تحریر: محمد شاهد رضا خان
فضائل امام علیؑ ان آیات، احادیث، خصوصیات اور تاریخی واقعات کو کہا جاتا ہے جن میں شیعوں کے پہلے امام حضرت علیؑ کے فضائل بیان ہوئے ہیں۔ پیغمبر اکرمؐ سے منقول ہے کہ امام علیؑ کے فضائل قابل شمار نہیں ہیں۔ پیغمبر اکرمؐ سے نقل ہونے والی ایک حدیث کے مطابق حضرت علیؑ کے فضائل کو نقل کرنا، لکھنا، دیکھنا اور سنّا گناہوں کی بخشش کا سبب ہے۔
امام علیؑ کے فضائل کو دو قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے: ایک قسم ان فضائل کی ہیں جو صرف آپ سے مختص ہیں جبکہ دوسری قسم ان فضائل کی ہیں جن میں آپ کے ساتھ دوسرے ائمہ اور اہل بیتؑ بھی شامل ہیں: آیہ ولایت، آیہ شِراء، آیہ انفاق، حدیث غدیر، حدیث طیر، حدیث منزلت، مولود کعبہ اور خاتم بخشی آپ کے اختصاصی فضائل میں سے ہیں۔ جبکہ آیہ تطہیر، آیہ اہلالذکر، آیہ مَوَدّت اور حدیث ثقلین وغیرہ میں آپ کے ساتھ اہل بیتؑ کے دیگر افراد بھی شامل ہیں۔
بنی امیہ کے دور میں آپ کے فضائل کو نشر کرنے پر پابندی لگائی گئی۔ اس دور میں آپ کے فضائل کو نقل کرنے والوں کو یا مار دیا جاتا تھا یا انہیں قیدی بنایا جاتا تھا۔ اسی طرح حاکم شام کے حکم سے امام علیؑ کے فضائل کے مقابلے میں بعض خلفاء کے لئے فضیلت جعل کرنے والوں کی تشویق کی جاتی تھی۔ بعض مورخین اس بات کے معتقد ہیں کہ اسی وجہ سے اہل سنت منابع میں امام علیؑ کے فضائل بہت کم نقل ہوئے ہیں۔
ان تمام باتوں کے باوجود شیعہ اور اہل سنت جوامع حدیث میں حضرت علیؑ کے بہت سارے فضائل نقل ہوئے ہیں۔ اسی طرح دونوں مذاہب فکر کے علماء نے اس سلسلے میں مستقل طور پر کتابیں بھی تحریر کی ہیں۔ فضائل امیرالمؤمنین ابن حنبل، خصائص امیر المؤمنین نسائی اور عُمْدَۃُ عُیونِ صِحاحِ الأخْبار فی مَناقبِ إمامِ الأبرار ابن بطریق من جملہ ان کتابوں میں سے ہیں۔
اہمیت اور اقسام
فضائل امام علیؑ ان آیات، احادیث، خصوصیات اور تاریخی واقعات کو کہا جاتا ہے جن میں شیعوں کے پہلے امام حضرت علیؑ کے فضائل بیان ہوئے ہیں۔ فضائل ان صفات اور خصوصیات کو کہا جاتا ہے جن کے ذریعے کوئی شخص یا گروہ دوسروں سے متمایز ہوتے ہیں۔
شیعہ کلامی کتابوں میں امام علیؑ کے فضائل سے آپ کی امامت اور خلافت کے لئے دوسروں پر آپ کی فوقیت کو ثابت کرتے ہیں۔
پیغمبر اسلامؐ سے منقول ہے کہ حضرت علیؑ کے فضائل کثرت کی وجہ سے قابل شمار نہیں ہیں۔ اسی طرح احمد بن حنبل نقل کرتے ہیں کہ جتنے فضائل علی بن ابیطالب کے لئے نقل ہوئے ہیں وہ کسی بھی صحابی کے لئے نقل نہیں ہوئے ہیں۔
فضائل امام علیؑ دو طرح کے ہیں
اختصاصی فضائل
یعنی وہ فضائل جو صرف علی علیہ السلام سے مختص ہیں مثلا لیلۃ المبیت کو پیغمبر اکرمؐ کے بستر پر سونا جو آیت شراء کے نزول کا سبب بنا۔
مشترک فضائل
وہ فضائل جن میں آپ کے علاوہ پنج تن یا دوسرے معصومین بھی شامل ہیں؛ جیسے حدیث ثقلین جو آپ کے علاوہ اہل بیتؑ کے دوسرے افراد کو بھی شامل کرتی ہے اسی طرح حدیث کساء جس میں آپ کے علاوہ پنج تن کے دوسرے افراد بھی شامل ہیں۔
ابن شاذان قمی نے پیغمبر اکرمؐ سے ایک حدیث نقل کی ہے جس کے مطابق جو شخص امام علیؑ کے فضائل میں سے کسی ایک کو بیان کرے اور اس پر اعتقاد بھی رکھے تو خدا اس کے گذشتہ اور آئندہ کے گناہ معاف کر دے گا اور اگر کوئی شخص آپ کے فضائل میں سے کسی فضلیت کو تحریر کرے تو جب تک وہ تحریر باقی ہے ملائکہ اس شخص کے لئے استغفار کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی شخص آپ کی کسی فضلیت کو سنے تو اس کے کانوں کے ذریعے انجام پانے والے گناہ معاف کئے جائیں گے اور اگر کوئی شخص آپ کی کسی فضلت کی طرف دیکھے تو اس کی آنکھوں کے ذریعے انجام پانے والے گناہ معاف کئے جائیں گے۔
قرآن میں ذکر ہونے والے فضائل
قرآن میں ذکر ہونے والے فضائل سے مراد قرآن کے وہ آیات ہیں جو امام علیؑ کی شأن میں نازل ہوئی ہیں یا آپؑ کو ان کا مصداق قرار دیا جاتا ہے۔ ابن عباس سے منقول ہے کہ قرآن کی آیات جتنی حضرت علیؑ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں کسی اور کے بارے میں نازل نہیں ہوئی ہیں۔اسی طرح ابنعباس رسول خداؐ سے نقل کرتے ہیں کہ خدا نے کسی آیت کو نازل نہیں کیا جو “یا أیها الذین آمنوا” کے ذریعے شروع ہوتی ہے، مگر یہ کہ حضرت علیؑ ان میں مؤمنوں کے امیر کی حیثیت سے ان میں سر فہرست ہیں۔
ابن عباس 300 سے بھی زائد آیات کو حضرت علیؑ کی شأن میں نازل ہونے کے قائل ہیں۔ قرآن میں ذکر ہونے والے حضرت علیؑ کے بعض فضائل یہ ہیں:
آیہ ولایت
سورہ مائدہ کی آیت نمبر 55 جس میں خدا، پیغمبر اسلامؐ اور نماز اور زکات قائل کرنے والے کی ولایت کو تمام مسلمانوں پر واجب قرار دیتے ہیں۔شیعہ اور اہل سنت مفسرین اس آیت کی شأن نزول کو حضرت علیؑ کی جانب سے خاتم بخشی کا واقعہ قرار دیتے ہیں جس میں آپ نے رکوع کی حالت میں فقیر کے لئے اپنی انگوٹھی بخش دی تھی۔
آیہ شراء
سورہ بقرہ کی آیت نمبر 207 میں ان لوگوں کی تعریف کی گئی ہیں جو خدا کی رضایت کی خاطر اپنی جانوں کو قربان کرتے ہیں۔
ابن ابی الحدید کے مطابق تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ آیت حضرت علیؑ کی فضیلت میں نازل ہوئی ہے۔
علامہ طباطبایی لکھتے ہیں: احادیث کے مطابق یہ آیت لیلۃ المَبیت کے واقعے کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اس واقعے میں مشرکین مکہ نے رات کے وقت پیغمبر اسلامؐ کے گھر پر حملہ کرکے آپؐ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس رات امام علیؑ نے پیغمبر اکرمؐ کے بستر پر سو کر آپ کی جان بچائی۔
آیہ تبلیغ
سورہ مائدہ کی آیت نمبر 67 میں خدا نے پیغبر اسلامؐ کو اس بات پر مأمور فرمایا تھا کہ جو پیغام خدا نے آپ تک پهنچایا ہے اسے لوگوں تک پہنچایا جائے اور اگر آپ اس پیام کو لوگوں تک پہنچانے میں کوتاہی کریں تو گویا آپ نے اپنی رسالت کا کوئی کام انجام نہیں دیا ہے۔ شیعہ اور اہل سنت مفسرین کے مطابق آیہ تبلیغ حجۃ الوداع سے واپسی پر غدیر خم کے مقام پر پیغمبراکرمؐ پر نازل ہوئی۔ احادیث میں اس آیت کی شأن نزول کو واقعہ غدیر میں حضرت علیؑ کی جانشینی کا اعلان قرار دیا گیا ہے۔
آیہ اِکمال
سورہ مائدہ کی آیت نمبر 3 میں دین اسلام کی تکمیل کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے۔ شیعہ مفسر آیت اللہ مکارم کے مطابق شیعہ تفاسیر میں دین اسلام کی تکمیل سے مراد امام علیؑ کی خلافت اور امامت کا اعلان ہے اور احادیث بھی اس بات کی تائید کرتی ہیں۔ شیعہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آیہ اکمال واقعہ غدیر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
آیہ صادقین
سورہ توبہ کی آیت نمبر 119 میں مؤمنین کو یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ صادقین کے ساتھ رہیں اور ان کی پیروی کریں۔ شیعہ احادیث میں صادقین سے مراد اہل بیتؑ لیا جاتا ہے۔ محقق طوسی اس آیت کو حضرت علیؑ کی امامت کے دلایل میں سے قرار دیتے ہیں۔
آیہ خیر البریہ
سورہ بینہ کی آیت نمبر 7 میں ایمان لانے اور عمل صالح انجام دینے والوں کو لوگوں میں سے سے بہتر قرار دیتے ہیں۔شیعہ اور اہل سنت احادیث کے مطابق یہ گروہ امام علیؑ اور آپ کے شیعہ ہیں۔
آیہ صالح المؤمنین
سورہ تحریم کی آیت نمبر 4 خدا نے حضرت علیؑ، جبرئیل اور دیگر فرشتوں کو پیغمبر اسلامؐ کا حامی قرار دیتے ہیں۔ تفاسیر فریقین سے نقل ہونے والی ایک حدیث کے مطابق صالحالمومنین کا واحد مصداق امام علیؑ ہیں۔
آیہ انفاق
سورہ بقرہ کی آیت نمبر 274 میں دن رات، مخفی اور آشکار انفاق کرنے والوں کا ثواب اپنے پروردگار کے یہاں محفوط قرار دیتے ہیں۔مفسرین کے مطابق یہ آیت حضرت علىؑ کی شأن میں نازل ہوئی کیونکہ آپ کے پاس 4 درہم تھے جس میں سے ایک کو آپ نے رات کے وقت ایک کو دن کے وقت، ایک کو مخفی طور پر اور ایک کو اعلانیہ طور پر راہ خدا میں خرچ کر ڈالا۔
آیہ نجوا
سورہ مجادلہ کی آیت نمبر 12 میں دولت مند مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب بھی پیغمبر اکرمؐ سے نجوا (مخفی گفتگو) کرنا چاہے تو اس سے پہلے صدقہ دیا کریں۔آیت اللہ طبرسی کے مطابق اکثر شیعہ اور اہل سنت مفسرین نے امام علیؑ کو واحد شخصیت قرار دیتے ہیں جس نے اس آیت پر عمل کیا ہے۔
آیہ وُدّ
سورہ مریم کی آیت نمبر 96 میں خدا نے مؤمنین کی محبت دوسروں کے دلوں میں قرار دئے ہیں۔ احادیث کے مطابق پیعمبر اکرمؐ نے حضرت علیؐ سے فرمایا: اے علی یہ دعا مانگو کہ خدا تیری محبت مؤمنین کے دلوں میں قرار دیں۔ اسی سلسلے میں یہ آیت نازل ہوئی۔
آیہ مباہلہ
سورہ آل عمران کی آیت نمبر 61 میں مباہلہ کے واقعے کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے جس میں پیغمبر اکرمؐ نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ دین کی حقانیت پر مباہلہ فرمایا۔ تفاسیر میں آیا ہے کہ امام علیؑ اس آیت میں نَفْس پیغمبرؐ کے عنوان سے پہچنوایا گیا۔
آیہ تطہیر
سورہ احزاب کی آیت نمبر 33 کے ایک حصے میں خدا نے اہل بیتؑ کو ہر قسم کی رجس اور نجاست سے پاک رکھنے کا اردہ فرمایا ہے۔ شیعہ اور اہل سنت مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ آیت اصحاب کساء کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
آیہ اولی الامر
سورہ نساء کی آیت نمبر 59 میں مؤمنین کو یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ خدا، رسول خداؐ اور اولوالامر کے فرامین کی اطاعت کریں۔شیعہ اور اہل سنت مفسرین کے مطابق مذکورہ آیت اولوالامر کی عصمت پر دلالت کرتی ہے۔
احادیث میں اولیالامر سے شیعہ ائمہ مراد لیا گیا ہے۔
آیہ مودت
سورہ شوری کی آیت نمبر 23 جس میں “اَلْقُرْبیٰ” کی مودت اور محبت پیغمبر اکرمؐ کی رسالت کے اجر کے عنوان سے مسلمانوں پر فرض کی گئی ہے۔ ابن عباس سے منقول ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے “القربی” سے حضرت علیؑ، حضرت فاطمہؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ مراد لئے ہیں۔
آیہ اطعام
سورہ انسان کی آیت نمبر 8 جس میں نیکوکار ان لوگوں کو قرار دیتے ہیں جو خود محتاج ہوتے ہوئے مسکین، یتیم اور اسیر کی مدد کرتے ہیں۔ احادیث کے مطابق یہ آیت امام علیؑ اور حضرت زہرا(س) کی بخشش کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ احادیث کے مطابق حضرت علیؑ، حضرت فاطمہ(س) اور آپ لوگوں کی کنیز فضہ نے حسنینؑ کی شفایابی کے لئی تین دن روزہ رکھا اور تینوں دن افطاری کے وقت خود بھوکا ہونے کے باوجود اپنا کھانا مسکین، یتیم اور اسیر کے لئے بخش دئے۔
آیہ اہلالذکر
سورہ نحل کی آیت نمبر 43 اور سورہ انبیاء کی آیت نمبر 7 میں اہل ذکر سے سوال کرنے پر تاکید کی گئی ہے۔ بعض احادیث کے مطابق اہل ذکر پیغمبر اکرمؐ کی اہل بیتؑ میں منحصر ہیں۔
احادیث میں ذکر ہونے والے فضائل
پیغمبر اکرمؐ سے امام علیؑ کی مدح میں بہت ساری احادیث نقل ہوئی ہیں۔ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:
حدیث غدیر
پیغمبر اسلامؐ کا غدیر خم کے مقام پر حضرت علیؑ کی جانشینی کا اعلان کرتے ہوئے دیا جانے والا خطبہ حدیث غدیر کے نام سے مشہور ہے۔ یہ حدیث شیعہ اور اہل سنت منابع میں نقل ہوئی ہے اور حضرت علی کی امامت و خلافت کو ثابت کرنے کے سلسلے میں شیعوں کے اہم ترین دلائل میں شمار ہوتے ہیں۔
حدیث منزلت
اس حدیث میں پیغمبر اسلامؐ کی بنسبت امام علیؑ کے مقام و منزلت کو حضرت موسی کی بنسبت حضرت ہارون کے مقام و منزلت سے تشبیہ دی گئی ہے۔
حدیث مدینۃ العلم
پیغمبر اسلامؐ سے نقل ہونے والی ایک حدیث ہے جس میں حضور اکرمؐ نے اپنے آپ کو علم کا شہر اور حضرت علیؑ کو علم کا دروازہ قرار دیئے ہیں۔کتاب الغدیر میں اہل سنت کے 21 محدثین کا نام لیا گیا ہے جنہوں نے اس حدیث کو حسن یا صحیح قرار دیئے ہیں۔
حدیث یومالدار
پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک حدیث ہے جس میں آپ نے اپنے رشتہ دراوں کو مہمانی پر دعوت فرمایا جس کی ضمن میں آپ نے حضرت کو اپنا وصی اور جانشین بنانے کا اعلان فرمایا۔ شیعہ متکلمین حضرت علیؑ کی امامت و خلافت کو ثابت کرنے کے لئے اس حدیث سے استناد ہیں۔
حدیث وصایت
اس حدیث میں پیغمبر اسلام ؐ نے امام علیؑ کو اپنا وصی اور جانشین مقرر فرمایا ہے۔ شیعہ امام علیؑ کی امامت و خلافت کو ثابت کرنے کے لئے اس حدیث سے تمسک کرتے ہیں۔
حدیث ولایت
اس حدیث میں پیغمبر اکرمؐ نے حضرت علیؑ کو اپنے بعد مؤمنین کے ولی کے طور پر معرفی فرمایا ہے۔ یہ حدیث مختلف عبارتوں کے ساتھ شیعہ اور اہل سنت منابع میں نقل ہوئی ہے۔ شیعہ لفظ “ولیّ” جو “عَلِیٌّ وَلِیُّ کُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ بَعْدِی” میں آیا ہے کو امام اور سرپرست کے معنی میں لیتے ہیں اس طرح وہ حضرت علی کی امامت و خلافت کو ثابت کرنے کے لئے اس حدیث سے بھی تمسک کرتے ہیں۔
حدیث طیر
حضرت علیؑ کی فضیلت میں نقل ہونے والی اس حدیث کے مطابق ایک دفعہ پیغمبر اکرمؐ نے پرندے کا گوشت کھانے کا ارادہ فرمایااور خدا سے درخواست کیا کہ اس کھانے میں آپ کو لوگوں میں سب سے افضل شخص کے ساتھ کھانا تناول فرمانے کی سعادت بخش دیں، اس موقع پر حضرت علیؑ تشریف لائے اور آپ کے ساتھ اس کھانے کو تناول فرمایا۔ یہ حدیث شیعہ اور اہلسنت منابع میں آئی ہے۔
حدیث رایَت
یہ ایک مشہور حدیث ہے جسے حضرت محمدؐ نے غزوہ خیبر کے مقام پر ارشاد فرمایا: “کل میں پرچم ایک ایسے شخص کو دونگا جو درِ خیبر کو فتح کرے گا، وہ خدا اور اس کے رسول کو دوست رکھے گا اور خدا اور اس کا رسول بھی اسے دوست رکھے گا۔
حدیث ثقلین
قرآن و اہل بیت کی شأن میں حضرت رسول اکرمؐ سے منقول ہونے والی اس مشہور حدیث میں آیا ہے: “میں تم میں دو گرانبہا چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں اگر ان دونوں سے متمسک رہو تو کبھی بھی گمراہ نہیں ہونگے: اور یہ دو چیزیں خدا کی کتاب اور میری عترت ہے۔ یہ حدیث شیعہ اور اہل سنت منابع میں نقل ہوئی ہے۔
حدیث کسا
پنج تن پاک کی فضیلت میں نقل ہونے والی یہ حدیث جو شیعہ اور اہل سنت میں آئی ہے، پیغمبر اسلامؐ نے اپنی خاندان کو ایک اونی چادر (کِساء) کے نیچے جمع فرما کر دعا فرمائی: “خدایا یہ لوگ میری اہل بیت ہیں۔ پلیدی اور نجاست کو ان سے دور رکھ۔
حدیث سفینہ
پیغمبر اسلامؐ سے نقل ہونے والی اس مشہور حدیث میں آپؐ نے اپنی اہل بیتؑ کو کشتی نوح کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا جو بھی اس میں سوار ہوگا نجات پائے گا اور جو ان کی مخالفت کرے گا ہلاک ہو گا۔یہ حدیث بھی شیعہ اور اہل سنت منابع میں نقل ہوئی ہے۔
حدیث شجرہ
پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: میں اور علی ایک درخت سے خلق ہوئے ہیں جبکہ باقی لوگ مختلف درختوں سے خلق ہوئی ہیں بعض مفسرین پیغمبر اکرمؐ اور امام علیؑ کا ایک منشأ سے پیدا ہونے کو اطاعت کرنے میں آپ دونوں کے مساوی ہونے پر دلیل قرار دئے ہیں۔
حدیث لوح
یہ حدیث پیغمبر اسلام ؐ کی جانب سے بارہ اماموں کی امامت کو ثابت کرنے کے لئے نقل ہونے والی احادیث میں سے ہیں جس میں آپؐ نے اپنے بارہ جانشینوں کا نام امام علی ؑ سے امام مہدیؑ تک کا ذکر فرمایا ہے۔
حدیث حق
یہ حدیث پیغمبر اکرمؐ کی مشہور احاديث میں سے ایک ہے جس میں آپ نے حضرت علیؑ کو حق کا معیار قرار دئے ہیں۔ اس حدیث کی ایک تعبیر میں یوں آیا ہے: “على حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ اور یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر پہنچ جائے۔
حديث تشبيہ
اس حدیث میں پيغمبر اکرمؐ نے حضرت علىؑ کو اپنے اور دیگر انبیا کے ساتھ تشبيہ دی ہیں، یہ حدیث شیعہ اور اہل سنت منابع میں نقل ہوئی ہے۔
لا فَتَى إِلَّا عَلِی
اس حدیث کا معنا یہ ہے کہ جوانمردی میں علی ابن ابی طالب جیسا کوئی نہیں ہے۔ حدیثی اور تاریخی منابع کے مطابق اس حدیث کو جبرئیل نے جنگ اُحُد میں حضرت علیؑ کی فداکاری کے سلسلے میں بیان کیا ہے۔ یہ حدیث بھی شیعہ اور اہل سنت منابع میں موجود ہے۔
حدیث قسیم النار و الجنۃ
پیغمبر اسلامؐ سے منقول اس حدیث کے مطابق حضرت علیؑ بہشت اور جہنم کا تقسیم کرنا والا ہے۔ یہ حدیث شیعہ اور اہل سنت منابع میں مختلف طریقوں اور مختلف راویوں سے نقل ہوئی ہے۔
پیغمبر اکرمؐ سے ان کے علاوہ بھی بہت ساری احادیث حضرت علیؑ کی فضیلت میں نقل ہوئی ہیں؛ من جملہ ان میں “ضربة علی فی یوم الخندق افضل من عبادة الثقلین “جو شخص علیؑ کی شان میں گستاخی اور سب و شتم کرے اس نے گویا مجھ پیغمبر کو مورد لعن قرار دیا ہے”؛جس نے بھی علی کو اذیت پہنچائی گویا مجھے اذیت پہنچائی”
“علی کی دوستی مؤمن کو منافق سے جدا کرتی ہے۔”علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں۔”علی کا ذکر عبادت ہے۔”علی کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔”حدیث خاصِف النَعل اور حدیث مؤاخات شامل ہیں۔
اسی طرح صِدِّیق اکبر اور فاروق اعظم جیسے القاب بھی حضرت علیؑ کے فضائل میں شمار ہوتے ہیں جو احادیث میں بیان ہوئے ہیں۔
حضرت علیؑ کی خصوصیات اور آپ سے مربوط تاریخی واقعات
حضرت علیؑ کی بعض خصوصیات، امتیازات اور آپ سے مربوط بعض تاریخی واقعات درج ذیل ہیں: حضرت فاطمہ(س) سے شادی: حضرت علیؑ کی اختصاصی فضائل میں سے ایک پیغمبر اکرمؐ کی اکلوتی بیٹی حضرت زہرا(س) کے ساتھ آپ کی شادی ہے جو خدا کے حکم سے انجام پائی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر حضرت علیؑ نہ ہوتے تو حضرت فاطمہؑ کے لئے کوئی ہم کفو نہیں ملتا۔ مولود کعبہ، کعبہ میں حضرت علیؑ کی ولادت کی طرف اشارہ ہے یہ بھی حضرت علیؑ کے اختصاصی فضائل میں شمار ہوتے ہیں۔
لقب امیرالمؤمنین
شیعوں کے مطابق یہ لقب صرف حضرت علیؑ کے ساتھ مختص ہے۔ شیعوں کے مطابق یہ لقب پہلی بار پیغمبر اسلامؐ کے زمانے میں حضرت علیؑ کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ شیعہ محدث سید بن طاووس نے اپنی کتاب الیقین باختصاص مولانا علی بإمرۃ المؤمنین میں اہل سنت منابع سے 220 احادیث سے استناد کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ امیر المؤمنین کا لقب صرف حضرت علیؑ کے ساتھ متخص ہے۔
سدّالاَبواب
یہ واقعہ پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں پیش آیا جس میں حضور اکرمؐ نے خدا کے حکم سے حضرت علی کے دروازے کے علاوہ مسجد النبی میں کھلنے والے تمام دروازوں کو بند کروا دیا۔
پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ اخوت و برادری
پیغمبر اکرمؐ نے مدینہ ہجرت سی پہلے اصحاب کے درمیان اور ہجرت کے بعد مہاجرین اور انصار کے درمیان عقد اخوت جاری فرمایا اور دونوں دفعہ حضرت علی کو اپنا بھائی بنایا۔
پہلا مسلمان
شیعہ اور بعض اہل سنت دانشوروں کے مطابق مردوں میں حضرت علیؑ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے سب سے پہلے پیغمبر اکرمؐ پر ایمان لے آئے۔
ابلاغ آیات برائت
تفسیر نمونہ کے مطابق تقریباً تمام مفسرین اور مورخین کا اس بات پر اتفاق نظر ہے کہ جب سورہ توبہ (یا اس کی ابتدائی آیات) نازل ہوئی اور مشرکین کے ساتھ منعقدہ عہد پیمان کو ختم کر دیا، اس موقع پر پیغمبرؐ نے شروع میں اس حکم کو پہنچانے کی ذمہ درای ابوبکر کے ذمہ لگائی تاکہ وہ حج کے موقع پر مکہ اسے لوگوں کے سامنے اعلان کیا جائے؛ لیکن بعد میں اس ذمہ داری کو ابوبکر سے واپس لے کر حضرت علیؑ کے ذمہ لگادی اور حضرت علیؑ نے اس حکم کو حج کے موقع پر لوگوں تک پہنچائی۔یہ واقعہ اہل سنت منابع میں نقل ہوا ہے۔
خاتمبخشی
خاتم بخشی اس واقعے کی طرف اشارہ ہے جس میں امام علیؑ نے نماز میں رکوع کی حالت میں اپنی انگوٹھی کسی فقیر کو بخش دیئے۔ یہ واقعہ شیعہ اور اہل سنت کتب حدیثی میں نقل ہوا ہے۔
ردّ الشمس
اس واقعہ میں پیغمبر اکرمؐ کی دعا سے سورج غروب ہونے کے بعد دوبارہ لوٹ آیا تاکہ حضرت علیؑ نماز عصر ادا کر سکے۔ اسی طرح شیخ مفید کے مطابق حضرت علیؑ کے زمانے میں ایک جنگ کے دوران نماز عصر قضا ہو گئی جس پر حضرت علی کی دعا سے سورج دوبارہ پلٹ آیا۔
امام علی کے فضائل سے انکار
ابنتیمیہ اہلبیتؑ کی فضیلت میں نقل ہونے والی احادیث کو جعلی سمجھتے تھے۔ اسی طرح ان کے شاگرد اسماعیل بن عمر معروف بہ ابنکثیر دمشقی کہتے ہیں کہ علی ابن ابی طالب کی شأن میں کوئی آیت خصوصی طور پر نازل نہیں ہوئی ہے اور جو آیات ذکر کی جاتی ہیں وہ درحقیقت علی ابن ابی طالب اور دوسرے خلفاء کی شأن میں نازل ہوئی ہیں۔ ان کے خیال میں اس حوالے سے ابنعباس اور دوسرے صحابہ سے نقل ہونے والی احادیث صحیح نہیں ہیں۔ اسی طرح وہ امام علیؑ کی شان میں نقل ہونے والی اکثر احادیث کے سند کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔
کتابیات
امام علیؑ کے فضائل اہل سنت کی مشہور کتابوں جیسے صحاح ستہ میں مناقب و فضائل علی بن ابیطالب کے عنوان سے آئے ہیں۔اسی طرح فضائل اہل بیت میں لکھی گئی کتابوں میں ایک حصہ امام علیؑ کے مناقب اور فضائل سے متخص ہیں۔ شیعہ اور اہل سنت علماء نے امام علیؑ کے فضائل و مناقب میں مستقل کتابیں بھی تحریر کی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
کتب اہل سنت
فضائل امیرالمؤمنین، تحریر احمد بن حنبل شیبانی (متوفی 241ھ)۔ اس کتاب میں 369 احادیث حضرت علی کے فضائل و مناقب میں نقل ہوئی ہیں۔ ابنحنبل نے اس کتاب میں غدیر کے دن خلیفہ دوم کی طرف سے حضرت علیؑ کو مبارک باد دینے کا واقعہ بھی نقل کیا ہے۔
خصائص امیرالمؤمنین (کتاب)، تحریر احمد بن شعیب نسائی (متوفی 303ھ) جو محدث اور صحاح ستہ اہل سنت میں سے السنن کے مؤلف بھی ہیں۔ یہ کتاب عربی زبان میں لکھی گئی ہے جس میں حضرت علیؑ کے اسلام لانے کا واقعہ، پیغمبر اکرمؐ کے نزدیک آپ کا مقام، رسول خداؐ کے ساتھ آپ کی رشتہ داری اور آپ کی زوجہ اور اولاد کے مقام و منزلت کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔
مناقب الامام علی بن ابیطالب، تحریر اِبْن مَغازِلی (متوفی 483ھ)۔ یہ کتاب عربی میں لکھی گئی ہے جس میں حضرت کے بعض فضائل جیسے مولود کعبہ ہونا، اسلام لانے میں آپ کی سبقت، پیغمبر اکرمؐ کے دوش مبارک پر سوار ہونا اور آپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات اور احادیث کا ذکر کیا گیا ہے۔
ان کے علاوہ مناقب علی بن ابیطالب، تحریر احمد بن موسی بن مَردَوَیہ (متوفی 410ھ)، اَلْمعیار و المُوازنۃ فی فضائل الإمام أمیرالمؤمنین علی بن أبیطالبؑ، تألیف محمد بن عبداللہ اِسکافی (متوفی 240ھ)، الجوہرۃ فی نسب الامام علی و آلہ تحریر محمد بن ابیبکر تلمسانی (ساتویں صدی ہجری)، جواہر المطالب فی مناقب الامام علی بن ابیطالب، تحریر شمسالدین باعونی (متوفی 871ھ)، کفایۃ الطالب فی مناقب علی بن ابیطالب، تحریر محمد بن یوسف گنجی (متوفای 658ھ، مَناقِبُ الامام أمیرُالمُؤمنین ؑ تألیف موفق بن احمد خوارزمی (متوفی 568ھ) اور مناقب مرتضوی، تحریر میر محمدصالح ترمذی (متوفی 1060ھ) وغیره اہل سنت کی دیگر کتابیں ہیں جو امام علیؑ کی فضیلت کے باب میں لکھی گئی ہیں۔
کتب شیعہ
المراتب فی فضائل امیرالمؤمنین۔ یہ کتاب چوتھی صدی ہجری میں ابوالقاسم بُستی کی تحریر ہے۔ اس کتاب میں حضرت علیؑ کی فضیلت میں 450 احادیث ذکر کی گئی ہے۔
تفضیل امیرالمؤمنین، تحریر شیخ مفید (متوفی 413ھ)۔ شیخ مفید اس کتاب میں شیعہ سنی احادیث سے استناد کرتی ہوئے پیغمبر اسلام کے علاوہ تمام انبیاء پر حضرت علیؑ کی فضیلت کو ثابت کرتے ہیں۔ یہ کتاب فارسی میں ترجمہ ہوا ہے۔
الرّسالَۃُ العَلَویۃ فی فَضلِ أمیرالمؤمنینؑ عَلی سائرِ البَرّیۃ سِوی سیدنا رَسولُ اللہ ؐ۔ اس کتاب کو ابوالفتح کراجکی (متوفی 449ھ) نے عربی زبان میں تحریر کیا ہے۔ اس کتاب میں قرآنی آیات کی رو سے حضرت علی کے افضل ہونے اور آپ کی خصوصیات اور ان سے متعلق شبہات کا جواب بھی دیا گیا ہے۔
الیَقین بِاختِصاصِ مولانا عَلیّ علیہالسلام بِإمرَۃِ المُؤمِنین۔ یہ کتاب سید بن طاووس (متوفی 664ھ) کی تحریر کردہ ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں اہل سنت منابع سے 220 احادیث سے استناد کرتے ہوئے لقب “امیرالمؤمنین” کو حضرت علیؑ کے ساتھ مختص قرار دیا ہے جسے رسول اکرمؐ نے آپ کو دیا تھا۔
اس کے علاوہ عُمْدَۃُ عُیونِ صِحاحِ الأخْبار فی مَناقبِ إمامِ الأبرار مشہور بہ العُمدَۃ، تألیف ابن بطریق (متوفی 600ھ)، مائۃُ مَنْقَبَۃ مِنْ مَناقِب امیرالمؤمنین وَ الأئمّۃ مِنْ وُلْدہؑ مِن طَریقِ العامّۃ تحریر ابن شاذان، طرف من الانباء اور المناقب، تحریر سید بن طاووس، الروضۃ فی فضائل امیرالمؤمنین تحریر شاذان بن جبرئیل قمی، کشف الیقین فی فضائل امیرالمؤمنین تحریر علامہ حلی و قضاء امیرالمؤمنین تحریر محمدتقی شوشتری وغیرہ دوسری کتابیں ہیں جنہیں شیعہ علماء نے حضرت علیؑ کی فضیلت کے باب میں تحریر کی ہیں.
نوٹ: تحریر میں ردوبدل کرنا کاپی پیسٹ یا مصنف کی جگہ پر اپنا نام لکھنا شرعا و قانونا جرم ہے.