تحریر: نوید مسعود ہاشمی
(پہلی قسط )
مجاہدین فلسطین نے نفرت کے لائق ”اسرائیل” میں گھس کر جہادی یلغار کے ذریعے یہودی فوجیوں کی درگت بنائی،اس کی خبر یں دیکھ دیکھ کر اس خاکسار کی روح تک سرشار تھی،اسی سرشاری میں یہ خاکسار خیالات کی دنیا میں پرواز کرتے ہوے اپنے ”پیرومرشد”کی پاکیزہ محفل میں جا پہنچا ،جو فرما رہے تھے ۔”اللہ اکبر ،اللہ اکبر ،اللہ اکبر،اللہ اکبر لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،الحمدللہ،ثم الحمدللہ، طوفان اقصی مغضوب علیہم پر ٹوٹ پڑا ہے۔خوف میں رہنے والے خود خوف بن کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور دہشت کے سائے میں مجبور زندگی گزارنے والے خود دہشت کی سرد لہر بن کر صہیونیوں کی ریڑھ کی ہڈی میں اتر گئے ہیں، دنیا والے حیران ہیں، جبکہ زمین و آسمان مسکرا رہے ہیں، فلسطینی مجاہدین نے ثابت کر دیا کہ وہ سچے مسلمان ہیں، وہ حقیقی مومن ہیں ،اور وہ حضرت آقا محمد مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب اُمتی ہیں، سلام ہے ان ماں پر جنہوں نے ایسے فدائیوں اور سرفروشوں کو اپنی گود میں پالا،مبارک ہو دنیا بھر کے مجاہدین کو ،کہ جمود کی چادر ٹوٹ گئی، مبارک ہو عالم اسلام کو کہ اس کی عظمت کا نیا دور شروع ہو گیا، اسرائیل کو غرور تھا اپنی خفیہ ایجنسیوں پر،وہ غرور خاک میں مل گیا،بہت ناز تھا اپنی باڑھ اور حصار پر جو منٹوں میں اکھاڑ دی گئی،بہت تکبر تھا اپنے فوجیوں پر جو آوارہ کتوں کی طرح پکڑے گئے، بہت شیخی تھی اپنے دفاعی نظام پر جو غفلت میں سوتا رہ گیا،دو دن پہلے تک اسرائیل اتنا معزز بنایا جا رہا تھا کہ بس ہر کوئی اسے تسلیم کرے،مگر چند لمحوں میں ملعون، ظالم اور قاتل یہودیوں پر اللہ تعالیٰ کا ایسا قہر برسا کہ اب وہ لہو لہان ہیں، یہ جنگ ابھی شروع ہوئی ہے،مگر ماضی کی صدیاں گواہ ہیں کہ بس کوئی لمحہ، جی ہاں ایک لمحہ زمین کے حالات کا رخ بدل دیتا ہے وہ لمحہ کل زمین پر اتر چکا ہے،جب فلسطینی ماں نے تہجد کے سجدوں سے اٹھ کراپنے لخت جگر شیر، اللہ تعالیٰ کے راستے میں پیشانیاں چوم کر رخصت کر دیئے اور پھر دنیا کی سب سے محفوظ سمجھی جانے والی ناجائز ریاست لرز کر رہ گئی، زمین، فضا اور پانی سے اس پر موت برسنے لگی،مسلمان حکمرانوں سے گزارش ہے کہ اب آگے بڑھیں، اپنا فرض ادا کریں،آپ اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت اونچا مقام پا لیں گے اور موت آپ پر وقت سے پہلے نہیں آئے گی، تمام مسلمانوں سے گزارش ہے کہ دل ،زبان ،قلم اور جان و مال سے اس عظیم اور مبارک جہاد میں جو کچھ کر سکتے ہوں کر گزریں،اہل دعا اپنے ہاتھ اور دامن پھیلا دیں، اہل اختیار اپنے اختیارات استعمال کریں، اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمارے لئے راستے کھول دیں،ہزاروں نہیں لاکھوں فدائی اپنی جان اللہ تعالیٰ کو بیچنے کے لئے چل پڑیں گے،دوڑ پڑیں گے ان شااللہ۔
میرے دوست اور پاکستان کے معتبر لکھاری مفتی محمد منصور احمد نے مسلمانوں کی اسرائیلیوں سے نفرت بلکہ شدید نفرت کی وجوہات بالکل درست لکھیں 8اکتوبر 2023ء ہفتے کے دن فلسطینی مجاہدین نے اسرائیل میں گھس کر یہودی فوجیوں کا جو حشر نشر کیا اور اس پر پورے عالم اسلام نے جس طرح سے خوشیاں منائی گئیں وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلمانوں میں گھسے ہوئے ”منافقین” کے گروہ کے سوا ہر سچا مسلمان بدترین اور غلیظ ترین اسرائیلی یہودیوں سے ان کی شیطانی اور غیر انسانی کرتوتوں کی وجہ سے نفرت کرتا ہے،حضرت اقبال مرحوم نے کہا تھا:
کیا سناتا ہے مجھے ترک و عرب کی داستاں
مجھ سے کچھ پنہاں نہیں اسلامیوں کا سوز و ساز
لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل
خشتِ بنیادِ کلیسا بن گئی خاکِ حجاز
نئی نسل جس نے اکیسویں صدی میں آنکھ کھولی ہے، وہ عام طور پر اس ظلم و ستم اور بے وفائیوں کی داستان سے بے خبر ہے جسے فلسطین کی سر زمین نے جھیلا اور برداشت کیا ہے۔جب سے امریکی صدر نے صفق القرن یعنی صدی کے سب سے بڑے سودے کا ڈول ڈالا ہے، مشرقِ وسطی میں اسرائیل کیلئے فضا ہموار کرنے کا سلسلہ شروع ہے۔مسجد ِ اقصیٰ کی آزادی اور اہل فلسطین کے لئے انسانی حقوق کے نعرے اب پرانے ہو چکے ہیں، اس لیے ہر مسلمان حکمران بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ اس سودے کا حصہ بننے کی تیاری کر رہا ہے۔ اسرائیل ایک ایسا ملک ہے، جس کی بنیاد ہی ظالمانہ اور غاصبانہ قبضے پر ہے۔ پھر اپنے قیام کے دن سے لے کر آج تک اس نے اہل فلسطین کے ساتھ جو رویہ اختیار کر رکھا ہے، وہ ایک خونی اور جنونی قاتل کا ہے۔ ہم اور دنیا کے کروڑوں مسلمان اسی لیے اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں کہ ایک طرف تو اس غاصب ریاست نے مسجد اقصیٰ کو جو مسلمانوں کا تیسرا حرم پاک اور رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر معراج کی پہلی منزل ہے، ہر طرح کا نقصان پہنچایا ہے۔ اس کی شدید بے حرمتی سے لے کر اس کے نیچے خندقیں کھودنے اور اسے مکمل طور پر ہیکل میں تبدیل کردینے کے مذموم عزائم کو اسرائیل نے کبھی نہیں چھپایا۔ دوسری طرف اسرائیل نے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کو بے دردی کے ساتھ شہید کیا، ان کی بستیوں پر قبضے کیے، ان کی املاک تباہ کیں اور ایک وحشی درندہ سے جو بھی توقع ہو سکتی ہے، اسرائیل نے اسے پورا کیا ہے۔جب ہم سر زمین فلسطین کے تاریخی منظر نامہ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ کے آخر میں بیت المقدس پر عیسائیوں نے قبضہ کر لیا تھا جو کم و بیش نوے سال رہا اور سلطان صلاح الدین ایوبی نے مسلسل معرکوں کے بعد اسے عیسائیوں کے قبضے سے آزاد کرایا۔ بیت المقدس، فلسطین کا دارالحکومت تھا جو درمیان کے مذکورہ نوے برس کے عرصہ کے علاوہ حضرت عمر کے دور سے مسلمانوں کے پاس ہی رہا ہے، یہاں تک کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے دسمبر میں اس پر قبضہ کر کے اس پر اپنا اقتدار قائم کر لیا۔
(جاری ہے)