نومبر 24, 2024

فاطمہ سلام اللہ علیہا، حقانیت تشیع کی ناقابل انکار دلیل و سند

تحریر: علی سردار سراج

نجران کے عیسائی وفد کے ساتھ بحث و مباحثہ سے جب کوئی نتیجہ حاصل نہ ہوا تو اللہ تعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ایک فیصلہ کن معرکے میں داخل ہونے کا حکم دیا، جس کے بعد اسلام کی حقانیت پر کوئی شبہ باقی نہ رہے ۔

آنحضرت(ص ) فرمان رب کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے ساتھ ان ہستیوں کو لے کر میدان مباہلہ میں حاضر ہو گئے۔ جن کا تعلق ایک ہی نور سے ہے۔

ان کی جنگ آپ کی جنگ ہے۔ اور ان کا صلح آپ کا صلح ہے۔ ان میں سے ہر کسی کا جنت کے ساتھ ایک عجیب رشتہ ہے۔

ایک قسیم النار و الجنة ہے. اور دو بہشت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ اور ایک جنت کی خواتین کی سردار ہیں ۔

جب یہ ناقابل شکست لشکر، صفات الہی کا مظہر، پنجتن پاک کی صورت میں وارد میدان ہوا تو فریق مقابل کے لیے شکست تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا ۔

یہ وہ ہستیاں ہیں جو اسلام کی حقانیت کی سند بھی ہیں اور گواہ بھی ہیں۔

جس کو بھی ہدایت اور رہنمائی کی ضرورت ہو تو ان پاک ہستیوں کے نقش پا پر چلنا ہوگا کیونکہ یہی وہ سچے لوگ ہیں جن کی ہمراہی کا قرآن مجید نے حکم دیا ہے ۔

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَكُونُوا۟ مَعَ ٱلصَّٰدِقِينَ

ایمان والواللہ سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ ہوجاؤ

9-At-Tawba : 119

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد مسلمانوں میں اختلاف ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔

اس اختلاف کی تاریکی سے نکلنے کے لیے، زہرا مرضیہ سلام اللہ علیہا کی ذات سے بڑھ کر کوئی ہستی نہیں ہے کہ جن سے ہدایت کی روشنی لی جائے ۔

یہ اس لیے نہیں کہ وہ دختر پیغمبر اکرم ہیں، نہ ان بے مثال خدمات اور فداکاریوں کی وجہ سے، کہ جن سے کسی کو انکار نہیں ہے ۔ اور نہ ان بے شمار ذاتی فضائل و کمالات کی وجہ سے جن کو فریقین نے نقل کیا ہے ۔

بلکہ اس لیے کہ وہ میزان حق اور باطل ہیں ۔ چنانچہ آیت تطہیر ان کی عصمت پر واضح گواہ ہے۔ اور فریقین کے پاس موجود پیغمبر اکرم کے اس فرمان مبارک : إنَّ اللّه َ يَغضَبُ لِغَضَبِ فاطِمَةَ و يَرضى لِرِضاها ؛ (بحار الأنوار ، ج 43 ، ص 320 . المستدرك على الصحيحين ج 3 ص 167)

کے مطابق وہ اپنے قول میں صادق اور فعل میں صائب ہیں ۔اور اللہ تعالی کی رضا اور ناراضگی کا نا قابل تردید پیمانہ ہے ۔

گرچہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحیح فرمودات کے مطابق علی علیہ السلام بھی معیار حق اور باطل ہیں، لیکن حکومتی مشینری نے اپنے شیطانی حربوں کو استعمال کرکے نہ فقط انکی مخالفت کے لئے جواز فراہم کیا ہے، بلکہ ان کے مقابلے میں کی جانے والی بغاوتوں کو اجتھاد کا نام دے کر باغیوں کو مستحق پاداش بھی بنا دیا ہے ۔

لہذا صرف بانوی دو عالم کی ذات ہی بچتی ہے، جن کی حمایت اور مخالفت کے ترازو میں حق و باطل کو تولاجا سکتا ہے ۔

اور شاید زہرا مرضیہ کی چشم بصیرت آئندہ کو دیکھ رہی تھی، اس وجہ سے خود ہی وارد میدان ہوئیں۔ اور سقیفہ کے سامنے علم بغاوت بلند کیا اور اپنے وقت کے امام کے دفاع میں خطبہ دیا اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ۔

یہ ان کی کرامت ہے یا لطف الہی کہ ان کی شیخین سے ناراضگی کی خبر دوسرے منابع کے علاوہ ام المومنین عائشہ کی زبانی، تحذیف و تحریف کے شدید ترین فیلٹر سے گزر کر صحیحین کا درجہ پانے والی، مسلم اور بخاری کے ذریعے سے بھی دنیا تک پہنچ گئی ۔

لہذا یہ دو موضوع نا قابل انکار ہیں ۔

1:فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی رضا اور ناراضگی اللہ تعالی کی رضا اور ناراضگی ہے۔ ( المستدرك على الصحيحين ج 3 ص 167)

2: فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا شیخین سے تا دم حیات ناراض رہیں ۔ اور ان سے بات نہیں کی ہیں ۔ ( صحیح بخاری، ح ،1609)۔

فریقین کی متفق علیہ حدیث جو مختلف الفاظ کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اپنے زمانے کے امام کی معرفت یا بیعت کے بغیر مرنے والے شخص کی موت جاھلیت کی موت ہے۔ (صحيح مسلم ، مسلم النيسابوري ، ج3 ، ص1478،مسند احمد ، احمد بن حنبل ، ج4 ، ص96 )

اور صحیح تاریخ و روایات کی روشنی میں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ نہ فقط حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے ابو بکر کی بیعت نہیں کی ہے بلکہ اہل سنت کے اعتراف کے مطابق، جب تک فاطمہ زہرا زندہ تھیں علی علیہ السلام نے بھی اس کی بیعت نہیں کی۔ ( صحیح بخاری، ح، 4241)۔

کیا یہ ممکن ہے(نستجیر بااللہ) کہ خاتوں جنت کی موت جاھلیت کی موت ہو؟

کوئی بھی عقل سلیم کا مالک یہ گمان بھی نہیں کر سکتا ہے،جو خاتون،سيدة النساء العالمين ہو،جن کا مقام و منزلت حضرت مریم عذرا سے بلند ہو اور جو پارہ تن پیغمبر اکرم ہو اور جنت کی خواتین کی سردار ہو ان کی موت جاھلیت کی موت ہو ۔!!!

حقیقت یہ ہے کہ حضرت زہرا حقانیت اسلام، ولایت و امامت علی علیہ السلام اور حقانیت تشیع کی نا قابل انکار دلیل اور بزرگ ترین سند ہے۔

جس سے صرف وہ شخص ہی انکار کر سکتا ہے جو خورشید تابان کا انکار کر سکتا ہے۔

وہ ہدایت کے متلاشیوں کے لیے وہ چراغ ہدایت ہے جو مظلومیت کی دہلیز پر سدا روشن رہے گا۔ اسی روشنی سےلوگ،امامت،نبوت اور توحید کا سفر طے کریں گے ۔ وہ اپنے بعد وجدان بشر کو بیدار کرنے کے لئے کچھ اہم سوال چھوڑ کر گئیں ہیں ۔

1:کیوں وہ رات کی تاریکی میں دفن ہوگئیں؟

2: کیوں شیخین کو اپنے جنازے سے دور رکھنے کی وصیت کی؟

کیوں ان کی قبر اطہر مخفی رکھی گئی ہے؟

یہ وہ سوال ہیں جو کسی بھی خوابیدہ ضمیر کو آسانی کے ساتھ بیدار کر سکتے ہیں ۔

سلام الله عليها يوم ولدت و يوم استشهدت و يوم تبعث حيا.

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

8 − two =