نومبر 22, 2024

عمران خان کی تحریک کا مقصد۔۔؟

تحریر:عمر فاروق

 

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں،،غازی عمران نیازی ،،ووہ واحدرہنماء ہیں کہ جنھوں نے اپنے ذاتی یاسیاسی مفادات کے لیے آرمی چیف کی تقرری کومتنازع بنانے کی کوشش کی ہے۔ عمران نیازی کی مہربانی سے یہ پہلاموقع ہے کہ آرمی چیف کی تقرری سوشل میڈیاپرموضوع بحث بنی ہوئی ہے اورگلی محلوں میں میں نئے آرمی چیف کے متوقع ناموں پرمباحثے ہورہے ہیں ۔اوراپنی پسندکے نام کوغدارومحب وطن بنانے کے لیے دلائل تراشے جارہے ہیں ۔سوال پیداہوتاہے کہ آخرایساکیوں ہوا؟

اس سوال سے پہلے یہ دیکھناہوگاکہ کیاہمارے آئین میں آرمی چیف کی تقرری میں اپوزیشن رہنماء کاکوئی کردارموجود ہے ؟تواس کا جواب ہے کہ آئین کے تحت صدر کا آرمی چیف کی تقرری میں کوئی کردار نہیں، اپوزیشن سے مشاورت کا بھی کہیں ذکر نہیں ہے ۔گزشتہ روزصدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی نے لاہورمیں صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے کہاہے کہ چیف آف آرمی سٹاف کی تعیناتی پر آئین مشاورت کی اجازت نہیں دیتا لیکن تعیناتی پر مشاورت ہوجائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

جہاں تک اس معاملے پرمشاورت کی بات ہے تویہ ایک غلط روایت ہوگی حکومت کویہ ریت نہیں ڈالناچاہیے کہ،، سڑک،، پربیٹھے ایک شخص سے اس تعیناتی کے لیے غیرآئینی مشاورت کی جائے ۔اگرآج یہ ریت پڑگئی توکل کوئی بھی گروہ اپناجتھالے کراسلام آبادپرچڑھ دوڑے گا اوراپنی پسندکے آرمی چیف کی تعیناتی کامطالبہ کرے گا اوریوں فوج کوسیاست زدہ اورتقسیم کرنے کی کوشش کرے گا ۔یہ ملکی سلامتی کے اہم ترین ادارے کے خلاف سازش ہے اورعمران خان ملکی معیشت کوتباہ ،سیاست کوپراگندہ کرنے کے بعداب فوج ان کے نشانے پرہے ۔

سوال یہ ہے کہ غازی عمران آخر آرمی چیف کی تقرری پرسیاست کیوں کررہے ہیں ؟تواپ جانتے ہیں کہ وہ فوج کے بغیرایک دن بھی نہیں چل سکتے ۔2008ء سے اپریل 2022تک عمران خان کی آبیاری کی گئی بیساکھیوں کے سہارے انہیں چلایاگیا ،2014میں مقتدرہ کی چھتری تلے انہوں نے ڈی چوک میں تماشالگایا۔ثاقب نثارسے سے صادق وامین کے جعلی سرٹیفکیٹ دلوائے گئے ،میڈیامیں،،ڈنڈے ،،کے زورپرمہاتما کابت تراشاگیا غرضیکہ ان تمام مواقعوں پران کی بھرپورسرپرستی کی گئی ۔

عمران خان یہ بھی جانتے ہیں کہ 2018 کے عام انتخابات میں وہ اسی اسٹیبلشمنٹ کے سہارے کامیاب ہوئے تھے بلکہ الیکشن سے پہلے سیاسی جماعتوں میں توڑپھوڑکی گئی اورالیکٹیبلزکودھکیل کرعمران خان کے ساتھ ملایاگیا۔پھربھی بس نہ چلاتوالیکشن والے دن ووٹوں کی گنتی کے دوران آرٹی ایس سسٹم پراسرار طور پر بٹھایاگیا اور محیر العقول طریقے سے تحریک انصاف کا اسلام آباد کا راستہ صاف کیاگیا۔ اس کے بعدعمرانی حکومت قائم کرنے کے لیے آزاد اراکین، مسلم لیگ ق، جی ڈی اے، ایم کیو ایم، بی اے پی وغیرہ کوہانک کریہ نظام قائم کیاگیا تھا ۔

وہ چارسال مقتدرہ کے سہارے حکومت کرتے رہے جس کااعتراف وہ کئی بارکرچکے ہیں ۔سینٹ الیکشن ہویاچیئرمین سینٹ کاانتخاب ،کوئی بل پاس کرواناہویاکوئی قرارداد، یہ سب زورذبردستی چلتارہا۔بقول پرویزالہی ادارے ان کی نیپیاں ہی بدلتے رہے ،غازی عمران کی طرف سے بولاگیا،،ون پیج ،،کاجملہ اب زبان زدعام ہوچکاہے ۔گزشتہ سال جب فوج نے عمران خان کے مذموم عزائم کوبھانپ کران سے علیحدگی اختیارکی اورچھ ماہ پہلے جب عمرانی حکومت کے خلاف عدم اعتمادکی تحریک پیش ہوئی تو اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل ہونے سے ان کادھڑن تختہ ہوگیا۔ان کاجعلی اقتدارآئینی طریقے سے ختم ہوگیا۔اوروہ اسٹیبلشمنٹ کے بغیرایک دن بھی اپنے سہارے نہیں چل سکے ۔جس کے بعدان کے اوسان خطاہوگئے۔ انہیں آگے اندھیراہی اندھیرانظرآرہاہے اس لیے ان کاخیال ہے کہ وہ اپنی پسندکاآرمی چیف لگوالیں توشایدانہیں پھراقتدارمل جائے انہیں پھر،،ابا،،کی سرپرستی حاصل ہوجائے ۔

اسی لیے انہوں نے چنددن قبل یہ تجویزدی کہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمرباجوہ کوچھ ماہ کی ایکسٹینشن دی جائے اوراس چھ ماہ میں نئے الیکشن کرواکر نئی حکومت نئے آرمی چیف کاتقررکاحق دیاجائے۔ ان کے خیال میں الیکشن میں وہ کامیاب ہوجائیں گے اورانہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ نئے آرمی چیف کاتقررکریں مگرتین سال قبل جب انہیں آرمی چیف کے تقررکاموقع ملاتووہ یہ اعزازحاصل نہیں کرسکے اورانہوں نے نئے آرمی چیف کی تقرری کی بجائے جنرل قمرجاویدباجوہ کوتین سال کی توسیع دے دی ۔اوریوں غازی عمران نیازی ہمیشہ کی طرح اس اہم موقع پرسرینڈرکرگئے ۔

یہ بات اب تواترکے ساتھ ثابت ہوچکی ہے کہ عمران نیازی اپنے اقتدارکی دس سے پندرہ سالہ منصوبہ بندی کرچکے تھے ان کاخیال تھا کہ اپنی پسندکے آدمی کوآرمی چیف لگاکرآئندہ الیکشن میں بھی کامیابی حاصل کریں گے اوراگرزیادہ شورمچاتووہ صدارتی نظام قائم کردیں گے،اس وقت اپوزیشن جماعتوں کوسربراہوں کوجھوٹے مقدمات میں پھنساکرجیلوں میں ڈالیں گے اورخودآمرمطلق بن کرحکمرانی کریں گے مگرجب ان کے منصوبوں اورامیدوں پرپانی پھرگیاتووہ فوج اوراس کے اعلی افسران کے خلاف میدان میں آگئے کبھی وہ اداروں کے نیوٹرل ہونے کو برا کہتے ہیں ، کبھی ریاستی اداروں کے خلاف اعلانِ جنگ کرتے ہیں ، تو کبھی ملکی سلامتی کے اداروں کے سربراہوں کے خلاف سوشل میڈیا ٹرینڈز چلواتے ہیں۔

ایک طرف تو عوامی سطح پر ملکی اداروں اور سیاستدانوں پر تنقیدکرتے تودوسری طرف اندرون خانہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بیک چینل مذاکرات بھی کرتے ہیں ،ان کے پائوں بھی پڑتے ہیں ان کی منتیں ترلے بھی کرتے ہیں جب ان کی بات نہیں مانی جاتی تووہ اسٹیبلشمنٹ اور ملکی سلامتی کے حساس ترین اداروں کے خلاف جھوٹ پرمبنی مہم شروع کردیتے ہیں اورریاستی اداروں کے خلاف عوام کوبھڑکاتے ہیں ۔ان کی اس تمام ترجدوجہدکاایک ہی مقصدہے کہ فوج ان کی دوبارہ سے سرپرستی شروع کردے ۔ماضی میں ایساکبھی نہیں ہواکہ کسی سیاسی جماعت نے آرمی چیف کی تقرری کواس طرح اوراس اندازمیں متنازع بنانے کی کوشش کی ہو۔اس تقرری کے موقع پرایساتماشالگایاہو۔

سوال یہ پیداہوتاہے کہ جنرل راحیل شریف اورجنرل قمرباجوہ کوبھی میاں نوازشریف نے آرمی چیف مقررکیاتھا اگریہ دونوں جنرل اچھے تھے اورانہوں نے بھرپورطریقے سے عمران خان کوسپورٹ بھی کیاہے تویہ کیسے ممکن ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف جس کوآرمی چیف نامزدکریں گے وہ بہترین افسرنہیں ہوں گے ؟اورانصاف سے کام نہیں لیں گے۔فوج کاہرجوان ملک وادارے کے ساتھ مخلص ہے اوراس کی کمنٹمنٹ واضح ہے ۔قوم سمجھتی ہے کہ جس جرنل کوبھی آرمی چیف تعینات کیاجائے وہ اپنے حلف سے روگردانی نہیں کرے گا فوج کسی ایک افسریاجرنل کانام نہیں بلکہ ادارے کانام ہے۔ جب فوج فیصلہ کرچکی ہے کہ وہ سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی توعمران خان یہ کیوں مطالبہ کررہے ہیں کہ فوج سیاست میں مداخلت کرے ۔اوران کی ہمنوابن جائے ۔اوران کے ناجائزکاموں کی سرپرستی کرے ۔اورائندہ الیکشن میں ان کی کامیابی کے لئے وہی کرداراداکرے جو2018ء میں کر چکی ہے ۔

آج عمران خان میرٹ کے خوش نمانعرے کی آڑمیں آرمی چیف کی تقرری کی بات کرکے عوام کودھوکہ دے رہے ہیں ان کے دورحکومت میں جس طرح میرٹ کی د ھجیاں اڑائیں گئیں یاان کی صوبائی حکومتیں اڑارہی ہیں اس کی تومثال ہی نہیں ملتی وہ کس منہ سے میرٹ کی بات کررہے ہیں ۔آرمی چیف کی تقرری کاآئین میں جوطریقہ کارہے اس کے مطابق نئے چیف کاتقررہوناچاھئے۔ اس میں خان صاحب کومسئلہ کیاہے ؟وہ کیوں اس تقرری کے لیے اپنازورلگارہے ہیں اس کے پیچھے رازکیاہے ؟سوال تویہ بھی ہے کہ جوشخص اپنے اوپرحملے کی ایف آئی آربھی درج نہ کرواسکے اسے کیسے اختیاردیاجائے کہ وہ ملک کے سب سے مضبوط ادارے کے سربراہ کی تقرری کے لیے مشاورت میں شامل ہو؟اورکیوں کرشامل ہو۔،؟اورایسے شخص سے اہم تعیناتی پرمل بیٹھ کرفیصلہ کیاجائے جو اسی ادارے کے ایک اعلی افسرپرجھوٹی ایف آئی آر درج کروانے کاجتن کررہاہوں اوراس پرسنگین الزامات عائد کررہاہوں ۔اخرایسی کون سی مجبوری ہے ؟

اس وقت عمران خان نے اپنا تمام ترسیاسی بیانیہ آرمی چیف کی تعیناتی سے منسلک کردیاہے ۔سائفرکہانی ،امریکی غلامی،حقیقی ازادی اورنئے الیکشن کے نعرے پس منظرمیں چلے گئے ہیں ۔عمران خان کانومبرمیں لانگ مارچ اس بات کی غمازی کرتاہے کہ وہ صرف آرمی چیف کی تقرری پرسیاست کررہے ہیں،وہ اپنی پسندکے آرمی چیف کی تعیناتی سے زیادہ نئے چیف کی تقرری کومتنازع بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔اس سے ان کامقصدفوج کوکمزورکرنااوران میں تقسیم پیداکرناہے یہ دراصل ان کے عالمی سہولت کاروں کاایجنڈہ ہے ۔اس کے لئے وہ ایک عرصے سے منصوبے بنارہے ہیں اوراب خان صاحب ان کے ان مذموم منصوبوں کے لئے استعمال ہورہے ہیں ۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

20 − 19 =