تحریر: ایس ایم شاہ
وہ عظیم شخصیت جن کی فکر عالمی ہو، جن کی بصیرت عالی ہو، جن کا شعور اعلیٰ درجے کا ہو۔ جو معلومات کا ایک خزانہ ہو، عالمی حالات پر عمیق نظر رکھتے ہوں۔ نام و نمود کی خواہش سے خالی ہو، شہرت طلبی سے عاری ہو، دینی خدمت کے جذبے سے سرشار ہو، قلمی جہاد میں ہراول دستے کا کام انجام دے رہا ہو، شاگردوں کو شفقت پدری فراہم کرنے والا ہو، جن کے بصیرت افروز لیکچرز سے مستفید ہونے کے لیے نہ فقط مدرسے کے طلبہ بلکہ کالج اور یونیورسٹی کے پروفیسر حضرات اور دانشور طبقہ بھی ہر وقت مشتاق رہتے ہوں، قانونی میدان میں ماہر قانون دان ہو، منجمنٹ کے میدان میں بے نظیر مدیر ہو، جن کی تحریروں میں بلا کی روانی ہو، جن کے دروس میں کامل سلاست ہو، جن کے رویے سے اخلاقِ محمدی کی خوشبو آتی ہو، جن کا کردار مثالی ہو، علما کے درمیان میں علمی گفتگو کرتا ہو، شعرا کے مابین شعر و سخن سے داد تحسین وصول کرتا ہو، عوام کے بیج عام فہم لہجہ اپناتا ہو، جوانوں سے ان کی نفسیات کے مطابق گفتگو کرتا ہو، عربی، فارسی، اردو اور بلتی زبان کے نامور ادیب ہو، انگریزی زبان پر کامل دسترس رکھتا ہو، فن ترجمہ میں بین الاقوامی شہرت یافتہ ہو، فنِ تحریر پر مکمل ملکہ رکھتا ہو اور 80 کے لگ بھگ کتابوں کا مؤلف و مترجم ہو، آپ کو دنیا شیخ محمد علی توحیدی کے نام سے یاد کرتی ہے۔
آپ کے تمام علوم و فنون پر قلم فرسائی کرنے کے لیے شاید ضخیم کتاب درکار ہوں۔ یہاں ہم آپ کے اردو تراجم کے چند اہم فنی محاسن کی نشاندہی کرنے پر اکتفا کریں گے۔ اب تک آپ عربی اور فارسی زبان سے 70 کتابوں کا اردو زبان میں ترجمہ کرچکے ہیں۔ ترجمہ ایک ایسا قیمتی ہنر ہے جو دنیا کے مختلف اہل زبان کے لیے دوسری زبانوں میں لکھی گئی علوم و فنون پر مشتمل بیش بہا کتابوں اور مقالہ جات کو قاری کی اپنی زبان میں منتقل کرکے قابل فہم بناکر اس کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ آپ کے تراجم کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ سلیس اردو ادب پر مشتمل ہونے کے ساتھ ساتھ زبان مبداکی زبان مقصد میں منتقلی کے بعد بھی عبارت میں وہی حسن باقی رہتا ہے جو اصل کتاب میں تھا۔ فن ترجمے کی اصطلاح میں جس زبان میں اصل کتاب لکھی جاتی ہے اسے زبان مبدا اور ترجمہ کرکے جس زبان میں اس کتاب کے مطالب کو منتقل کیا جاتا ہے اسے زبان مقصد کہا جاتا ہے۔ مترجم کا کمال یہ ہوتا ہے کہ قاری کو زبان مبدا میں جس کتاب یا مقالے کا مطالعہ کرتےوقت جو لذت اور چاشنی حاصل ہوتی ہے وہی لذت و چاشنی زبان مقصد میں ترجمے کے بعد بھی برقرارہے۔ موصوف کے تراجم میں یہ خصوصیت کمال درجے کی پائی جاتی ہے۔
مترجم کے لیے ضروری ہے کہ اسے زبان مبدا اور زبان مقصد دونوں پر کامل دسترس حاصل ہو اور دونوں زبانوں کی اصطلاحات، اشارات، کنایات، محاورات، تشبیہات اور استعارات سے مکمل آشنائی رکھتا ہو، موصوف عربی زبان و ادب میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے علاوہ حوزہ علمیہ قم ایران میں بھی عربی زبان و ادب سے منسلک رہے ہیں اور عرصہ 27سالوں سے جامعۃ النجف سکردو کے پرنسپل ہیں اور عربی زبان و ادب پڑھا رہے ہیں۔ فارسی زبان و ادب کے تو آپ اہل زبان شمار ہوتے ہیں۔ لہذا مذکورہ تمام محاسن آپ کے تراجم میں بطور اتم موجود ہیں۔
ترجمے میں ضروری ہے کہ عبارت مختصر مگر جامع ہو، متن میں ایک خاص نظم و ضبط برقرار ہو، رائج اصطلاحات بروئے کار لائے جائیں، اصل ٹیکسٹ جس زبان میں ہے اسی کی مناسبت سے ترجمہ کیا جائے یعنی اگر سائنسی کتاب ہو تو ترجمہ بھی سائنسی پیرائے میں ہو، اگر فلسفی کتاب ہو تو ترجمہ بھی فلسفیانہ طریقے سے ہو اور اگر علم کلام کی کتاب ہو تو ترجمہ بھی کلامی انداز میں ہونا چاہیے۔ اصل کتاب یا مقالے کا ایسا ترجمہ کیا جائے کہ ترجمے کے بعد بھی اس کی وہی حیثیت اور علمی مقام برقرار رہے جو حیثیت اور مقام اسے زبان مقصد میں حاصل تھے۔ آپ کے تراجم میں بھی عبارت بہت ہی خوبصورت، جامع، مختصر اور روان ہونے کے ساتھ ساتھ مستعمل اصطلاحات مربوط علم کی اصطلاحات کی نعم البدل ہوتی ہیں۔ آپ کے اپنے بقول ایک کتاب کے ترجمے کے دوران آپ نے 25000 مرتبہ ڈکشنری کی طرف مراجعہ کیا۔ آپ کے ترجمہ کردہ کتابوں کا مطالعہ کرتے وقت بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم کتاب کا ترجمہ نہیں بلکہ اصل کتاب کا مطالعہ کر رہے ہیں۔
ترجمے میں یہ بھی شرط ہے کہ مصنف یا مؤلف اپنے قاری تک جو پیغام پہنچانا چاہتا ہے مترجم بھی اسی پیغام کو ترجمے کی صورت میں قاری تک کماحقہ منتقل کرے۔ جس زبان میں ترجمہ کیا جا رہا ہے اس زبان کے رموز و اوقاف کا خیال رکھا جائے، املائی غلطیوں سے اجتناب کیاجائے۔ اگر اصل کتاب میں کوئی نکتہ مبہم ہو تو ترجمہ کرتے وقت بریکٹ میں اس کی معمولی وضاحت کی جائے۔ مفاہیم میں تحریف اور ذاتی رائے شامل کیے بغیر مصنف کے مطمع نظر کو صحیح انداز سے قاری تک منتقل کیا جائے۔ مصنف کے کلام کے لحن کو ترجمے میں بھی برقرار رکھا جائے۔ آپ کے تراجم میں بھی املائی اور رموز و اوقاف کا باریک بینی سے خیال رکھا گیا ہے، مبہم الفاظ کی وضاحت بریکٹ میں دی گئی ہے، مصنف کے لحن کلام میں آپ نے کبھی خلل ایجاد ہونے نہیں دیا ہے اور مطالب کی منتقلی میں بھی آپ نے امانت داری کا خیال رکھتے ہوئے کافی احتیاط سے کام لیا ہے۔
آپ کے ان تراجم سے جہاں عربی اور فارسی زبان میں موجود بیش بہا علمی خزانے اردو زبان میں منتقل ہوئے ہیں وہیں یہ اردو زبان و ادب کے فروغ میں بھی بہت اہم اضافہ شمار ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ آپ کے قلم میں مزید روانی عطا کرے آمین!