نومبر 24, 2024

غزہ جنگ میں ایران براہ راست مداخلت کیوں نہیں کرتا؟

تحریر: محسن مہدیان

فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کے خلاف طوفان الاقصیٰ فوجی آپریشن کے آغاز اور شاندار فتح نے سب کے دل میں امید کی کرن پیدا کر دی تھی۔ دوسری طرف جب اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے غزہ پر وحشیانہ بمباری اور نہتے فلسطینیوں کا قتل عام شروع کیا تو بعض افراد فوراً ہی مایوسی کا شکار ہونے لگے۔ یہ افراد پہلے دن سے تصور کر رہے تھے کہ حماس کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم پر حملہ دراصل اسلامی جمہوریہ ایران کی منصوبہ بندی سے انجام پایا ہے، لہذا اب ان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ پس ایران کہاں ہے؟ اور کیوں اس جنگ میں براہ راست مداخلت نہیں کرتا؟

کچھ حد تک ان کا حق بھی بنتا ہے۔ وہ اسلامی مزاحمت کے ہمدرد بھی ہیں اور مظلوم کے دفاع پر مبنی اسلامی جمہوریہ ایران کے اصول سے بھی واقف ہیں۔ اس قسم کے سوالات کا جواب پانے کیلئے ہمیں چار چیزوں کا علم حاصل کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے حماس کو پہچاننا ہوگا۔ دوسرا طوفان الاقصیٰ آپریشن میں اسرائیل کی ناقابل تلافی شکست کو جاننا ہوگا۔ تیسرا اسلامی جمہوریہ ایران کے طرز عمل کا جائزہ لینا ہوگا اور آخر میں جدوجہد کے حتمی مرحلے کو سمجھنا ہوگا۔

1)۔ حماس کی پہچان:

حماس پتھر کے انتفاضہ سے آج طوفان الاقصیٰ فوجی آپریشن تک پہنچ چکی ہے۔ اس کی یہ ترقی صرف ہتھیاروں تک منحصر نہیں ہے۔ آج اسلامی مزاحمت میں ایسے جوان اور افراد شامل ہیں، جو حقیقی معنیٰ میں استقامت کا مظاہرہ کرنے والے اور جدوجہد کے مالک ہیں۔ آج غزہ سے بڑی تعداد میں ایسی ویڈیوز سامنے آرہی ہیں، جو شدید مصائب اور مشکلات میں مزاحمت کو ظاہر کرتی ہیں۔ فتح اور حق کی نصرت کا راز بھی اسی عظیم انسانی جدوجہد میں مضمر ہے۔ یہ روحانی اور انسانی ترقی آج پورے اسلامی مزاحمتی بلاک میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ وہی اصول ہے، جس کی بنیاد پر رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے فرمایا تھا کہ حالیہ کارنامہ مکمل طور پر فلسطین کے غیرت مند جوانوں نے انجام دیا ہے۔

2)۔ ناقابل تلافی شکست:

یہودی بستیاں شدید بدامنی کا شکار ہیں۔ اسرائیل کا فضائی دفاعی نظام بری طرح ناکام ہوچکا ہے۔ دنیا کی چوتھی بڑی فوج زمین پر چاروں شانے چت ہوگئی ہے۔ اسرائیل کے انٹیلی جنس سسٹم کی عزت خاک میں مل چکی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اسرائیل کا رعب اور دبدبہ نابود ہوگیا ہے۔ صیہونیوں کا مصنوعی رعب ختم ہوگیا ہے۔ ان کی حالیہ بربریت ایسے ہی ہے جیسے کسی محلے کا بدمعاش زخم کھا کر غصے سے پاگل ہو جاتا ہے۔

3)۔ مظلوم کا دفاع کرنے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا طرز عمل:

مظلوم کا دفاع کرنے میں ایران کا طرز عمل انسانی بیداری پیدا کرنا ہے۔ خود اسلامی جمہوریہ ایران کا قیام بھی اسی اصول کی بنیاد پر عمل میں آیا تھا۔ 1979ء کا اسلامی انقلاب انسانی بیداری کا نتیجہ تھا۔ انبیاء علیہم السلام کا طریقہ کار بھی یہی تھا۔ انسان بیدار ہو کر شعوری ترقی کرتے ہیں اور یوں زمانے کے فرعونوں اور شیطانوں کے خلاف متحدہ محاذ تشکیل پاتا ہے۔ پھر وہ شدید مشکلات کے مقابلے میں صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں اور خدا پر توکل کرتے ہوئے جدوجہد کرتے ہیں، یہاں تک کہ نصرت الہیٰ پہنچ جاتی ہے اور معجزہ رونماء ہونے لگتا ہے۔ ایران یوں مظلوم کی حمایت کرتا ہے اور اس کی حمایت کا مقصد مظلوم کو مزاحمت کے میدان میں باقی رکھنا ہے۔ مجاہد کو میدان میں رہنا ہوگا۔ ایران اس جدوجہد کی مدد کرتا ہے، لیکن اس کی جگہ نہیں لیتا۔

4)۔ جدوجہد کا حتمی مرحلہ:

جدوجہد کا حتمی مرحلہ عوام کی جان، دل اور ذہن ہے۔ انسانوں کو بیدار ہونا ہے۔ حالیہ جنگ کو ہی دیکھ لیں۔ ابتدا سے ہی تفسیروں کی جنگ پر تنازعہ کھڑا ہوا۔ اسرائیل مظلوم نمائی کرنے پر مجبور ہوگیا۔ ابتدا سے ہی میڈیا پر جھوٹا پروپیگنڈا شروع کیا گیا۔ مجاہدین پر اسرائیل میں مقیم جرمنی نژاد لڑکی کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کا الزام لگایا گیا اور کچھ دن بعد ہی اس کے اہلخانہ نے اس کی تردید کر دی۔ یہ جھوٹا پروپیگنڈا میڈیا کے انہی گھٹیا ہتھکنڈوں میں سے ایک ہے، جن کے ذریعے گذشتہ کئی سالوں سے ایران میں اسلامی نظام کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ غزہ سے متعلق تفسیروں کی جنگ المعمدانی اسپتال پر بم حملے تک جاری رہی اور اب بھی جاری ہے۔

لیکن معصوم بچوں کا یہ پاکیزہ خون بہت جلد پوری دنیا میں اصل حقیقت کو عیاں کر دے گا۔ جیسا کہ آج ہم پیرس، لندن، امریکہ اور دیگر یورپی شہروں میں ہزاروں افراد کی جانب سے سڑکوں پر نکل کر فلسطین کی حمایت کا اظہار دیکھ رہے ہیں۔ سلام فرماندہ ترانہ سوشل میڈیا میں بھرپور طریقے سے وائرل ہوا ہے اور دنیا بھر کی اہم شخصیات ظلم کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں۔ دھیرے دھیرے غزہ کی مظلومیت پر مبنی حقیقت پوری دنیا میں پھیل کر اقوام عالم کی بیداری کا باعث بنے گی۔ اسی عوامی بیداری کے نتیجے میں فرانسیسی حکومت بھی غزہ کے المعمدانی اسپتال پر حملے کی مذمت کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔ یہ چھوٹی کامیابی نہیں ہے۔ جس قدر آنکھیں کھلتی جائیں گی، مزاحمت کا دائرہ اتنا ہی وسیع تر ہوتا جائے گا۔ ایسے میں حتمی الہیٰ قانون کے تحت الہیٰ مدد پہنچ جائے گی۔ ایران اسی میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔

 

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

3 × 2 =