تحریر: قادر خان یوسفزئی
دہشت گردی، تشدد اور جنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات نے صحافت کو ایک نئے آزمائش کے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ جنگی صحافت کی اہمیت تو بڑھتی جا رہی ہے، مگر اس کے بدلے میں صحافیوں کی جانوں کی قیمت بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ عالمی سطح پر اس مسئلے کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جنگ زدہ علاقوں میں صحافیوں کو اپنے کام کی قیمت اپنی جانوں سے چکانی پڑ رہی ہے، اور ان کی قربانیاں سچ کے متلاشی عوام کے لیے ایک سنگین انتباہ بن چکی ہیں۔جب ایک صحافی جنگ کے میدان میں قلم اٹھاتا ہے تو وہ صرف خبر نہیں لکھ رہا ہوتا بلکہ وہ تاریخ کا ایک باب رقم کر رہا ہوتا ہے۔ مگر جب یہی صحافی خود خبر بن جائے تو کہانی بدل جاتی ہے۔ وہ سچ جو ایک صحافی کی تحریر کے ذریعے دنیا تک پہنچنا تھا، اب اپنی موت کا شکار ہو جاتا ہے، اور ساتھ ہی اس سچ کی تلاش کرنے والوں کے لیے ایک اور قبر کھود دی جاتی ہے۔ ایسا ہی کچھ ہے جو ہم آج جنگی صحافت میں دیکھ رہے ہیں۔ ”The Reporting Graveyard” رپورٹ ہمیں یہی دکھاتی ہے کہ کس طرح جنگ زدہ علاقوں میں صحافیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کی خاموشی کس طرح سچ کے متلاشی عوام کو اندھیرے میں دھکیل دیتی ہے۔
The Reporting Graveyardرپورٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار ایک تلخ حقیقت کو بے نقاب کرتے ہیں۔ غزہ میں 7 اکتوبر 2023 سے مارچ 2025 تک 232 صحافی اور میڈیا کارکن اسرائیلی حملوں کی وجہ سے اپنی قیمتی جانوں سے محروم ہو چکے ہیں، یعنی ہر ماہ تقریباً 13 جانیں قربان ہو رہی ہیں۔ یہ اعداد و شمار صرف جنگی صحافت کے منظرنامے کو نہیں بلکہ صحافیوں کے لیے دنیا کے سب سے خطرناک ترین میدان کا بھی آئینہ ہیں۔ جنگی صحافیوں کے لیے یہ محض ایک کام نہیں ہوتا، یہ ایک مشن ہوتا ہے جس میں وہ نہ صرف دنیا تک سچ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اس راستے میں اپنی جانوں کو بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔غزہ کی صورتحال اس امرکا غماز ہے کہ صحافیوں کو جنگی علاقوں میں محض اپنے کام کے لیے نہیں بلکہ دشمن کی نظر میں سچ کا پرچار کرنے والے کے طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اگرچہ صحافت کی آزادی اور انسانی حقوق کے حوالے سے عالمی سطح پر مختلف اعلامیے اور معاہدے موجود ہیں، مگر جب جنگ کی زمین پر ان معاہدوں کا نفاذ ممکن نہ ہو، تو یہ حقیقت کا محض ایک کاغذی ٹکڑا بن کر رہ جاتے ہیں۔
اگر یمن، شام اور افغانستان کی صورتحال پر نظر ڈالیں تو وہاں بھی صحافیوں کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق، 2020 سے 2025 کے دوران یمن میں کم از کم 40 صحافیوں کو حراست میں لیا گیا یا ہلاک کیا گیا۔ شام اور افغانستان میں بھی صورتحال مختلف نہیں ہے۔ جنگ زدہ ممالک میں صحافیوں کو نہ صرف جسمانی تشدد اور گولیوں کا سامنا ہوتا ہے بلکہ انہیں ذہنی دباؤ اور اغوا جیسے خطرات کا بھی سامنا ہوتا ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جن پر اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے، لیکن جب صحافیوں کی قربانیوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے، تو سچ کی دھندلی تصویر دنیا کے سامنے آتی ہے۔یہ جنگی صحافت ایک ایسا میدان بن چکا ہے جہاں صحافیوں کو نہ صرف دشمن کی گولی کا سامنا ہوتا ہے بلکہ انہیں اپنے قلم کی طاقت سے لڑنے کے لئے اپنی جان کو داؤ پر لگانا پڑتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، صحافیوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جاتا ہے تاکہ وہ عوام تک وہ حقیقت نہ پہنچا سکیں جو وہ جنگ کے میدان میں دیکھتے ہیں۔
جنگی صحافیوں پر حملوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ خود سنسرشپ بھی بڑھتی جا رہی ہے، کیونکہ بچ جانے والے صحافی اپنی جان بچانے کے لئے وہ کچھ رپورٹ نہیں کر پاتے جو حقیقت میں وہ دیکھتے ہیں۔معلومات تک رسائی میں رکاوٹیں ڈالنا اور صحافیوں کو ہراساں کرنا ایک عالمی رجحان بنتا جا رہا ہے۔ جب جنگی صحافت کے میدان میں اس طرح کی حالت ہو، تو عالمی میڈیا کا کردار انتہائی اہم ہو جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم محض ڈیٹا جمع کر کے تاریخ کا حصہ بنا رہے ہیں یا ان کہانیوں کو کسی نہ کسی طرح دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ طاقتوحلقے اپنے مفادات کے مطابق میڈیا کو قابو میں رکھتے ہیں۔ جب صحافیوں کی جانوں کی قیمت پر سچ کو دبایا جا رہا ہو تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم بطور معاشرہ اس پر خاموش کیوں ہیں؟
جنگ زدہ علاقوں میں رپورٹنگ ایک مشکل اور جان لیوا کام بن چکا ہے۔ صحافیوں کو نہ صرف بمباری یا گولیوں کا سامنا ہے، بلکہ ذہنی دباؤ، اغوا، اور خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے دباؤ کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی صحافیوں کو جعلی الزامات میں قید کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ سچ رپورٹ نہ کر سکیں۔ اسی دوران، ایک اور سنگین مسئلہ سامنے آ رہا ہے اور وہ ہے ڈیجیٹل سنسرشپ۔ آج کل جہاں دنیا بھر میں ڈیجیٹل میڈیا کا رجحان بڑھ چکا ہے، وہیں جنگی صحافیوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کیے جا رہے ہیں، ان کی رپورٹس پر قدغن لگائی جا رہی ہے، اور ان
کے انٹرویوز کو مین اسٹریم میڈیا پر جگہ نہیں مل رہی۔ فلسطین میں جاری جنگ کے دوران کئی آزاد صحافیوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کر دیے گئے تاکہ وہ عالمی برادری کو زمینی حقائق سے آگاہ نہ کر سکیں۔ یہ ایک خطرناک رجحان ہے جو معلومات کی شفافیت کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔
صحافت کو ہمیشہ ”چوتھا ستون” کہا جاتا ہے، لیکن جب یہ ستون خود گرنے لگے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا باقی تین ستون اپنی جگہ قائم رہ سکیں گے؟ اگر ہم چاہتے ہیں کہ سچ کی روشنی باقی رہے تو ہمیں اس خاموشی کو توڑنا ہوگا۔ اس میں صرف صحافیوں کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم سچ کے محافظوں کا ساتھ دیں۔ آزاد صحافت کا تحفظ صرف صحافیوں کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ہر اس فرد کا مسئلہ ہے جو جمہوریت، انسانی حقوق، اور آزادی اظہار پر یقین رکھتا ہے۔ صحافیوں کو صرف تحفظ نہیں بلکہ آزادانہ طور پر کام کرنے کا حق بھی ملنا چاہیے۔ اگر ہم صحافت کے قبرستان میں سچ کی تلاش میں ہیں، تو ہمیں ان آوازوں کو دبانے کے بجائے بلند کرنا ہوگا۔ جب تک ہم جنگ کے میدانوں میں صحافیوں کی قربانیوں کو نظرانداز کرتے رہیں گے، سچ کی تلاش ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے جسے صرف عالمی سطح پر ایک جرات مندانہ اور طاقتور آواز کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب صحافی کسی جنگی علاقے میں رپورٹنگ کرتے ہیں تو انہیں صرف ایک دن کی موت کا خوف نہیں ہوتا، بلکہ انہیں یہ خوف ہوتا ہے کہ شاید وہ جو حقیقت بیان کر رہے ہیں، وہ حقیقت لوگوں تک پہنچ نہ سکے۔ اس طرح کے حالات میں صحافیوں کا کام مزید پیچیدہ اور خطرناک ہو جاتا ہے۔صحافت کی آزادی ہمیشہ سے جمہوریت کا ستون رہی ہے، اور جنگی صحافت نے اس ستون کو مزید مستحکم کیا ہے۔ جب دنیا جنگ کی حقیقتوں سے بے خبر ہوتی ہے، تو جنگی صحافیوں کی بدولت دنیا تک وہ سچ پہنچتا ہے جو حکومتیں اور طاقتور ادارے چھپانا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کام کی قیمت صحافیوں کو اپنی جانوں سے چکانی پڑ رہی ہے۔
صحافیوں کے قتل اور ان کے اغوا کے واقعات نہ صرف ان افراد کے لیے نقصان دہ ہیں بلکہ یہ معاشرتی آزادیوں کے لیے بھی ایک خطرہ بن چکے ہیں۔ ان واقعات کا اثر یہ ہوتا ہے کہ جب صحافیوں کو خوف کی نظر سے دیکھا جانے لگے، تو سچ کی آواز کمزور پڑ جاتی ہے۔ اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ عالمی سطح پر ان واقعات کی اہمیت کو تسلیم کرنا ضروری ہے، کیونکہ صحافت کی آزادی کا نقصان پورے معاشرے کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔