی ہوس میں قیادت پر نقد کر رہے تھے۔ اگر ان کا مقصد ملت کی خدمت تھا تو نئی تنظیمیں بنانے کی ضرورت کیا تھی جب وہی کام کرنے تھے جو پہلے ہی قیادت انجام دے رہی تھی قائد محترم کی قیادت نے ہمیشہ قوم کو درپیش ہر چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے متحد رہنے کی تلقین کی اور ان کے عملی اقدامات نے اس بات کو ثابت بھی کیا۔
تنظیم بنانا عیب نہیں ہے، بلکہ یہ وقت کی ضرورت بھی ہو سکتی ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ تنظیم قیادت اور ملت کو کمزور کرنے کے بجائے ان کے لیے فائدہ مند اور مددگار ثابت ہو۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس تمام تر مخالفت اور بے جا تنقید کے باوجود، قائد محترم نے کبھی بھی ان کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولا۔ ان کا صبر، تحمل، حکمت اور دانائی قابلِ تقلید ہے۔ تمام تر مشکلات کے باجود، وہ اپنی قیادت کی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں اور ملت کو متحد رکھنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔
اب بھی وقت ہے! تمام اختلافات کو ختم کرکے قومی اور مرکزی پلیٹ فارم، آئینی اور با بصیرت قیادت کے چھتری کے تلے جمع ہو کر قوم و ملت کی خدمت کریں۔ اسی میں تشیع کی سرفرازی اور سربلندی ہے۔ یقیناً آپ (مخالفین) قوم کا درد سمجھ کر قومی خدمت کے لیے مرکزی پلیٹ فارم سے جدا ہو گئے ہوں گے، لیکن وہ ہدف حاصل نہیں ہوا۔ ابھی قوم کے خاطر دوبارہ آجائیں۔ بقول ان برادران کے کہ "ہم قوم کے خاطر الگ ہوگئے”، ابھی اسی قوم کے خاطر آپ اپنی قومی جماعت کے ساتھ دوبارہ آجائیں۔ قوم و ملت کا صلاح بھی اسی میں ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ قوم کے مسائل حل ہوں اور ملی یکجہتی کی حقیقی مثال قائم ہو، تو ہمیں اپنے ذاتی اختلافات اور گروہ بندیوں کو بالائے طاق رکھنا ہوگا۔ ایک دفعہ قیادت کو مضبوط کرکے دیکھیں۔ جب تمام توانائیاں ایک مرکز پر مرکوز ہوں گی، تو یقیناً قوم کے دیرینہ مسائل بھی حل ہوں گے اور ہم اجتماعی طور پر زیادہ مضبوط اور مؤثر انداز میں اپنے حقوق کا دفاع کر سکیں گے۔ یہ محض ایک کالم نہیں بلکہ ملت کے ہر باشعور فرد کے لیے ایک درد بھری پکار ہے۔ ہماری بقا، ہمارا استحکام اور ہماری حرمت، مضبوط اور متفقہ قیادت سے وابستہ ہے۔
تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا واٹس ایپ چینل فالو کیجئے۔