تحریر: رستم عباس
پاکستان جان لیوا عوارض میں مبتلا ملک ہے۔اور پاکستان کا معاشرہ بھی جان لیوا امراض کا شکار ہے۔بحثیت قوم ہم دوسری اقوام عالم سےمادی طور پر بہت سے شعبوں میں بہت پیچھے ہیں۔اور پاکستانی معاشرہ اخلاقی طور پر بھی سنگین بحرانوں کا شکار ہے۔ملک کی معیشت تقریبآ دم توڑ چکی ہے لیکن عالمی مالیاتی اداروں کی رہن منت مصنوعی سانسوں پر چل رہی ہے۔حکومتِ کے زیر انتظام چلنے والے سب ادارے خسارے میں چل رہے ہیں۔پی آئی اے۔سٹیل مل ریلوے۔واپڈا
اس کے علاؤہ پاکستان کے انصاف فراہم کرنے والے ادارے عوام کے استحصال میں ملوث ہیں۔مثال کے طور پر پاکستان کی پولیس کا نظام 1860کے انڈیا ایکٹ کے تحت چل رہا ہے۔ہم نے آئین 1973میں اپنا بنا تو لیا لیکن اس کا پلاٹ انڈیا ایکٹ ہی ہے انگریز کے قوانین کا چربہ ہے۔اپ خود دیکھ لیں عدالتوں میں آئے ہوئے کیس بیس بیس سال چلتے کسی کو بدعا دینی ہو کسی کو ذلیل کرنا ہو تو اس کو دھمکی دی جاتی ہے کہ میں تجھے عدالتوں میں گسیٹوں گا۔
پاکستان کے تعلیمی نظام میں موجود سکم ہی ہماری معاشی بدحالی کی بنیاد ہے۔ہمارا سارا بجٹ قرضوں میں اور اشرافیہ یعنی سول ملڑی بیوروکریسی ججزز جرنیل کی بھاری تنخواہوں اور پینشنز میں لگ جاتا ہے اور رہی سہی کسر سرکاری ترقیاتی کاموں میں کرپشن اور کک بیکس میں ہڑپ ہو جاتا ہے لہذا تعلیم پر پاکستان میں خطے کا سب سے کم۔ بجٹ رکھا جاتا ہے۔اس ساری صورتحال کا اصل ذمے دار ہمارا نظام حکومت ہے۔یعنی جمہوری نظام حکومت۔پاکستان میں رائج جمہوری نظام حکومت ایک استبدادی اور جرائم پیشہ افراد کا سہولت کار ۔نظام ہے۔عوام کی اکثریت ناخواندہ اور غربت و جہالت کا شکار ہے۔لیکن اگر متوسط طبقے کا فرد اسمبلی میں اپنی قابلیت پر جانا چاہیے تو ناممکن ہے کیونکہ سیاسی جماعتیں اپنے الیکشن ٹکٹ کروڑوں روپے میں بیچتی ہیں۔اس کے علاؤہ عوام میں پزیرائی بھی اس کو ملتی ہے جس کا ڈیرہ اور بیسیوں نوکر چاکر ہیں۔اپ دیکھ لیں ہر علاقے میں خان چوہدری زرداری شریف
ٹوانہ وٹو جاگیردار اور سرمایہ دار ہی مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں میں براجمان ہوتے ہیں۔اور یہ ہی وہ لوگ ہیں جن کی شوگر ملیں ہیں۔جن کی فلور ملیں ہیں۔جو لینڈ مافیا ہیں۔یہ سب ملک کر الیکشن لڑتے ہیں اور پھر اپنے مفادات کا محافظ وزیر اعظم چنتے ہیں جو کوئی کام ایسا نہیں کرتا کوئی قانون ایسا نہیں بناتا جس سے ان سرمایہ داروں جاگیرداروں کے مفادات کو ٹھیس پہنچے۔
اداروں کو سیاسی بھرتیوں نے تباہ کیا لیکن اگر سیاسی جماعتیں یہ نہ کریں تو انکے خاص ورکر ناراض ہو جائیں گے۔
لہذا ایک ایسا نظام حکومت درکار ہے جو اس سارے فرسودہ نظام کو یکسر بدل کر رکھ دے۔
ایک ہمہ گیر انقلاب کی ضرورت ہے۔جو سب کچھ بدل کر رکھ دے ۔ہمہ گیر انقلاب سے مراد ایسی تبدیلی ہے جو معاشرے کی بنیادی اقدار کو بدل دے۔جو خاک نشین کو تخت نشین اور تخت نشین کو خاک نشین کردے۔جو معاشرے کے معیارات کو بالکل دوسری سمت میں بدل کر رکھ دے۔۔اس فرسودہ نظام کو تیس نہس کردے اور اس کی جگہ عادلانہ نظام انصاف عادلانہ نظام تعلیم اور عادلانہ نظام معاش قائم کریں۔ایسا نظام جو مجرمین کا سہولت کار نہ ہو بلکہ غریب اور پسے ہوئے عوام کی داد رسی کرے۔ایک ہمہ گیر انقلاب قرآن کریم سے ہٹ کر کہیں سے نہیں پھوٹ سکتا۔اگر ہم نے ملک بچانا ہے اگر اقوام عالم میں عزت کا مقام حاصل کرنا ہے تو ہمیں قرآن کریم کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔سیرت پیغمبر سے نظام زندگی لینا ہوگا۔
اور یہ نظام زندگی آج کے اس دور میں امام خمینی نے اپنی قوم کو بتایا ہے اور کر کے دکھایا ہے۔اور اس قوم نے اس نظام زندگی سے تمام عالم میں عزت اور سرفرازی پائی ہے۔جب تک پاکستان کے عوام اور علماء اس قرآنی انقلاب کا راستہ نہیں بنائیں گے۔ایک ہمہ گیر انقلاب کے لیے جدجہد نہیں کریں گے تو ہزار الیکشن ہوں اس ملک کی تقدیر نہیں بدلنے والی۔