تحریر: علی سردار سراج
نقطہ عطف ایک فارسی اصطلاح ہے، جس کو اردو میں ” نقطہ عروج ” اور انگلش میں ” Turning point” سے تعبیر کرتے ہیں ۔
جس سے مراد، ایک ایسا وقت جس میں، کسی صورت حال میں، فیصلہ کن تبدیلی واقع ہوتی ہے۔
انسانی تاریخ اپنے سفر میں بعض اوقات ایسے حادثات، اور واقعات سے روبرو ہوتی ہے، جو اس کی سمت کو تبدیل کرتے ہیں ۔
وہ قوتیں جو اس تبدیلی کو روکنا چاہتی ہیں ،وہ اس سعی لا حاصل میں فقط ظلم و جبر کی ایک نئی تاریخ ہی رقم کر سکتی ہیں ۔
لیکن تاریخ کو اس نئے موڑ میں داخل ہونے سے نہیں روک سکتیں ۔
اسلامی تاریخ میں، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت، ہجرت، وہ اہم نقطہ عطف تھا جس نے نہ صرف عرب معاشرے کو بلکہ انسانی تاریخ کو ایک نئی دنیا میں داخل کیا۔
اسی طرح یورپ کی تاریخ میں، نشأة ثانیہ، (Renaissance) وہ نقطہ عطف تھا جس نے یورپ کو قرون وسطی کی ظلمتوں سے جدید دنیا میں داخل کیا ۔
اور کلیسا کا جبر اس سفر کو روکنے سے عاجز رہا ۔
تاریخ معاصر میں ایران کے اسلامی انقلاب نے دنیا کی دو سپر طاقتوں کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ۔
ایک اپنے منطقی انجام تک پہنچ گئی ہے، اور دوسری بھی عنقریب اپنے انجام کو پہنچ جائے گی جس کے آثار نظر آ رہے ہیں ۔ اس انقلاب نے مستضعفین عالم کو احساس ہویت و شخصیت عطا کیا۔ لہذا وہ مستکبرین جہان کے سامنے اپنے حقوق کے لئے اٹھ کھڑے ہوگئے۔
بالخصوص اسلامی دنیا میں عوامی، انقلابی تحریکیں اٹھنے لگیں ۔
ایران اور انقلابی تحریکوں نے جس ظلم و جبر کو تحمل کیا اور جس بربریت کا سامنے کر رہے ہیں، اس کا ذکر بھی یقینا آیندہ نسلوں کے لئے باعث شرم ہوگا۔
اس کے باوجود دنیا گزشتہ کی طرف پلٹ نہیں سکتی ہے ۔
انہی اہم تحریکوں میں سے، وہ عوامی مزاحمتی تحریکیں ہیں جو اسرائیلی جبر کے مقابلے میں وجود میں آئی ہیں ۔
مجاہدین اسلام نے بے سر و سامانی کے عالم میں، مشرق وسطی میں قدرت مطلق سمجھے جانے والے اسرائیل کو لوہے کے چنے چبوائے ہیں ۔
اور شاید اس مزاحمت اور فدا کاری کی تاریخ میں سب سے اہم واقعہ، طوفان الاقصی ہو ۔
جس کو ان دنوں میں حم اس کے مجاہدین نے وجود میں لایا۔ لمحہ بھر کے لئے اقوام عالم کا سانس سینوں میں حبس ہوکر رہ گیا ۔
چھ دن کے اندر تسلیم ہونے والی امیر عرب بادشاہتیں بے یقینی کے عالم میں پھٹی نظروں سے دیکھ رہی تھیں ۔
اگر فلسطینی مجاہدین کی حمایت اور تعریف میں رہبر معظم انقلاب کا بروقت شجاعانہ اور ہوشمندانہ بیان سامنے نہ آتا تو، مسلمان حکمران حم اس کی مذمت میں بیان دینے کے لئے صف بستہ کھڑے نظر آتے ۔
طوفان الاقصی کو ہم بلا شک نقطہ عطف سے تعبیر کر سکتے ہیں ۔
اس واقعے کے بعد اسرائیل کے لئے اپنی گزشتہ شان و شوکت کو بحال کرنا تو دور کی بات ہے، بلکہ اپنے زوال کے سفر کو سست کرنے سے بھی عاجز ہوگا۔
اسرائیل جو کچھ کر سکتا تھا وہ وہی ظلم و جبر تھا جو ان دنوں انجام دیا اور دے رہا ہے۔
دسیوں ہزار بے گناہ لوگوں کو خاک و خون میں غلطاں کیا ہے۔ ایک آباد شہر کو ویرانے میں تبدیل کیا ہے ۔
مزید اس ظلم میں اضافہ تو کر سکتا ہے لیکن اب نہ بیدار ضمیروں کو سلا سکتا ہے اور نہ شہادت کے شیدائیوں کو ڈرا سکتا ہے ۔
ظلم کی اس داستان میں مغربی ممالک کی بے جا حمایت اور اسلامی دنیا کے مردہ ضمیر حکمرانوں کا سکوت صرف ظلم میں ہی اضافہ کا سبب بن سکتے ہیں ۔
اسرائیل اپنے سفر کے عروج سے زوال کی طرف گامزن ہے۔
اب دوسرے عوامل اس زوال کے سفر میں تندی اور کندی کے موجب تو ہو سکتے ہیں، لیکن اس غدہ سرطانی کا زوال مشہود عام و خاص ہے۔