جولائی 15, 2025

تحزیر: بشارت حسین زاہدی 

آج، 14 جولائی کو، ہم اس عظیم روحانی اور سیاسی رہنما، علامہ شہید حسن ترابی کا یوم شہادت منا رہے ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی ملت جعفریہ اور امت مسلمہ کی خدمت کے لیے وقف کر دی۔ 14 جولائی 2006 کو کراچی میں ایک بزدلانہ دہشت گرد حملے میں ان کی شہادت نے ایک ایسے خلا کو پیدا کیا جسے پر کرنا آج بھی مشکل ہے۔

علامہ حسن ترابی صرف ایک عالم دین ہی نہیں تھے بلکہ وہ ایک فعال، پرعزم اور بے خوف شخصیت تھے جنہوں نے اپنے اصولوں اور نظریات کے لیے آخری سانس تک جدوجہد کی

شخصیت کا روشن پہلو

علامہ شہید حسن ترابی کا تعلق گلگت بلتستان سے تھا لیکن انہوں نے کراچی کو اپنا وطن بنا لیا اور یہیں سے اپنی دینی، تعلیمی اور سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ وہ ایک جامع شخصیت کے مالک تھے؛ نہ صرف دینی علوم میں مہارت رکھتے تھے بلکہ دنیاوی معاملات کی بھی گہری سوجھ بوجھ رکھتے تھے۔ ان کی تقاریر میں علمی گہرائی، فصاحت و بلاغت اور انقلابی جذبہ نمایاں تھا۔ وہ اہل بیتؑ کی محبت میں ڈوبے ہوئے ایک پرجوش ذاکر تھے، جن کی مجالس میں ہزاروں افراد شریک ہوتے اور ان کے علم سے فیض یاب ہوتے تھے۔

تحریک جعفریہ کے لیے گراں قدر خدمات

علامہ شہید حسن ترابی کا تحریک جعفریہ پاکستان کے ساتھ تا دم شہادت گہرا تعلق رہا۔ وہ صوبہ سندھ کے صدر کی حیثیت سے ایک کلیدی کردار ادا کرتے رہے۔ ان کا دور قیادت کراچی میں شیعہ نسل کشی کے بدترین حالات کا دور تھا، جب تکفیری دہشت گرد گروہ بے لگام تھے اور حکومتی سطح پر بھی انہیں ریاستی پشت پناہی حاصل تھی۔ ایسے میں علامہ ترابی نے کمال شجاعت اور استقامت کا مظاہرہ کیا۔ وہ صرف لسانی طور پر ہی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی دہشت گردی کے خلاف برسرپیکار رہے۔ انہوں نے محفل مرتضیٰ جیسے دلخراش سانحہ کے بعد بھی، جب نہتے نمازیوں کو فجر کی نماز کے دوران شہید کر دیا گیا، ملت کو متحد رکھا اور انہیں صبر و استقامت کا درس دیا۔

علامہ سید ساجد علی نقوی کی قیادت سے وابستگی اور اندرونی اختلافات میں کردار:

علامہ شہید حسن ترابی کا تحریک جعفریہ پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی کے ساتھ تا دم شہادت گہرا تعلق اور اعتماد کا رشتہ رہا۔ یہ وہ دور تھا جب تحریک کو اندرونی اختلافات اور چیلنجز کا سامنا تھا، اور ایسے میں علامہ حسن ترابی نے علامہ ساجد علی نقوی کی قیادت کا بھرپور دفاع کیا۔ انہوں نے نہ صرف اپنی فعال شخصیت کے ذریعے تحریک کو مضبوط کیا بلکہ اندرونی خلفشار کو کم کرنے اور صفوں میں اتحاد برقرار رکھنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کی یہ مدافعانہ قیادت اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ تحریک کے استحکام اور قیادت کی مضبوطی کے لیے کس قدر پرعزم تھے۔ وہ قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ ساجد علی نقوی کے دست و بازوبن کر تحریک کو درپیش ہر چیلنج کا مقابلہ کرتے رہے۔

علامہ ترابی اتحاد بین المسلمین کے عظیم داعی تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ فرقہ واریت دشمنانِ اسلام کا ایجنڈا ہے اور اس کا مقابلہ اتحاد و یگانگت سے ہی ممکن ہے۔ انہوں نے متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے بھی قومی سیاست میں اہم کردار ادا کیا اور مختلف مسالک کے افراد کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی۔

شہادت اور اس کے اثرات

14 جولائی 2006 کو ایک امریکی و اسرائیلی مخالف ریلی سے واپسی پر، علامہ ترابی اور ان کے بھتیجے علی عمران کو ایک خودکش حملے میں نشانہ بنایا گیا اور وہ شہید ہو گئے۔ ان کی شہادت نے ملت جعفریہ کو ایک عظیم نقصان پہنچایا، جو شہید عارف حسین الحسینی کے بعد دوسری بڑی شہادت سمجھی جاتی ہے۔ علامہ ترابی کی شہادت نے اس حقیقت کو واضح کیا کہ دشمن قوتیں ہر اس شخصیت کو راستے سے ہٹانا چاہتی ہیں جو ملت کو متحد کرنے اور انہیں بیدار کرنے کی کوشش کرے۔

علامہ شہید حسن ترابی کی یاد ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ ہمیں کسی بھی صورتحال میں اپنے اصولوں اور نظریات سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے۔ ان کی زندگی جدوجہد، استقامت اور ملت کی خدمت کا ایک روشن باب ہے۔ ان کی شہادت کے بعد بھی ان کے افکار اور نظریات آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان کے مشن کو آگے بڑھائیں اور پاکستان میں امن، اتحاد اور بھائی چارے کے فروغ کے لیے ان کی کوششوں کو جاری رکھیں۔

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا واٹس ایپ چینل فالو کیجئے۔

https://whatsapp.com/channel/0029VaAOn2QFXUuXepco722Q

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

nineteen − seventeen =