نومبر 23, 2024

صحبت اللہ والوں کی ۔۔۔۔

تحریر: عمر فاروق

جس طرح تعلیم کیلئے مدرسہ ضروری ہے ،عمل کیلئے مسجد ضروری ہے اور اسی طرح باطنی تربیت کیلئے خانقاہ ضروری ہے۔ جس طرح جسمانی بیماری کیلئے طبیب حاذق کی ضرورت ہے اسی طرح باطنی بیماری کے علاج کیلئے طبیبِ روحانی وباطنی کی ضرورت ہے ،اسی طبیب کو مرشد یا شیخ کہتے ہیں۔جو علومِ علومِ روحانی وباطنی کا ماہر ہوتا ہے ۔علومِ روحانی کو تصوف کہا جاتا ہے ۔

تصوف دراصل وہ رہنما ہے جو سالک کو ہر آن باخبر رکھتا ہے کہ دیکھنا کہیں مقصود نگاہ سے اوجھل نہ ہوجائے وہ ہدایت کرتا ہے کہ جب تو بارگاہِ خداوندی میں نماز کے لیے کھڑا ہو اور یہ دیکھے کہ قبلہ رو ہے یا نہیں، جائے نماز اورکپڑے پاک ہیں یا نہیں، تو اسی کے ساتھ یہ بھی دیکھ کہ تیرا تصور پاک ہے یا نہیں، دل مالک کائنات کی طرف ہے یا نہیں، غرض تصوف ہر ہر قدم پر سالک کو خبردار رکھتا ہے کہ مقصود اصلی خدائے ذوالجلال والاکرام کے خیال سے دل غافل نہ ہونے پائے، ایک مرتبہ امام احمد بن حنبل کے تلامذہ نے ان سے سوال کیا کہ آپ بشر حانی کے پاس کیوں جاتے ہیں وہ تو عالم ومحدث نہیں ہیں؟ توامام صاحب نے فرمایا کہ میں کتاب اللہ سے واقف ہوں مگر بشر اللہ سے واقف ہیں۔ عارف ہندی اکبرالہ آبادی مرحوم نے بہت خوب کہا ہے۔

قرآن رہے پیش نظر ، یہ ہے شریعت

اللہ رہے پیش نظر ، یہ ہے طریقت

سلوک و معرفت کی راہیں بغیر علم دین کے طے نہیں کی جاسکتیں اس لیے مشائخ کرام نے خود علم دین حاصل کیا اور اپنے عقیدت مندوں کو بھی اس کی اہمیت و افادیت سے آگاہ کیا، علم دین حاصل کرنے کی ترغیب دی،عہد قدیم میں خانقاہوں میں جہاں ریاضت و مجاہدہ کا رواج تھا وہیں درس و تدریس کی محفلیں بھی گرم ہوا کرتی تھیں، قرآن ،تفسیر، حدیث، حصول حدیث، عقائد و کلام اور فقہ و تصوف کی کتابوں کا دور چلتا تھا ، مریدین و معتقدین ان محفلوں میں شریک ہوکر اکتساب علم و فیض کیاکرتے تھے اور اس کی نشر واشاعت میں اہم رول اداکیاکرتے تھے۔

خانقاہو ں میں علم دین اور اس کے فروغ کے حوالے سے موجودہ خانقاہی نظام کا آپ اگر جائزہ لیں تو آپ کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ تصوف کے دور زوال سے ہی خانقاہوں کی نظر میں تعلیم کی اہمیت بھی ختم ہو گئی ہے، چونکہ ان خانقاہوں کے مشائخ طریقت کے آبا و اجداد کے علمی و فکری کارنامے اتنے مشہور ہوئے کہ ان کے وارثین نے ان کی علمی عظمت و سطوت کو اپنے لیے بھی کافی سمجھا، تعلیم کے ساتھ اس قدر بے اعتنائی برتی گئی کہ خانقاہوں سے قابل قدر تعلیم دینے والے مدارس بھی تقریبا ختم ہوتے جارہے ہیں،آئے دن علم سے خانقاہوں کا تعلق کمزور ہوتاجارہا ہے، خانقاہیں جو کبھی علما کی سرپرستی کیاکرتی تھیں اب اپنے کو ان سے دور رکھنا پسند کرتی ہیں اور اپنے کردار و وعمل سے یہ پیغام دیتی ہیں کہ علم دین سیکھنا سکھانا یہ مولویوں کا کام ہے ، علوم شرعیہ کے حصول اور ان کے فروغ سے اس طرح غفلت برتی جارہی ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ طریقت، معرفت، حقیقت ،ولایت اور روحانیت ان سب کا علم دین اور شریعت کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہے ، اب حال تو یہ ہے کہ شیخ بننے اور خلافت لینے کے لیے بھی نہ علم کی ضرورت ہے اور نہ عمل کی حاجت ، جس کا نتیجہ یہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ علما ء کا مشائخ سے اور مشائخ کا علماء سے باہمی روابط و تعلقات دن بہ دن کمزور ہوتے چلے جارہے ہیں۔

ادھر مدارس کا حال یہ ہے کہ تعلیم پر تو بھرپور توجہ دی جاتی ہے لیکن تربیت کا کوئی نظام نہیں ہے، جبکہ دینی ادارے کی حیثیت جہاں دانش گاہ کی ہوتی ہے وہیں تربیت گاہ کی بھی ، ایک زمانہ تھا جب مدارس سے فارغ ہونے والے طلبا بیک وقت صوفی بھی ہوتے تھے ، حکیم بھی ، مفکر ومدبر بھی ،محدث و فقیہ اور داعی و مبلغ بھی ،جبکہ آج کا حال یہ ہے کہ ماہرین علوم وفنون تو خوب پیداہورہے ہیں لیکن عمل و کردار کے غازی بہت کم یاب ہیں ۔

اس خلاکوپرکرنے کابیڑہ حضرت اقدس خادم الامت مفتی سیدابوالحسن نورزمان ہاشمی نے اٹھایاکیوں کہ سیدنورزمان محض ایک عالم ہی نہیں ہیں، محض مدرسوں کے مہتمم ہی نہیں ہیں بلکہ ایک ایسے صوفی ہیں جو تصوف کی حقیقی روح کو ازسرنو زندہ کررہے ہیں وہ تصوف جو جعلی اور خود ساختہ پیروں کی بھینٹ چڑھ چکا، اس کو وہ مقام دلانا چاہتے ہیں جو صوفیا کا مطمع نظر رہا۔انہوں نے پہلے دن سے یہ عزم کررکھاہے کہ خانقاہوں کے فیضان کو عام و تام کرنے اور تصوف کی احیا وبقاکے لیے خانقاہوں کا رشتہ علم و علما کے ساتھ مضبوط ومستحکم کرنا بے حد ضروری ہے ، ہر خانقاہ کے زیر اہتمام ایسے معیاری اداروں کا ہونا لازمی ہے جہاں دینی و عصری تعلیم کا باضابطہ انتظام ہو تاکہ خانقاہی اداروں کے فارغین عالم دین کے ساتھ شریعت وطریقت کے عامل بھی ہوں ، علم دین کی خوشبوئوں سے اسلامی معاشرہ میں باغ وبہار قائم ہو اور خانقاہوں کی عظمت رفتابحال ہو۔

اسی سوچ کے پیش نظرحضرت اقدس خادم الامت مفتی سید ابوالحسن نورزمان ہاشمی نے چندسال قبل کراچی میں گلشن محمدمیں جامعہ اہل بیت اطہارکی بنیادرکھی جس کے متعلق کہاجاسکتاہے کہ جہاں

طیبہ سے منگائی جاتی ہے سینوں میں چھپائی جاتی ہے

توحید کی مئے ساگر سے نہیں نظروں سے پلائی جاتی ہے

اسی گلشن محمدمیں سلسلہ نقشبندیہ شاذلیہ کا بارہواںعالمی سالانہ تین روزہ اجتماع چنددن قبل منعقدہواجس میں چاروں صوبوں ،آزادکشمیرگلگت بلتستا ن کے علاوہ برطانیہ سمیت مختلف ممالک سے سالکین نے بڑی تعدادمیں شرکت کی بندہ ناچیزنے بھی اس روح پروراجتماع میںچ شرکت کی ۔یہ جلال و جمال سے بھرپور روحانی اجتماع تھا جس میں مجاہدہ ومراقبہ بھی تھا اوراللہ کے ذکرکی مجالس بھی ،جہاں محفل حمدونعت بھی تھی اورتزکیہ نفس و باطنی اصلاح کے خطابات بھی ،صوم النھارکے ساتھ قیام اللیل کاعملی نمونہ بھی تھا اوراللہ کے حضوراپنی التجائیں بھی ۔جہاں سلاسل کے اسباق بھی تھے اورعقیدے کی تشریح بھی ۔جہاں علم کے ساتھ عمل کی تلقین بھی تھی اورخدمت خلق کاجذبہ بھی ۔غرضیکہ ایک ایسااجتماع تھاجہاں سیمٹنے کے لیے بہت کچھ تھا ۔

حضرت اقدس سیدنورزمان کے خطابات کاخلاصہ بس یہ ہے کہ تصوف کا تو مقصد ہی اللہ تعالی کی ذات اقدس تک بندے کی رسائی ہے جو صوفی یہ کام نہیں کرتا وہ کچھ بھی ہو سکتا ہے مگر صوفی ہرگز نہیں۔ پیری مریدی کا مطلب اپنی ذات کی تشہیر نہیں بلکہ بندوں کا اللہ سے ٹوٹا ہوا رشتہ بحال کرنا ہے، مخلوق کے لئے خالق کو راضی کرنا تصوف ہے اور مخلوق کو خالق سے ملانے والا کبھی نہیں مرتا وہ ہمیشہ کی زندگی پا لیتا ہے لہذا اصل صوفی وہ ہے جو آپ کو اللہ کی بارگاہ میں پیش کر دے

سچا عارف وہ ہے جس کو جانوروں کی آواز میں ،ہر ایک سوز وساز میں ، چڑیوں کی چہک میں ، سمک میں، درختوں کے رنگ میں ، شیشہ وسنگ میں آہنگ ورباب و چنگ میں ، پتھر کی سختی میں خوشحال وبدبختی میں ،زمین کی نرمی میں ،آتش کی گرمی میں، دریا کی روانی میں ۔کوکبِ آسمانی میں ،پہاڑ کے ابھار میں بیاباں ومرغزار وں میں ، خزاں وبہار میں ایک نا دیدہ ہستی کا جلوہ نظر آئے، اہل اللہ ہر چیز میں صفاتِ حق کا مشاہدہ کر تے ہیں ،جس کو نمون دیدارِ آخرت سمجھ کر اس سے لذت پاتے ہیں اسی طرح طیباتِ دنیا میں طیباتِ آخرت کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

مخلوقاتِ ومصنوعات میں حق تعالی کی صفاتِ قدرت کا مشاہدہ کر یں کیونکہ مصنوع سے بھی صانع کا دیدار ہو جاتا ہے ۔امرِ الہی کی تعظیم اور خلقِ خدا پر شفقت بزرگوں کا خاص طر امتیاز رہا ہے ۔خدا ورسول کے بتائے ہوئے طریقہ زندگی کی جد وجہد جاری رکھنے اور نتائج کو خدا کے حوالے کر دینے کا نام ہی تفویض وسپر دگی ہے ہمارے اسلاف اور اکابرہمیشہ اس وصول ہر قائم رہے اور اپنے حالات کو خدا ہی کے سپرد کرتے رہے ۔

تصوف کا نچوڑ حضرت غزالی نے صرف دو لفطوں اول راستی با خدا ،دوم نکوئی با حق یعنی خدائے تعالی کے نزدیک راست باز رہے وہ صوفی ہے ۔راستی خداکے ساتھ یہ ہے کہ خواہشاتِ نفسانی کو اسکے حکم پر نثار کر دے اور نکوئی خلقِ خدا کے ساتھ یہ ہے کہ دوسروں کی حاجت کو اپنی حاجت پر مقدم رکھے۔ایک عارف جس طرف نظر ڈالتا ہے اسے محبوبِ حق کا جمال جہاں آرا ہی نظر آتا ہے اور وہ ہر شئے میں اس کا حسنِ بے حجاب دیکھتا ہے ،انسان کو جب تک اپنے وجود کا احساس ہو تا ہے وہ جلو ذات کے عرفان سے محروم رہتا ہے اور جب وہ اپنی ہستی کے حجاب کو دور کر دیتا ہے تو اس جانِ جاں کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا اپنے وجود کو مٹانے کا سبق بزرگوں ہی سے تعلق قائم کر کے حاصل ہو سکتا ہے ورنہ ہمیشہ حجاب ہی میں پڑا رہنا ہو گا

حضرت سہل بن عبداللہ تستری جو متقدمین صوفیا میں امتیازی مقام و مرتبہ کے حامل تھے فرماتے ہیںہمارے سات اصول ہیں کتاب اللہ پر مکمل عمل، سنت رسول کی پیروی، اپنی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچنے دینا، گناہوں سے بچنا، توبہ واستغفار، اور حقوق کی ادائیگی۔

خالقِ کائنات نے شیخ نورزمان کو ایک خالص علمی، فکری اور روحانی مقام اور متعدد نعمت ہائے عظمی سے نواز رکھا ہے۔ میری نظر میں منجملہ علمی، روحانی اوصافِ کریمانہ کی ودیعت خاص فضلِ باری تعالی اور عنایتِ آقائے دو جہاں ۖ ہی ہے۔ خالقِ کائنات کی اتباع، پیرویِ انبیا علیہم السلام ، سنتِ رسول اللہ ۖ کی متابعت، اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے شیخ نورزمان کو راہِ حق میں شدید مشکلات کا سامنا بھی رہا ہے لیکن تسلیم و رضا، خندہ پیشانی، عزمِ مصمم اور ثابت قدمی سے ہمارے شیخ ہر امتحان و آزمائش میں سرخرو ہوئے۔ یاد رکھیں! کسی مصفی، باعمل، پاک دامن، عبدِ صالح کو متعدد علمی، فکری اور روحانی کرامات سے نوازا جانا فقط کرمِ الہی اور نظرِ مصطفی ۖ کا خاصہ خاص ہے اوریہ تحفہ اور نعمت صرف اعلی ظرفی اور صبر و شکر کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔

یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ مفتی سیدنورزمان لاریب وہ علمی و منطقی فلسفہ زیست ہیں جو عقل و شعور میں علم و حکمت کے ایسے چراغ روشن کررہے ہیں کہ آئندہ آنے والی صدیاں بھی ان سے منور ہوتی رہیں گی۔ شیخ نورزمان کی فکرو فلسفہ اور تعلیمات کو سمجھنے کیلئے فقط فرشی ہی نہیں بلکہ عرشی خیرات، فیوضاتِ الوہی، فیوضاتِ علمی، فیوضاتِ روحانی اور کشفی رموز و معارف کے منبعِ ابحارِ بیکراں کا شناور ہونا لازم ہے۔ ان کے علمی اور روحانی فیوضات کے حصول کی تمنا رکھنے والا اگرچہ علم و معارف کے سات سمندر پینے والا نہ ہو مگر کم از کم علوم و معارف کے سمندر سے اس کا قلب و ذہن تر ضرور ہوا ہو۔ تب جاکروہ اس سمندرسے چندموتی حاصل کرپائے گا ۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1 + 12 =