تحریر: اے ایس سراج
کسے خبر تھی کہ 11مارچ 1957ء کو کرمان کے مضافاتی گاؤں ’’قنات ملک ” کے ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولنے والا یہ نوزاد عالم اسلام کا ایک عظیم جرنیل بنے گا ۔ کہ جن کے نام سے استکبار کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہو جائےگا؟۔
ایک محیر العقول شخصیت کا مالک ہوگا کہ جو اپنے آقا و مولا امیر المومنین علیہ السلام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے،اپنے اندر متضاد صفات کو پروان چڑھائے گا؟ ۔
جن کو زمانہ ’’بے سایہ کمانڈر’’، ’’بین الاقوامی جرنیل‘‘، ’’مرموز کمانڈر‘‘، ’’اسرائیل کیلئے ڈراؤنا خواب‘‘، ’’وقت کا مالک اشتر‘‘، ’’جنرل حاج قاسم‘‘ وغیرہ۔۔۔ جیسے القاب سے پکارے گا۔
ہاں وہ جہاں دشمن کے مقابلے میں مجسمہ صلابت و استقامت تھے وہاں مظلومین، مستضعفین اور ستم دیدہ لوگوں کے سامنے موم کی طرح نرم ۔
وہ اس آیت کے مصادیق میں سے تھے ۔
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ ٱللَّهِ ۚ وَٱلَّذِينَ مَعَهُۥٓ أَشِدَّآءُ عَلَى ٱلْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ ۔
محمد(ص) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے لئے سخت ترین اور آپس میں انتہائی رحم دل ہیں
48-Al-Fath : 29
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن۔
وہ راتوں کا عابد اور دن کا مجاہد، اس کو عبادت کی حالت میں دیکھ لیں تو یہ گمان ہو جائے کہ ان کو دنیا کے امور سے کوئی سروکار نہیں اور میدان جہاد میں دیکھ لیں تو یہ یقین ہوجائے کہ ان کو جنگ اور جہاد کے علاوہ کوئی ہنر نہیں آتا ہے ۔
ان کی زندگی کے کئی اہم پہلو ہیں جن کو بیان کرنا نہ میرے امکان میں ہے اور نہ اس مقالے میں یہ ظرفیت ہے؛ لہذا میں ان کی شخصیت کے صرف ایک پہلو کی طرف اشارہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔ اور وہ ہے ان کے اندر موجود قوت جاذبہ اور دافعہ۔
شہید قاسم سلیمانی کے بلا تفریق مذہب و ملت اور جغرافیہ کے، بے شمار دوست تھے اور ہیں اور بعد میں بھی شامل ہوتے جائیں گے ۔
کیوں کہ سلیمانی سے دوستی حقیقت میں ان انسانی اقدار سے دوستی ہے جن کا وہ مالک تھا اور جن کی بقا اور نفاذ کے لئے وہ جہاد پیہم کرتے رہے اور اسی راہ میں اپنے خون کو بہایا۔
ان کے عاشقوں کے جلوے دنیا نے عراق اور ایران میں ان کی بے نظیر یا کم نظیر تشیع جنازے کی شکل میں مشاہدہ کیا ۔
دنیا بھر کے حریت پسند ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور مزاحمتی بلاک کے اندر چاہیے وہ فلسطین کے مجاہدین ہوں یا لبنان کی حزب اللہ یا شام کی حکومت اور عوام یا عراق کے مجاہدین اور ملت یا یمن کے مظلومین ان کو اپنا ہیرو مانتے ہیں ۔
اور ان کی شخصیت کے محور میں فاطمیون، حیدریون، زینبیون ۔۔۔۔۔ کے ناموں کے ساتھ پروانوں کی طرح زمانے کے فرعونوں سے نبرد آزما ہونے والے مجاہدین اکٹھے ہوتے گئے ۔
اس میں بنیادی عنصر اس کی شخصیت کا جاذبہ تھا۔ اور اس شخصیت میں جاذبہ کا راز ان کا اسلامی تعلیمات اور اصولوں پر اعتقاد اور عمل میں پوشیدہ تھا ۔
شہید سلیمانی حقیقت میں امام علی علیہ السلام کے اس فرمان کی عملی تصویر تھے ۔
خَالِطُوا النَّاسَ مُخَالَطَةً اِنْ مِّتُّمْ مَّعَهَا بَكَوْا عَلَیْكُمْ، وَ اِنْ عِشْتُمْ حَنُّوْا اِلَیْكُمْ.
لوگوں سے اس طریقہ سے ملو کہ اگر مر جاؤ تو تم پر روئیں، اور زندہ رہو تو تمہارے مشتاق ہوں۔
اور وہ جہاں پر عجیب و غریب کشش اور جاذبہ کے مالک تھے وہاں پر شگفت انگیز حد تک قوت دافعہ کے بھی مالک تھے ۔ نیویارک ٹائمز نے ستمبر 2013ء کو انہیں ’’قابل نفرت اور قابل تحسین دشمن‘‘ کا نام دیا۔ عراق میں سی۔آئی۔اے کا سابق سربراہ جان مگوئیر کہتا ہے: ’’وہ مشرق وسطیٰ میں سب سے طاقتور خفیہ ایجنٹ ہے۔۔۔ اور اسے کوئی بھی نہیں جانتا‘‘۔
امریکی ہفتہ نامہ نیوز ویک اپنے بین الاقوامی اخبار میں 3دسمبر 2014ء کو قاسم سلیمانی کی تصویر اپنے سرورق پر شائع کرتا ہے اور ان کی تصویر کے ساتھ لکھتا ہے: پہلے امریکہ کے ساتھ لڑتا رہا، ابھی داعش کو کچل رہا ہے، وہ ایک ذہین شخصیت کا حامل اور جنگ کا عاشق ہے اور خود بھی جانتا ہے کہ اس کام کا ماحصل(مغز) ہے۔
انہوں نے اپنی اس مثالی قوت کے ذریعے اپنے دشمنوں کو بھی_ جو حقیقت میں انسانیت کے دشمن تھے _ اپنے خلاف سر جھوڑ کر بیٹھنے پر مجبور کیا ۔
داعش ہو یا جبھہ النصرہ،اسرائیل ہو یا امریکہ یا اس خطے میں موجود امریکی پیروکار کٹھ پتلی حکومتیں ، سلیمانی سب کا مشترکہ دشمن تھا ۔ وہ جس طرح دوستوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھا اسی طرح دشمنوں کی آنکھوں کا کانٹا ۔
انہوں نے عملی جہاد کے ذریعے سے جہاں داعش جیسے خونخوار تکفیری گرہوں کو نابود کیا وہاں اپنی مثالی شہادت کے ذریعے حقوق بشر کے جھوٹے دعویدار اور دہشت گردی سے مبارزے کا جعلی نعرہ لگا کر ملک اور نسلوں کو تباہ کرنے والے امریکہ جیسے منافقوں کو بھی بے نقاب کیا ۔
لہذا اخلاقی اقدار سے عاری اور عقل سے خالی امریکی صدر ڈونالڈ ٹرامپ نے بطور مستقیم ان پر غافلانہ حملے کی چارچ سنبھالی اور وقت کے فرعون کے حکم پر بغداد ایرپورٹ کے نزدیک ڈارون کے ذریعے ان پر حملہ کیا گیا ۔ وہ اپنے عراقی دوست اور مجاہد ابو مھدی المھندس اور کچھ ساتھیوں کے ساتھ 3 جنوری 2020 کی صبح جام شہادت نوش کرکے امر ہوگئے ۔
احمقوں کا خیال یہ تھا کہ وہ اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کریں گے لیکن نتیجہ برعکس نکلا۔شہید سلیمانی کی موت نے دوستوں کی قوت قلب میں اور دشمنوں کے خوف میں ہی اضافہ کیا ۔
اور ان کی شہادت کی دیرینہ آرزو پوری ہوئی اور اللہ تعالی سے مانگی گئی آخری دعا پوری ہوگئی اور پاکیزہ حالت میں اپنے رب سے جا ملے ۔
رقص و جولان بر سر میدان کنند
رقص اندر خون خود مردان کنند ۔
چون رهند از دست خود دستی زنند ۔
چون جهند از نقص خود رقصی کنند ۔