نومبر 23, 2024

عورت مارچ

تحریر: سید قمر نقوی

ایک عورت کو معاشرے میں دو زاویوں سے دیکھا جاتا ہے.پہلا زاویہ فزیالوجی کی حیثیت سے ہے.کیونکہ عورت کا جسم مرد کے جسم سے کمزور ہوتا ہے اس لئے مرد کو عورت پر اس لحاظ سے برتری حاصل ہے.دوسرا زاویہ سوشیالوجی کا ہے.یہاں جنس نہیں بلکہ جنسیت کو مدنظر رکھا جاتا ہے.یعنی یہ فرہنگی لحاظ سے جو یہ معاشرے میں کردار ادا کرتے ہیں.

اگر ہم فیمینزم کی تفسیر میں جائیں تو اس میں دو نکتہ نظر پائے جاتے ہیں.پہلی نظر ریڈیکل ہے.اس نظر کے مطابق کیونکہ عورت مرد کے برابر ہے اس لئے اسے کاملا مرد سے جدا رہنا چاہیے.دوسری نظر کے مطابق عورت مرد سے شباہت رکھتی ہے اس لئے یہ مرد کے برابر ہے.پس فیمینزم کا اصلی ترین شعار برابری ہے.لیکن یہ برابری فزیالوجی یعنی جسمی لحاظ سے اور اور سوشیالوجی کے لحاظ سے ممکن نہیں ہے.کیونکہ کچھ خصوصیات مرد میں ہیں جو عورت میں نہیں ہیں اور کچھ خصوصیات عورت میں ہیں جو مرد میں نہیں ہیں.لیکن بندہ کی نظر میں یہ انحراف اس لئے پیدا ہوا ہے کہ عدالت کا معنی برابری کیا گیا جو کہ سو فیصد غلط ہے.عدالت برابری کو نہیں بلکہ ہر چیز کو اپنی جگہ پر رکھنے کو کہتے ہیں.

لہذا ہمیں عدالت کے مفہوم کو مکمل طور پر کھولنا پڑے گا تب واضح ہوگا کہ عورت کا اسلام میں کیا مقام ہے؟کیا عورت کے ساتھ ظلم ہوا ہے؟کیا اسلام نے عورت کے حقوق معین کیے ہیں؟ وغیرہ۔

لیکن اس بحث میں وارد ہونے سے پہلے بتاتا چلوں کہ فیمینزم کا اصل ریشہ سیمن ڈگوا نامی خاتون کی طرف پلٹتا ہے.یہ اپنی کتاب کہ جسکا فارسی میں جنس دوم کے عنوان سے ترجمہ ہوا ہے،اس میں لکھتی ہے کہ انسان خاتون پیدا نہیں ہوتی بلکہ وقت کے ساتھ خاتون بن جاتی ہے.اسکے نزدیک عورت کا وجود اسی وقت ہے جب اسکے اندر شہوت موجود ہو.یہ بچے پیدا کرنے کے مخالف ہے کیونکہ اسکے بقول اس طرح عورت مرد کے قبضے میں چلی جاتی ہے .جوکہ اس کے حقوق سلب کرنے کا باعث بنتا ہے.

فیمینزم کی برابری اور اسلام کے برابری کے مفہوم میں بہت فرق پایا جاتا ہے.اسلام میں خدا کو جوابدہ ہونے میں،حیات طیبہ اور حیات خبیثہ گزارنے کے لحاظ سے مرد عورت دونوں برابر ہیں.لیکن ان میں جنس اور اجتماعی ذمہ داریوی کی تقسیم کے لحاظ سے فرق ہے اور یہ عین عدالت ہے.کیوں؟

انسانوں کا آپس میں مختلف چیزوں کا افتراق اور اختلاف ہی انکے اندر حرکت اور کوشش وجود میں لاتا ہے.اگر سب ایک جیسے ہوں تو کسی کو کسی سے کوئی غرض نہیں ہوگی اور زندگی کی گاڑی چلنا محال ہو جائے گا.سب انسانوں میں شرائط،صلاحیتیں،فکر،دولت،انگیزہ اور خوبصورتی کے لحاظ سے مختلف بنایا گیا ہے.کیونکہ یہ امتحان الٰہی ہے اور اس سے انسانوں کو آزمایا جائے گا.ہم انسانوں کا مسلہ یہ ہے کہ ہم صرف آدھے خالی گلاس کی طرف توجہ کرتے ہیں جو دوسروں کے پاس ہے اور ہمارے پاس نہیں ہے.جبکہ باقی آدھے گلاس کی طرف توجہ نہیں کرتے جو ہمارے پاس تو ہے لیکن ممکن ہے دوسروں کے پاس نہ ہو.

اب اسی کو حقوق نسواں پر منطبق کریں.خدا کی طرف سے کچھ خصوصیات مرد کو دی گئی ہیں جوکہ عورت کے بس کی بات نہیں اور کچھ خصوصیات عورت میں ہیں جو مرد کے بس کی بات نہیں کے انکو اپنے اندر پیدا کرسکے.یہ عین عدالت ہے اور خدا نے جسکو جو صلاحیت دی ہے امتحان بھی اسی کا لیا جائے گا.

مرد اور عورت مل کر خانوادہ تشکیل دیتے ہیں جو ایک معاشرے اور قوم کی بنیاد بنتا ہے.عورت میں فطری طور عاطفہ اور بچوں کی تربیت کو رکھا گیا ہے کیونکہ اس نے ایسے بچوں کی تربیت کرنی ہے جو قوم کا ایک اہم عنصر ثابت ہوسکیں.اور مرد کے ذمہ بیرونی ذمہ داریاں لگائی گئی ہیں.مرد میں عاشق کا عنصر زیادہ ہے اور عورت میں معشوق کا عنصر زیادہ ہے.

کچھ کم بختوں نے عورت کو مرد کے روپ میں لا کر فطرت پر حملہ کرنے کی کوشش کی ہے.انہوں نے عورت کو صرف جنسی آلہ سمجھا ہے اور عورت کے حیا کو پامال کیا ہے.اس انحراف کی وجہ سے مغرب میں خانوادہ تباہ ہوچکاہے اور ابھی انکے تمدن کی تباہی بھی شروع ہو گئی ہے.یہ ظاہر برابری اور عورت کے حقوق کا دم بھرتے ہیں لیکن اسکی عظیم مقام جوکہ پورے تمدن کی بنیاد تھا اسے وہاں سے گرا کر ایک جنسی ٹول بنا دیا گیا ہے.

لیکن یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ صرف اسلام ہی ہے جو عورت کو حقیقی مقام دیتا ہے.جہاں اسلام نے فردی طور پر عورت کو پردہ اور حیا کی دعوت دی ہے وہاں اجتماعی کردار ادا کرنے کا بھی کہا ہے.اجتماعی میدانوں میں ہمیشہ عورت اور مرد ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں.اسلام میں ہر تحول اور انقلاب میں عورت کا کردار مرد کے ساتھ ہی رہا ہے.اسلام میں ایسی ایسی خواتین رول ماڈل ہیں کہ صدیوں گزر جانے کے بعد آج انکی قبریں بھی زیارت گاہ اور لوگوں کی نجات کا ذریعہ ہیں.مثلاجناب سیدہ سلام اللہ علیہا جوکہ ایک نابینا شخص سے بھی پردہ کرتی تھی لیکن جب اجتماعی ذمہ داری اور اپنے حقوق لینے کا وقت آیا تو دربار میں جاتی ہیں اور اپنے حق کا صراحت سے مطالبہ کرتی ہیں.

پس جتنی اسلام نے خواتین کے حقوق کی بات کی ہے اور کسی نے نہیں کی.اور مغرب کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے کہ ظاہر خواتین کے حقوق کی بات کرتا ہے اور باطن میں اسے ہوس پرستوں کی ہوس بجھانے کا ذریعہ سمجھتا ہے.انکے اس نعرہ میں عواطف،احساسات اور ذمہ داری قبول کرنے نام کی کوئی چیز نہیں ہے. یہ آزادی کا شعار دے کر در حقیقت دوسروں کی آزادی سلب کرتے ہیں.کیونکہ ایک عورت میں خوبصورتی اور کشش رکھی گئی ہے تاکہ یہ نسل کو آگے بڑھا سکے لیکن اگر یہ آزادی کے نام پر عریان ہوکر سڑکوں پر آئے گی تو دوسروں کیلئے ناجائز شہوت کا سبب بنے گی. اس آزادی کے نام پر سب سے پہلے عورت کے حیا کو ختم کرتے ہیں جسکے نتیجے میں ایک خانوادہ متاثر ہوتا ہے اور یہ ایک قوم اور تمدن کے توڑنے کا سبب بنتا ہے.اور اسکا خمیازہ آج مغرب اچھی طرح بھگت رہا ہے.

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

four × 5 =