16 جولائی علامہ ابن حسن جارچوی کی برسی کی مناسبت سے سید نثار علی ترمذی کی خصوصی تحریر
برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں بہت کم ایسی سیاسی شخصیتیں ملیں گی، جن کے کردار نے ایک عہد کو متاثر کیا ہو۔ علامہ ابن حسن جارچوی برصغیر کے چند شخصیتوں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے اپنے خلوص ایثار اور اعلٰی کردار کی بنا پر تاریخ میں نہ صرف ایک اہم مقام حاصل کیا ہے بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ بعض سیاسی رہنماوں کا خیال ہے کہ مولانا حسرت موہانی کے بعد اگر کسی نے درویشی اور فقیری کی زندگی اختیار کی ہے تو وہ علامہ ابن حسن جارچوی تھے، جو تحریک پاکستان کے صف اول کے قائد ہوتے ہوئے بھی عجز و انکسار کے پیکر تھے۔علامہ ابن حسن جارچوی بن سید مہدی حسن رضوی جارچہ ضلع بلند شہر میں 4 محرم 1322ھ بمطابق 21 مارچ 1905ء کو پیدا ہوئے۔ پانچ سال کے ہوئے تو والد کی رحلت ہوگئی۔ نانا نے تعلیم و تربیت کا بوجھ اٹھایا۔ مولانا مدت تک اپنے بہنوئی مولوی شبیر حسین صاحب کے پاس میر پور بھٹورو ضلع ٹھٹہ سندھ میں رہے۔ انہوں نے رام پور اور اورینٹیل کالج سے مولوی فاضل و منشی فاضل، میرٹھ سے انٹرس، لاہور سے ایف اے، بی اے، ایم اے اور ایم او ایل کیا۔ 1932ء میں علی گڑھ یونیورسٹی سے بی ٹی کی سند حاصل کی۔
1920ء سے 1930ء تک وہ سندھ، پنجاب اور دہلی میں اپنی تقریر و تحریر کی وجہ سے مشہور ہوچکے تھے۔ علامہ مرتضیٰ حسین صدر الافاضل لکھتے ہیں کہ “میں نے ان کی تصویر دیکھی ہے، جس میں عمامہ و عبا میں ملبوس ہیں۔ ان دنوں سندھ میں پیش نماز و خطیب تھے۔” سکھر 1923ء میں آل انڈیا شیعہ کانفرس کا اجلاس منقعد ہوا تو علامہ سید ابن حسن جارچوی نے اس میں شرکت فرمائی اور اپنی بصیرت افروز تقریر سے لوگوں کے دل موہ لیے۔ اس اجلاس کی صدارت شمس العلماء مرزا قلیچ بیگ نے فرمائی اور سابق چیف جسٹس جناب آغا حسن علی نے مہمان خصوصی کی حثیت سے اجلاس میں شرکت فرمائی۔ ہر دو حضرات نے علامہ سید ابن حسن جارچوی کی دینی و ملی فراست کی داد دی۔ اس کانفرس میں نواب آف خیر پور بھی تھے، جو ہمیشہ علامہ سید ابن حسن جارچوی کے مداح رہے۔(Sadat network) 1931ء سے 1938ء تک وہ استاد جامعہ ملیہ میں رہے۔
1937ء کے عشرہ محرم میں تبصرہ کرتے ہوئے سرفراز لکھنؤ کے نامہ نگار خصوصی نے بمبئی سے حسب ذیل خیالات کا اظہار کیا۔ “ہماری قوم کی دوسری مایہ ناز ہستی درد دینی و قومی بہبود کے خیال سے ممبئی کو اپنی تشریف آوری سے مشرف و متفخر کرتی رہتی ہے، علامہ ابن حسن جارچوی کی ذات ہے۔ علوم مشرقی اور مغربی دونوں آپ کے دوش کی زینت ہیں اور جسم پر ٹھیک اترتی ہے۔ علوم جدید اور ضروریات زمانہ کے احساس نے آپ کی تقریر کو ہر طرح تبلیغی موزوں اور اپ کی ذات کو تبلیغ کا اہل بنا دیا ہے۔ 1938ء میں راجہ صاحب محمد امیر احمد خان آف محمود آباد نے بلا لیا، جہاں راجا صاحب آف محمود آباد کو دینی تعلیم دینے کا فریضہ سونپا گیا۔ مولانا لکھنؤ میں علمی اور جدید فلسفی کے حلقہ کے سربراہ رہے۔ 1949ء سے 1951ء شیعہ کالج لکھنؤ کے پرنسپل رہے۔ اس دوران وہ شیعہ وقف بورڈ، لکھنؤ یونیورسٹی، دارالتالیف محمود آباد، شیعہ کانفرنس اور تمام قومی اداروں کے رکن رہے۔
علامہ مرتضیٰ حسین صدر الافاضل اپنی ملاقاتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ “1944ء سے1947ء تک مہینے میں ایک دو مرتبہ میری ان سے ملاقات عموماً ہوتی رہی۔ میں امیر الدولہ پبلک لائبریری جاتا تھا۔ لائبریری کے متصل وہ راجہ صاحب محمود آباد کی ایک کوٹھی میں رہتے تھے، میں آتے جاتے ان کی خدمت میں حاضر ہوتا اور ان کے سیاسی، فلسفی، تاریخی اور جدید مسائل پر تازہ مطالعے سے مستفید ہوتا تھا۔ وہ ان دنوں کیمونزم اور جدید فلسفہ حکومت پر بہت عمیق مطالعہ کرنے کے بعد محمد و آل محمد کی تعلیم اور اور اسلامی اصولوں پر بڑی عالمانہ باتیں کرتے تھے۔ انگریزی کتابوں کا ڈھیر رکھا رہتا تھا اور ہیگل، لینن جیسے مشاہیر ضخیم تالیفات کے نسخے سامنے رکھ کر حوالے دیتے تھے۔ بالشویک تحریک پر سخت تنقید کرتے اور اس سے پیدا ہونے والی جدید نکتوں پر شیعہ نقطہ نظر سمجھا تے تھے۔ میں نے ان سے بے حد استفادہ کیا۔
وہ نوابوں اور رئیسوں سے کھنچ کر ملتے اور ان پر کڑی تنقید کرتے تھے۔ وہ راجہ میر احمد خان صاحب کی فقیرانہ زندگی کا اکثر ذکر کرتے تھے۔ وہ نواب صاحب رام پور کے نواب رضا علی خان مرحوم سے اپنا اختلاف کھل کر ظاہر کرتے تھے۔ میں نے ان کی صحبت میں بیٹھ کر یہ تاثر لیا کہ ہمارے طلباء کو جدید علوم سے باخبر ہونا چاہیئے۔ میں نے مدت تک سوچ بچار کے بعد میں 1945ء میں “کل ہند شیعہ عربی جمعیت طلباء” کی تاسیس کی اور ملک کے تمام شیعہ مدارس سے رابطہ کرکے 1946ء ایک بہت بڑا اجلاس کیا۔ جس کے ایک جلسے کی صدارت جناب مولانا کلب حسین صاحب قبلہ نے، ایک جلسے کی صدارت جناب جارچوی صاحب نے فرمائی۔ اس اجلاس میں شیعہ مدارس کے لیے جدید نصاب طے کیا گیا، لیکن میں نے دیکھا کہ اس تحریک کو بعض سیاسی جماعتیں اپنا آلہ کار بنانا چاہتی ہے، اس لئے وہ سلسلہ ختم کر دیا، لیکن خود دینی تعلیم کے فورا بعد سیاست و ادب و تاریخ کے مطالعے میں منہمک ہوگیا۔ اگرچہ سیاست سے عملی تعلق کبھی پیدا نہ کیا۔”
مولانا ابن حسن جارچوی 1935ء سے مسلم لیگ میں کام کر رہے تھے اور تحریک پاکستان کے وقت ان کا عالم ہی کچھ اور تھا۔ ان کی سیاسی معلومات اور مذہبی جذبے سے متاثر ہو کر قائداعظم نے سر کرپس مشن کے سامنے دو قومی نظریئے کا دینی پس منظر سمجھانے کے لیے دو علماء کو منتخب کیا تھا، ایک علامہ شبیر احمد عثمانی دوسرے ابن حسن جارچوی۔ ان حضرات نے کرپس مشن مسلمانوں کے موقف کی مکمل صورت حال سمجھائی۔ علامہ ابن حسن جارچوی انڈیا مسلم مجوزہ ایجوکیشن کمیٹی کے رکن تھے، جو اسلامی نظام تعلیم کے لیے نصاب کی تیاری کے لیے قائم کی گئی تھی۔( جناح پیپرز، جلد دہم، دستاویز نمبر۔63) پاکستان کی تحریک کو مقبول بنانے اور مسلم لیگ کے اجتماعات میں شرکت کرنے کے لیے انہوں نے دورے کیے۔ وہ اپنی جسامت کی وجہ سے زیادہ چلنے پھرنے کے قابل نہ تھے، لیکن پاکستان کی خاطر انہوں جان پر کھیل کر یہ کام کیا۔ جب پاکستان بنا تو سیاسی طالع آزماؤں کی وجہ سے وہ اپنی ٹیم سے مایوس ہوکر لکھنؤ میں ہی رہ گئے۔ وہ کہتے تھے کہ میرا مقصد پورا ہوگیا۔ اب عہدے بٹیں گے اور امیدوار دوڑیں گے، مجھے اس بندر بانٹ سے کیا مطلب۔
وہ نئی نسل کی تعمیر افکار و کردار کے لیے شیعہ کالج لکھنؤ سے وابستہ ہوگئے۔ لیکن ہندوستان میں ہندؤں کی سیاست سے بدظن اور بدل ہو کر ہجرت پر مجبور ہوئے اور 1951ء میں کراچی آگئے۔ ارباب سیاست نے ان کا استقبال کیا۔ وہ مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے رکن تھے، اس لیے حکومتوں نے انہیں عہدے دیئے، مگر وہ اپنا راستہ خدمت علم تجویز کرچکے تھے۔ اس لیے کراچی کے ادارہ اسلامیات سے وابستہ ہوگئے، لیکن سیاسی دلچسپیاں جاری رہیں۔ لیاقت علی خان سے انہیں اختلاف تھا، لیکن ان کی رحلت پر جب بحث ہوئی کہ انہیں کہاں دفن کیا جائے، مگر اختلاف کے باوجود وہ مسلم لیگ کے طاقت ور گروپ سے ٹکرائے اور لیاقت علی خان کو قائد اعظم کے احاطے میں دفن کرنے پر آمادہ کرلیا۔ محترمہ فاطمہ جناح 9 جولائی1967ء کو اتوار کے دن خالق حقیقی سے جا ملیں۔ آپ کی دو نماز جنازہ ہوئیں، پہلی نماز جنازہ مولانا ابن حسن جارچوی نے قصر فاطمہ میں تقریباً ساڑھے آٹھ بجے پڑھائی۔ دوسری نماز جنازہ مفتی محمد شفیع اوکاڑوی نے پڑھائی۔(نواے وقت 16 جولائی 2017ء)
علماء سوائے مفتی محمود کے فاطمہ جناح کے حامی تھے، لیکن روشن خیالوں نے ایک نیا شوشہ یہ اٹھایا کہ فاطمہ جناح شیعہ ہیں اور یہ علماء صرف اقتدار کی خاطر ایک “بدمذہب” کی حمایت کر رہے ہیں۔ لیاقت آباد میں مشہور شیعہ عالم علامہ ابن حسن جارچوی کے گھر پر علماء کا اجلاس تھا، جس میں مولانا عبدالحامد بدایونی، مولانا ظفر انصاری، مولانا مودودی اور ہر مکتبہ فکر کے علما موجود تھے۔ سرکاری اخبار کے ایک صحافی نے طنزیہ سوال کیا کہ فاطمہ جناح تو صدر منتخب ہونے کے بعد فقہ جعفریہ نافذ کر دینگی، کیا سنیوں کیلئے یہ قابل قبول ہے؟ مولانا مودودی نے ترنت جواب دیا کہ یہ فقہ کافریہ سے بہرحال بہت بہتر ہے۔(9 جولائی 2019ء مسعود عبدالہ, بلاگر) 1964ء میں جب ایوب خان کے مقابلے میں الیکشن میں کسی کے آنے کی ہمت نہ تھی، اس وقت ابن حسن صاحب صرف سیاسی اختلاف ظاہر کرنے کے لئے کھڑے ہوگئے۔
ایوب آمریت کے خلاف علامہ ابن حسن جارچوی کا کردار پاکستانی عوام سے کبھی اوجھل نہیں ہوسکتا ہے۔ انہوں نے جس بے باکی اور دلیری سے ایوب آمریت کے خلاف اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، وہ جمہوریت کے احیاء میں اہم ترین ستون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حالانکہ ایوب خان نے علامہ صاحب کو خاموش رکھنے کے لئے بڑی بھاری پیشکش کیں، لیکن ان کی نظر میں عوام اور ملت کے مفاد سب سے زیادہ عزیز تھا۔ اگر علامہ صاحب جیسا کوئی اور ہوتا تو ایوب خان کی پیشکش کو فوراً قبول کر لیتا۔ انہوں نے اپنے بچوں کی پریشانی کو گوارا کر لیا، لیکن حکومت وقت کے سامنے کبھی دست حاجت دراز نہ کیا۔ کسی نے بچوں کی طرف متوجہ کیا تو مسکرا کر فرمایا “اس وقت ملک کے کتنے بچے ملازمت کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں، اگر میرے بچے ایسا کر رہے ہیں تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی۔” وہ پاکستان کے فدائی اور ملت شیعہ کے مبلغ و مفکر تھے۔ وہ علماء کا بے حد احترام کرتے تھے اور مذہب کے ہر آڑے میں کام آتے تھے۔
انہوں نے شیعہ منبر اور مجلس کو نئی فکر دی۔ انہوں نے شیعہ لٹریچر کو ادبی اسلوب دیا۔ بمبئی، دہلی، لاہور، لکھنؤ اور بڑے بڑے شہروں میں مجلسیں پڑھتے رہے۔ انہوں نے ہزاروں میلاد پڑھے اور متعدد مناظرے کئے۔ وہ شیعہ و سنی دونوں کے خطیب تھے۔ اسلامی معاملات میں اعلیٰ درجے کے نمائندہ تصور کیے جاتے تھے۔ 1939ء میں انہوں نے لاہور میں آریوں سے حیرت انگیز طریقے پر ایک مناظرہ جیت کر تمام مسلمانوں میں مقبولیت حاصل کی۔ آریوں آریوں کا چیلنج تھا کہ قرآن مجید وید کا ترجمہ ہے۔ مناظرہ شروع ہوا۔ حریف کی تقریر کے بعد جارچوی صاحب نے کھڑے ہوکر مدعی کی تائید میں زوردار تقریر کی اور کہا کہ آج بڑا کام ہوگیا۔ 13 سو سال بعد گتھی حل ہوگئی۔ مسلمانو، تم سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ ایک انوکھی اچھوتی کتاب بنا لیتے۔ پھر مدعی سے فرمایا، آپ کا دعویٰ مان لیا جائے گا، اگر اسے لکھ دیجئے۔ مدعی نے لکھ دیا۔ مسلمانوں میں کھلبلی مچ گئی۔
آپ نے فرمایا، آپ نے یہ مان لیا کہ قرآن مجید سنسکرت اور عربی کتابوں کا ترجمہ ہے۔ میں ابھی وصیت لکھے دیتا ہوں، میری اولاد میں سے کوئی اسلام قبول نہ کرے، مگر یہ بتا دیجیے کہ اس قرآن میں کتنے دیوتاؤں اور دیویوں کا ذکر ہے اور اللہ کے سوا، توحید کے سوا کہاں کہاں کسی اور قوت کا اثبات ہے۔ قرآن مجید نفی ماسوا اور توحید کا سبق دیتا ہے۔ پھر کیسے مان لیا جائے کہ آپ سچے؟ اگر یہ کتاب آپ ہی کی کتابوں کا ترجمہ ہے تو کیا یہ اچھا نہیں کہ آپ اسی کو مانیں اور سب کچھ غلط جانیں۔ یہ بات ایسے انداز سے کہی کہ مناظرہ الٹ گیا اور سب نے اقرار کیا کہ آج تک اتنا علمی اور منطقی مناظرہ نہیں ہوا تھا۔ مسلمانوں نے فتح کے نقارے بجا دیئے۔ مولانا ابن حسن جارچوی کا یہی انداز سیاست میں رہا، وہ جس طرح اعلیٰ درجے کے صاحب کردار مسلمان تھے، اسی طرح منطقی، عقلی اور پکے مسلم لیگی تھے اور آخر تک وہ اسی سیاسی مصلحت پر قائم رہے اور دور آمریت میں اکیلے شخص تھے، جو اپنا اختلاف ظاہر کرنے کے لیے مسلم لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے اور ناکام ہو کر اپنے نام کو مخالفت میں لکھوا لیا۔ وہ وہ غریبوں کے حامی اور ان کے دکھ سکھ میں شریک اور اسلامی برادری اسلامی حکومت کے قیام پر یقین رکھتے تھے۔
مولانا بہت سخت اصول کے پابند، حرص و ہوس سے دور، قانع اور باعمل آدمی تھے۔ کراچی یونیورسٹی میں شیعہ تھیالوجی کے پہلے استاد مقرر ہوئے اور یہاں شعبہ ان کی سعی سے وجود میں آیا۔ وہ طلباء کو اپنی فکر دینے کے متمنی تھے، اسی بنا پر انہوں نے “انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اینڈ کلچر ریسرچ” کے نام سے ایک ادارہ بنا لیا۔ زمین خریدی اور کام شروع کیا، لیکن ضعف و علالت نے انہیں بے کار کر دیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اسلام و آل محمد کو نئی تاریخی و فلسفی روشنی میں متعارف کرائیں، لیکن عمر نے وفا نہ کی اور 16 جولائی 1973ء بمطابق 14 جمادی الثانی 1393ھ کو جاں بحق ہوئے اور “انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اینڈ کلچرل ریسرچ” کراچی کے میدان میں دفن ہوئے۔
اولاد: دو بیٹے، سید محمد مشہود، سید علی حسن، دو بیٹیاں۔
تصانیف: 1۔ مقدمہ فلسفہ آل محمد۔ 2۔ زوال رومہ کبریٰ کے حصہ اسلام کا ترجمہ، 1936ء میں۔ 3۔ فلسفہ آل محمد چھ حصے 4۔ بصیرت افروز مجالس، چودہ تقریریں جو علامہ مرتضیٰ حسین صدر الافاضل کے مقدمے کے ساتھ۔ 5۔ شہید نینوا۔ 6۔ جدید ذاکری۔ 7۔ علی کا طرز جہانبانی (انگریزی و اردو) مشہور ویب سائٹ “ریختہ” دو مزید کتب آپ لوڈ کی ہیں۔ 8۔ دیو مالا، جو 30 ستمبر 1938ء کی یے۔ 9۔ ہندوستانی کی دوسری کتاب، ابن حسن جارچوی اور محمد نذیر الدین کی مشترکہ کاوش ہے۔ آپ نے “رہبر” کے نام سے دہلی سے اردو میں اخبار نکالا۔ ایسے عظیم رہنماؤں کی خدمات متقاضی ہیں کہ ان پر ایک مفصل کتاب لکھی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
1-مطلع انوار
2- جارچہ
بشکریہ اسلام ٹائمز