تحریر: علی کاظم
(پہلا حصہ)
لفظ شیعہ قرآن مجید میں پیرو کار اور حامی کے معنی میں آیا ہے جبکہ احادیث نبوی اور فرامین ائمہ اہل بیت علیھم السلام میں اس لفظ کا اطلاق امام علی علیہ السلام کے پیروکاروں اور محبوں کے لیے ہوا ہے۔
قرآن مجید کی متعدد آیات کی تفسیر میں بیان ہوا ہے کہ یہاں مخاطب امام علی علیہ السلام کے پیروکار، شیعہ ہیں۔ عہد رسالت میں ہی، امام علی علیہ السلام سے وابستہ افراد کے لیے لفظ شیعہ بولا جانے لگا تھا، چنانچہ یہ حدیث اسی تناظر میں نقل ہوئی:
إنّ هذا و شیعته لهم الفائزون یوم القیامة
کہ یہ علی (علیہ السلام) اور اس کے شیعہ (پیروکار) قیامت کے دن کامیاب ہیں۔
احادیث میں جہاں پیروکارانِ اہل بیت علیھم السلام کے فضائل مذکور ہیں وہیں ان کی ذمہ داریاں اور خصوصیات بھی بتائی گئی ہیں۔ ایمان اور عمل صالح، مومنین کی بنیادی خصوصیات میں شمار کیا گیا ہے۔ قرآن اور احادیث کی روشنی میں اس مختصر کاوش کا بنیادی مقصد اسی طرف توجہ دلانا ہے کہ دینی تعلیمات پر صحیح انداز میں عمل پیرا ہونا بھی شیعیانِ علی کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ہے۔ ائمہ اہل بیت علیھم السلام سے مروی بعض احادیث میں یہ الفاظ مذکور ہیں:
إن شیعتنا من شیعنا
کہ ہمارا (یعنی ہم اہل بیت علیھم السلام کا) شیعہ (پیروکار) وہ ہے جو ہماری اتباع اور پیروی کرے۔ شیعہ یعنی امام علی اور ائمہ اہل بیت علیھم السلام کا پیروکار، اس لحاظ سے ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل بیت علیھم السلام کی تعلیمات پر چلنے کی توفیق دے-
آل محمد ؐ کے شیعوں پر خدا مہربان ہے
“بِسْمِ اللہِ الرَّحْمنِ الرَّحِیْم”[1]
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے
حضرت امام صا دق ؑ“بِسْمِ اللہِ الرَّحْمنِ الرَّحِیْم” کی تفسیر میں فرماتے ہیں: کہ الرحیم بالمو منین اللہ تعالیٰ مو منین پر مہربان ہے اس سے مراد شیعہ آل محمد ہیں خصوصی طور پر۔
حضرت امام صادق ؑنے فرمایا :جنت کے بارے میں کوئی ایسی آیت نہیں کہ پیغمبر اسلامؐ اور آپ کے تابعین اور شیعہ جس کے مصداق نہ ہو ں اور جہنم کے بارے میں کوئی ایسی آیت نہیں جس کے مصداق آپ کے دشمن اور مخالفین نہ ہو ۔
“اہدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیْمَ ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنعَمتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ المَغضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّالِّیْنَ”[2]۔
تو ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت فرما ۔ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام کیا ہے جن پر غضب کیا گیا نہ ہی وہ گمراہ ہونے والے ہیں ۔شیعہ نہ گمراہ ہے اور ان پر اللہ کا غضب ہوتا ہے ۔
محمد بن حسین اپنے باپ اور دادا سے حدیث بیان کرتے ہیں :کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ دین ہے جو جبرائیل پیغمبر اسلامؐ پر لے کر آیا اور” صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنعَمتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ المَغضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّالِّیْنَ “کے متعلق فرمایا: وہ حضرت علی بن ابی طالب ؑ کے شیعہ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے ولایت علی بن ابی طالب ؑ کا انعام کیااور نہ اللہ تعالیٰ ان پر غضب ناک ہوااور نہ وہ گمراہ ہیں [3]۔
علی بن ابی طالبؑ کے شیعہ اہل تقوی ہوتے ہیں۔
“الم ،ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْبَ فِیْہِ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ۔الَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُونَ الصَّلاۃَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُون”[4]۔
الم۔یہ کتاب جس میں کوئی شبہ نہیں ۔ہدایت ہے تقویٰ والوں کے لئے ۔جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطاکیا ہے اسمیں سے خرچ کرتے ہیں ۔
یحیی بن ابی قاسم سے روایت ہے :۔کہ میں نے حضرت امام صادق ؑسے اللہ تعالیٰ کے مندرجہ بالا فرمان کے متعلق پوچھا تو آپ ؑنے فرمایا :۔متقین سے مراد حضرت علیؑ کے شیعہ ہیں [5]
“وَبَشِّرِ الَّذِیْن آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہَار”[6]
ان لوگوں کو خوشخبری سنا دیجئے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال انجام دئیے ۔کہ ان کے لئے (بہشت کے)باغات ہیں ۔جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔
حضرت امام محمد با قر ؑ مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں:۔ کہ “آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ”سے مراد علی ابن ابی طالب ؑ آپ کے بعد اوصیا ء اور انکے شیعہ ہیں ۔[7]
“وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أُولَئِکَ أَصْحَابُ الْجَنَّۃِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُون”[8]۔
اور جو ایمان لائیں اور اچھے اعمال بجا لائیں یہ لوگ اہل جنت ہیں ۔جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے
حضرت امام ابو محمد العسکری ؑ نے فرمایا :۔مندرجہ بالاآیت کا مصداق علیؑ کے شیعہ ہیں ۔
شیعہ نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے ہوتے ہیں۔
“وَلِکُلٍّ وِجْہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیْہَا فَاسْتَبِقُواْ الْخَیْرَاتِ أَیْنَ مَا تَکُونُواْ یَأْتِ بِکُمُ اللّہُ جَمِیْعاً إِنَّ اللّہَ عَلَی کُلِّ شَیْْءٍ قَدِیْرٌ”[9]
اور ہر ایک کے لئے سمت ہے جسکی طرف وہ رخ کرتا ہے پس تم نیکیوں کی طرف سبقت کرو تم جہاں کہیں بھی ہو ں گے ۔اللہ (ایک دن) تم سب کو حاضر کرے گا۔ یقیناًاللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے ۔
شیعہ امامیہ کی متعدد روایات میں وار د ہے” أَیْنَ مَا تَکُونُواْ یَأْتِ بِکُمُ اللّہُ جَمِیْعاً “سے مراد حضرت امام مھدی عج کے انصار ہیں ۔یعنی جب امام قائم ؑ کا قیام ہو گا تو اللہ تعالیٰ تمام شہروں سے آپ کے شیعہ کو آپکی طرف جمع کرے گا ۔[10]
آئمہ کا اتباع کرنے والے ان کے زیادہ قریب ہوتے ہیں
“إِنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِإِبْرَاہِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوہُ وَہَذَا النَّبِیُّ وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ وَاللّہُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْن”[11]
ابراہیم سے نسبت رکھنے کا سب سے زیادہ حق ان لوگوں کو پہنچتا ہے ۔جنہوں نے انکی پیروی کی اور اب یہ نبی اور ایمان لانے والے (زیادہ حق رکھتے ہیں )اور اللہ ایمان رکھنے والوں کا حامی اور کا رساز ہے۔
حضرت امام محمد باقر ؑ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قول” وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ “سےمراد آئمہ ؑ اور ان کے اتباع کرنے والے ہیں۔[12]
ابیصباح کنانی سے روایت ہے:۔ کہ میں نے امام جعفر صادق ؑ سے سنا آپ” إِنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِإِبْرَاہِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوہُ “کی تفسیر میں فرمایا:۔ کہ علی بن ابی طالب ؑ، ابراہیم ؑ کے دین اور انکے طریقے پر تھے اور تم سب لوگوں سے زیادہ انکے قریب ہو۔ [13]
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]۔سورہ حمد آیہ1
[2]۔ سورہ حمد آیت6،7
[3]۔ تفسیر فرات کوفی 52، بحارالانوار32/128
[4]۔ سورہ بقرہ آیت 1تا3
[5]۔بحار الانوار 5/82، تفسیر نو رالثقلین 1/31
[6]۔ سورہ بقرہ آیت 25
[7]۔ بحار الانوار 32/129
[8]۔ سورہ بقرہ آیت 82
[9]۔ سورہ بقرہ 138
[10]۔تفسیر کوثر اور عیاشی1/22
[11]۔ سورہ آل عمران آیت68
[12]۔ کافی 1/416،بحار الانوار23/225،البرھان3/54
[13]۔ تفسیر البرھان2/54