نومبر 20, 2024

غزہ کے بچوں کی چیخ و پکاراور گونگی بہری دنیا

تحریر: شبیر احمد شگری

حدیث مبارکہ میں تمام مسلمانوں کو “جسد واحد” یعنی ایک جسم کی مانند قرار دیا گیا ہے۔ اگر جسم کے کسی حصے میں درد ہوتو تمام جسم بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس حدیث کی روشنی میں اگر آج کے مسلمان کو دیکھا جائے تو انتہائی مایوسی ہوتی ہے۔ یہاں تو ہاتھ پاؤں گلے کٹ رہے ہوں تو باقی جسم کو اثر تک نہیں ہے۔ غزہ میں اسرائیلی بمباری سے فلسطینی بزرگ کے تمام پوتے پوتیاں شہید ہوگئے ۔ بزرگ اپنے شہید پوتے پوتیوں کی لاشوں پر کھڑے ہوکر روتے ہوئے کہتا ہے کہ جب تمہاری نبی مہربان حضرت محمد مصطفی سے ملاقات ہو تو کہنا کہ اے اللہ کے رسولۖ آپ کی امت نے غزہ والوں کو ناکام کیا، اے اللہ کے رسولۖ مسلمانوں نے ہمیں ناکام کیا ۔اے اللہ کے رسولۖ ہمارے ٹکڑے ہوتے رہے اور آپ کی امت تماشہ دیکھتی رہی ۔ بزرگ نے معصوم شہیدوں کی وساطت سے جو پیغام پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھجوایا ہے کہیں روز قیامت ہم اپنی غفلت و لاپرواہی کے باعث ان کی شفاعت سے خدانخواستہ محروم نہ ہوں اب بھی وقت ہے اپنی اصلاح و عمل کا اس پر توجہ دی جائے۔ غزہ میں جاری جنگ کے بعد مسلمانوں پر خصوصا کم سن بچوں پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اس پر سوائے ایک دو ممالک کے تمام مسلمان ممالک ستو پی کر سو رہے ہیں۔ کہاں ہے 57 اسلامی ممالک کی اتحادی افواج کیا یہ افواج صرف یمن اور شام کے لئے بنائی گئی تھیں۔ کہاں ہیں عرب اور دوسرے ممالک کے مسلمان کیا ان کی غیرت نہیں جاگتی۔ کیوں آج تک انھوں فلسطین اور کشمیر کے بارے میں کوئی اقدامات نہیں کئے۔ جن مسلمانوں کی میں بات کررہا ہوں وہ کم سے کم یہ دعا تو کررہے ہیں یا اللہ ابرہا کے لشکر پر بھیجے گئے ابابیلوں کو بھیج۔ آپس میں اس بات کا تذکرہ تو کرتے ہیں کہ کتنا ظلم ہورہا ہے۔ کیا یہ کافی نہی؟ پھر اکثر مسلمان یہ بحث بھی تو کرتے نظر آتے ہیں کہ یہ حماس شیعہ ہیں یا سنی۔ خواب غفلت میں موجود ان مسلمون کو اب تک یہ احساس نہیں ہوسکا کہ دشمن تمھیں شیعہ یا سنی کہہ کر نہیں بلکہ مسلمان کہہ کرمار رہا ہے۔ علامہ صاحب نے ایسے ہی نہیں فرمایا تھا۔
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
لیکن جب تک مسلمان ایک نہیں ہوں گے۔ انھیں نہ دشمنوں کی چالیں سمجھ میں آئیں گی نہ انھیں غزہ کےمظلوم بچوں اور عورتوں کی چیخ و پکار سنائی دے گی۔ کیسے سنائی دیں گی ہم تو اپنے گھروں میں خیریت اور مزے کے ساتھ اپنے بچوں میں موجود ہیں۔ہم اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ غزہ کےکچھ مظالم بیان کرنا ہی کافی سمجھ لیتے ہیں۔ اگر غزہ کے بچوں کی فریادیں سنیں تو جگر پھٹنے لگتا ہے۔
آج غزہ میں کم سن بچوں نے اپنے سینوں پر اپنے نام لکھ رکھے ہیں تاکہ شہید ہونے کے بعد معلوم ہوسکے کہ کون ہے۔ بچوں کی زیادہ تعداد میں شہادت کی وجہ سے انھیں اجتماعی قبور میں دفن کیا جاتا ہے۔ ایک کم سن بچی نے کیا وصیت کی ہیں ملاحظہ کریں ۔میں ھایا ہوں اور اپنا وصیت نامہ لکھ رہی ہوں۔ میری دولت 80 شیکل ہے۔ اس میں سے 45 شیکل میری ماں کے لئے اور باقی 35 شیکل زینت، ہاشم، تیتا، میری خالہ ھبۃ، خالہ مریم، ماموں عبود اور پھوپھی سارہ میں سے ہر ایک کو 5، 5 شیکل دئے جائیں۔ میرے کھلونے اور دوسری اشیاء میری سہیلیوں زینت بہن، ریما، منۃ اور امل کو دیں۔ میرے لباس اور کپڑے چچازاد بہنوں کو دیں اگر بچ جائیں تو خیرات کریں۔ میرے جوتے غریبوں اور محتاجوں کو ہدیہ دیں البتہ دھونے کے بعد۔ اس وصیت سے اس بچی کا حوصلہ اور جذبہ ایثار معلوم ہوتا ہے جو ظلم و بربریت میں گھر چکی ہے جس کا گھر کسی بھی وقت صیہونی گولہ و بارود کی زد میں آسکتا ہے لیکن اس نے مرنے کے بعد بھی دوسرے لوگوں کا خیال رکھا ہے۔
ذرا تصور کریں ایک بچہ اپنے کمسن بھانجے کے لئے گیند لینے جاتا ہے واپس آتا ہے تو اس کا بھانجا اسرائیلی گولہ باری سے زخمی پڑا ہے۔ ایک تباہ شدہ گھر کے ملبے پر کھڑا بچہ روتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ میری خواہش ہے یہ سب خواب ہو۔ غزہ میں فلسطین کی وزارت صحت کی طرف سے کہا گیا تھا کہ “بجلی کے بحران اور جنریٹروں کے ایندھن کے خاتمے کی وجہ سے غزہ کے شمال میں واقع بیت حانون ہسپتال کو بند کر دیا گیا ہے۔غزہ کے ایک ہسپتال میں زیر علاج فلسطینی بچہ کہہ رہا ہے کہ ” میں نہیں چاہتا کہ ہسپتال بند ہوں کیوں کہ میں یہاں سے اپنا علاج کروانا چاہتا ہوں”۔بچے نے کہا ہے کہ اس کی طرح اور بہت سے بچے ہسپتال سے علاج کروانے کے لئے اپنی باری کے منتظر ہیں اور ان کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ غرض یہ دل جگر کو پھاڑنے والی فریادیں ہیں التجائیں ہیں۔
حالیہ مہینوں میں فلسطینی انکلیو کا دورہ کرنے والے مغربی ڈاکٹروں نے اقوامِ متحدہ میں ایک تقریب میں اسرائیل کی جارحیت سے پیدا شدہ “خوفناک مظالم” کی بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ غزہ میں صحت کی نگہداشت کا نظام بنیادی طور پر تباہ ہو چکا ہے۔غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیلی جارحیت نے تقریباً 2.3 ملین افراد کو بے گھر کر دیا، فاقہ کشی کا بحران پیدا کیا، زیادہ تر انکلیو کو مسمار کر دیا اور اس کارروائی میں 31,000 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ایک سرجن جو فلسطینیوں کے لیے برطانوی خیراتی طبی امداد کے ساتھ غزہ میں گئے تھے، نے ایک بچی کو دیکھ کر یاد کیا کہ وہ اس بری طرح سے جھلس گئی تھی کہ وہ اس کے چہرے کی ہڈیاں دیکھ سکتے تھے۔ کینسر کے سرجن نے اقوامِ متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں ہونے والی تقریب کو بتایا، “ہمیں معلوم تھا کہ اس بچی کے زندہ رہنے کا کوئی امکان نہیں تھا لیکن اسے دینے کے لیے کوئی مورفین نہیں تھی۔ تو نہ صرف وہ لامحالہ مرنے والی تھی بلکہ وہ اذیت میں مر رہی تھی۔”
بین الاقوامی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کا حملہ نسل کشی ہے۔ ان الزامات کی عالمی عدالت تحقیقات کر رہی ہے۔جبکہ اسرائیل نے نسل کشی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حماس کو نشانہ بنا رہا ہے نہ کہ شہریوں کو۔ اس نے حماس گروپ پر شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگایا اور کہا ہے کہ اسے اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔
بچوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’’سیو دی چلڈرن‘‘ نے کہا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی فضائی حملوں میں ہر 15 منٹ میں 1 بچہ موت کے منہ میں چلا جاتا ہے جب کہ معصوم بچے ناکہ بندی کے باعث پانی اور خوراک کی قلت کو بھی جَھیل رہے ہیں۔
فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی کے لاکھوں باشندوں کو سال ہال سال سے پابندیوں کی مصیبت کے بعد اب موت کا خوف بھی لاحق ہے۔ دوسری طرف دنیا غزہ میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ہونےوالے وحشیانہ قتل عام پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔
غزہ کے لاکھوں باشندوں کا مستقبل تاریک اور کربناک ہے کیونکہ بمباری اور نقل مکانی کے نتیجے میں ان کے مصائب مزید بڑھ رہے ہیں۔ تباہ کن جنگ کی وجہ سے بچے تنگ آچکے ہیں۔ وہ چیخ چیخ کر دنیا سے جنگ رکوانے کی اپلیں کرتے ہیں مگراندھی، گونگی اور بہری دنیا میں ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں۔
غزہ میں کوئی گلی اورمحلہ اسرائیلی بمباری سے محفوظ نہیں۔ شہری بےگھر ہیں۔ وہ ایک جگہ منتقل ہوتے ہیں تو اسرائیل انہیں وہاں بمباری سے نشانہ بناتا ہے یا انہیں وہاں سے بھی نقل مکانی کا نوٹس ملتا ہے۔
7 اکتوبر سے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کے حملوں میں جان کی بازی ہارنے والوں کی تعداد 32 ہزار 975 ہو گئی ہے۔
غزہ میں فلسطینی وزارت صحت کے ترجمان اشرف القدرہ نے غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے 180 دنوں سے جاری حملوں کے بارے میں معلومات فراہم کی ہیں ۔
قدرہ نے بتایا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کے حملوں میں مزید 59 فلسطینی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 83 فلسطینی زخمی ہوئے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ 7 اکتوبر سے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی حملوں میں جانیں گنوانے والوں کی تعداد بڑھ کر 32 ہزار 975 ہو گئی، قدرہ نے بتایا کہ زخمیوں کی تعداد بڑھ کر 75 ہزار 577 ہو گئی ہے ۔
وزارت صحت کے ترجمان قدرہ نے کہا کہ ملبے کے نیچے اور سڑک کے کنارے اب بھی لاشیں موجود ہیں لیکن اسرائیلی فورسز کی رکاوٹ کے باعث طبی ٹیمیں اور شہری دفاع کے اہلکار لاشوں تک نہیں پہنچ سکتے ہیں ۔
انبیاء کی سرزمین قبلہ اول کی سرزمین معصوم شہیدوں کے خون سے لال ہو چکی ہے،درجنوں اسپتال اور اسکول کھنڈر میں تبدیل ہو چکے ہیں، صحت کے مراکزمیں زندگی بچانے والی سہولیات ختم ہو چکی ہیں، وحشیانہ بمباری میں ہزاروں بے گناہ شہید ہو چکے ہیں اور زندہ ہین ان کو بھی اپنی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے کہ کب کسی بم کے گولے کا نشانہ بن جائیں۔ غرض غزہ میں صیہونیوں کی خوفناک جارحیت کے سبب ہرطرف قیامت صغریٰ کا منظرہے مگردن رات حقوق انسانی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے انسانیت کے خود ساختہ علمبردار جن کو اپنے کتے بلیوں کے بھی حقوق کی فکر ہوتی ہے ان کو یہ مظالم کیوں نظر نہیں آتے۔ اقوام متحدہ اور دوسرے انسانی حقوق کے ٹھیکیدار صرف زبانی تنقید اور مذمت پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ مسلمان جذبہ ایمانی کھو چکا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں ہمیشہ کم تعداد میں مسلمان دشمنوں کی بڑی تعداد پر بھاری رہے تھے۔ آج دنیا کی اتنی بڑی آبادی والے مسلمانوں نے چند لاکھ یہودیوں کے مظالم پر آنکھیں موندھ رکھی ہیں۔ مسلمان پھر بھی احتجاج کرتے نظر آتے ہیں لیکن حکومتوں کی سطح پراقدامات نظر نہیں آتے۔ غزہ کے لوگ ان تمام واقعات کو ہماری نظر سے نہیں دیکھتے وہ شہید ہونے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہم مردوں کو نہیں شہیدوں کو دفناتے ہیں۔ وہ موت کو نقصان نہیں سمجھتے بلکہ شہادت کو اعزاز سمجھتے ہیں۔انھوں نے شہیدوں کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے اوران کی موجودگی کو محسوس کرتے ہیں۔ وہ کیسے یہ سمجھنے کے لئے میں ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔
ایک 17سالہ فلسطینی لڑکی دانیا گھر جا رہی تھی وہ باحجاب تھی اور بڑے باوقار انداز میں چلتی جا رہی تھی لیکن راستے میں اسرائیلی فوجیوں نے اسے بلا وجہ روک لیا انہیں دانیا کا باوقار اور معزز انداز ایک آنکھ نبھایا وہ اس سے پوچھ تاچھ کرنے لگے لیکن فلسطینی بیٹی نےبہادری اور جرات مندی کے ساتھ ان کے ہر سوال کا جواب دیا اسرائیلی مزید غصے میں آگئے اور کی لڑکی کو سر میں گولیاں مار کر شہید کر دیا لہو سے فلسطینی سرزمین سرخ ہو گئی وہ ہائی سکول کی طالبہ تھی دانیہ کے گھر والوں نے صبر کے ساتھ اس کی تدفین کی لیکن اس کی شہادت کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ایک 20 سالہ فلسطینی لڑکے رائس نے سوشل میڈیا پر دانیا کی تصویر پر رلا دینے والا کمنٹ کیا “اگر یہ آپ کی اپنی بیٹی یا بہن کا جنازہ ہوتا تو اپ کیا محسوس کرتے”اس سوال نے مسلمانوں کے دلوں کو جھنجوڑ کررکھ دیا اور ہر آنکھ اشکبار ہو گئی۔ لیکن رائز نے بس کمنٹ پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ اس قاتل اسرائیلی فوجی کو ڈھونڈ نکالا اورچاقو کے وار کر کے اسے زخمی کر دیا اسرائیلی فوجیوں نے رائس کو موقع پر ہی گولیاں مار کر شہید کر دیا اور اس کے خون سے بھی ارض مقدس سرخ ہو گئی تدفین کے بعد جب اس کے والد گھر میں تھے اور لوگ تعزیت کرنے آ رہے تھے اتنے میں انہیں دانیہ کے والد بھی تعزیت کے لیے آتے دکھائی دیے وہ اپنی جگہ سے اٹھے اور اگے بڑھ کر دانیا کے والد کو اپنے گلے لگا لیا ان کا ماتھا چوم لیا اور ان سے کہا میں اللہ اور اس کے رسول کو گواہ بنا کر اپنے بیٹے کا نکاح آپ کی بیٹی دانیا سے کرنا چاہتا ہوں کیا آپ یہ رشتہ قبول کرتے ہیں شہید لڑکی کے والد نے شہید لڑکے کے والد سے کہا اللہ کے حکم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات کے روشنی میں میں اپنی شہید بیٹی دانیا کا نکاح اپ کے شہید پہ بیٹے سے کرتا ہوں اللہ جنت میں ان کا نکاح منعقد کرے اور ان دونوں پر برکت نازل فرمائے۔ میں نے جب یہ واقعہ سنا تو اس نے مجھے اندر سے جھنجوڑ کررکھ دیا۔ جو ہم بچپن سے سنتے آئے تھے کہ رشتے آسمانوں پر ہوتے ہیں وہ جملہ میرے خیال میں گھوم گیا۔اس کی تعبیر ایسے حالات میں دیکھی اورایسا رشتہ ہوتا پہلی باردیکھا لیکن جب اللہ نے یہ کہا ہے کہ شہید زندہ ہوتے ہیں تو ایسا بھی ممکن ہے۔اس لئے غزہ کے لوگوں کا تصور آخرت تصور جنت اور شہادت ہماری سوچ سے بالکل مختلف ہے فلسطینی کہتے ہیں کہ جب اللہ نے خود شہیدوں کو زندہ کہا ہے تو ہم انہیں مردہ کیوں سمجھیں اس پہلو سے زندگی کو دیکھنا اور سمجھنا بہت ہی اہم ہے سوچ کا یہی انداز تو اخرت کا صحیح تصور ہے اگر ہم غزہ کے موجودہ حالات و واقعات کو اخرت کا کی نظرسے دیکھیں قرانی اور روحانی تعلق سے سمجھنے کی کوشش کریں تو ہم فلسطینی بھائیوں کو سمجھنے میں ناانصافی نہیں کریں گےکیونکہ یہ تو ان کا جزبہ ایمانی ہے۔ لیکن باقی دنیا کے مسلمانوں کو کیا ہوگیا ہے ان کی ٖغیرت کیوں نہیں جاگ رہی۔ مسلمان قوم اس معاملے میں کیوں اندھی، گونگی اور بہری ہوچکی ہے انھیں غزہ میں ہونے والے گولہ بارود اور ٹینکوں کی گھن گرج کیوں سنائی نہں دے رہی غزہ کے بچوں کی چیخ و پکار اور فریاد کیوں سنائی نہیں دے رہی۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

8 + twelve =