شام نے ایک بار پھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور سیکریٹریٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شام کی سرزمین پر اسرائیل کی جارحیت کو خطے اور دنیا کے امن کو درپیش براہ راست خطرہ قرار دے کر اس کی مذمت کرے۔ شام کی وزارت خارجہ اور وزارت مہاجرین نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور سلامتی کونسل کو دو علیحدہ خط لکھے ہیں۔ ان خطوط میں کہا گیا ہے کہ غاصب صہیونی رژیم نے دمشق اور حلب کے بین الاقوامی ہوائی اڈوں کو جان بوجھ کر فضائی جارحیت کا نشانہ بنایا ہے اور وہ قانونی، اخلاقی، سیاسی اور مالی طور پر اس جارحیت کی ذمہ دار ہے۔ اسی طرح غاصب صہیونی رژیم نے اس جارحیت کے ذریعے سویلین تنصیبات کو نقصان پہنچانے کے علاوہ عام شہریوں کی زندگی کو بھی خطرے سے دوچار کیا ہے۔
شام کی وزارت خارجہ نے اپنے خط میں لکھا: “31 اگست 2022ء کی شام 8 بجے اسرائیل نے حلب میں بین الاقوامی تجارتی ہوائی اڈے پر فضائی حملہ کیا جس کے نتیجے میں رن وے کو شدید نقصان پہنچا اور ایئرپورٹ کی دیگر تنصیبات کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اسی طرح غاصب صہیونی رژیم کے جنگی طیاروں نے 31 اگست 2022ء کی شام 9 بج کر 18 منٹ پر مقبوضہ فلسطین سے دمشق کے بعض علاقوں کو میزائل حملوں کا نشانہ بنایا جن میں دمشق کا بین الاقوامی ہوائی اڈہ بھی شامل ہے۔ اس حملے کے نتیجے میں بھی ایئرپورٹ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ غاصب صہیونی رژیم کی جانب سے شام کے انفرااسٹرکچر کو جارحیت کا نشانہ بنانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اب تک بارہا شام کے ہوائی اڈے، بندرگاہیں اور دیگر تنصیبات نشانہ بن چکی ہیں۔ شام اسرائیلی جارحیت کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔”
شام کے وزیر خارجہ فیصل مقداد نے بھی اسرائیل کے جارحانہ اقدامات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل آگ سے کھیل رہا ہے اور خطے کی سکیورٹی اور فوجی صورتحال کو کنٹرول سے باہر کر دینا چاہتا ہے۔ انہوں نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا: “شام غاصب صہیونی رژیم کے بار بار جارحانہ اقدامات کے مقابلے میں چپ نہیں بیٹھے گا اور اسرائیلی حکمرانوں کو جلد یا دیر اس جارحیت کا بھاری تاوان ادا کرنا پڑے گا۔” انہوں نے مزید لکھا: “شام نے مزاحمت کی ہے اور مزاحمت جاری رکھے گا اور ہر گز پیچھے نہیں ہٹے گا۔ ہمارے دشمن اسرائیل کو غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے اور یہ امید نہیں رکھنی چاہئے کہ ہم اپنے موقف میں تبدیلی لائیں گے۔” فیصل مقداد نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ اور مغربی ممالک اسرائیل کو شہ دینے میں مصروف ہیں جس کے نتیجے میں اس نے خطے اور دنیا کی سلامتی اور امن کو خطرے میں ڈال رکھا ہے۔
اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم شام کے خلاف مسلسل جارحانہ اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے۔ سیاسی ماہرین کی نظر میں ان جارحانہ اقدامات کا مقصد شام کو اسلامی مزاحمتی بلاک سے نکل کر اسرائیل سے سازباز کرنے والے عرب ممالک کے بلاک میں داخل ہونے پر مجبور کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب تک اسرائیل مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں مکمل طور پر ناکامی کا شکار ہوا ہے۔ غاصب صہیونی رژیم شام کی سرزمین کو امریکی ساختہ جدید ترین جنگی طیاروں کے ذریعے نشانہ بناتا آیا ہے۔ دوسری طرف نہ تو شام حکومت کمزور ہوئی ہے اور نہ ہی شام آرمی کے حوصلے پست ہوئے ہیں۔ تل ابیب نے شام میں سکیورٹی بحران کے آغاز سے ہی نت نئے ہتھکنڈوں کے ذریعے صدر بشار اسد کی حکومت گرانے کی کوشش کی ہے لیکن اسے شکست کے سوا کچھ نہیں ملا۔
گذشتہ چند برس کے دوران غاصب صہیونی رژیم کے اقدامات سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ وہ خودمختار اور متحد شام کو برداشت نہیں کر سکتی۔ صہیونی حکمران شدت سے شام میں بدامنی اور عدم استحکام کے خواہاں ہیں اور شام کے خلاف آئے دن جارحیت کا بھی یہی مقصد ہے۔ دراصل غاصب صہیونی رژیم کیلئے اس حقیقت کو تسلیم کرنا بہت مشکل ہے کہ شام میں چند سال کی خانہ جنگی اور صدر بشار اسد حکومت کو گرانے کی بھرپور کوششوں کے باوجود اس وقت شام میں صدر بشار اسد بھی برسراقتدار ہیں اور اس کی سرحدوں کے قریب شام آرمی بھی موجود ہے۔ صہیونی رژیم کیلئے شام میں اسلامی مزاحمتی فورسز کی موجودگی ایک ڈراونا خواب بن چکا ہے اور بار بار کی فضائی جارحیت اسی خوف کا نتیجہ ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شام کی مسلح افواج اسرائیل کی بار بار جارحیت کا موثر جواب کیوں نہیں دیتیں؟ جواب یہ ہے کہ شام آرمی اور اسلامی مزاحمتی فورسز اس وقت مقبوضہ فلسطین کی سرحدوں کے قریب پوزیشن سنبھال چکی ہیں۔ وہ بہت آسانی سے اسرائیلی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے سکتی ہیں لیکن فی الحال ان کی پہلی ترجیح کچھ اور ہے اور وہ ایک وقت میں اپنے سامنے کئی محاذ کھولنا نہیں چاہتیں۔ لہذا اسرائیلی جارحیت کا منہ توڑ جواب شروع ہونے میں زیادہ دیر باقی نہیں بچی۔ دمشق کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوتا جا رہا ہے اور آخرکار وہ اسرائیل کو موثر جواب دے گا۔ یہ بات شام کے وزیر خارجہ فیصل مقداد کے پیغام سے محسوس کی جا رہی ہے۔ انہوں نے تل ابیب کو شدید وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ آگ سے مت کھیلے۔