تحریر: علی احمدی
اگرچہ شہید سید حسن نصراللہ کی ٹارگٹ کلنگ میں امریکہ کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کی لاجسٹک سپورٹ اور اسلحہ فراہمی ایک واضح امر ہے لیکن کچھ ایسے شواہد بھی پائے جاتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ نے اس قتل میں کہیں زیادہ وسیع کردار ادا کیا ہے۔ صیہونی دشمن نے سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان شہید سید حسن نصراللہ کی ٹارگٹ کلنگ میں اپنے پاس موجود جدید ترین فوجی ٹیکنالوجیز کا استعمال کیا تھا اور صرف چند منٹ میں ہی ایف 15 جنگی طیاروں کی مدد سے ایک ہی جگہ 80 سے زیادہ ایسے بم گرائے جن میں سے ہر ایک کا وزن تقریباً ایک ٹن کے قریب تھا۔ اس بارے میں شائع ہونے والی رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل نے اس حملے میں جن بموں کا استعمال کیا وہ ایم کے 84 کہلاتے ہیں اور اینٹی بنکر اور امریکی ساختہ ہیں۔
شائع ہونے والی رپورٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل کی ٹارگٹ کلنگ کوئی سادہ فوجی اور سیکورٹی آپریشن نہیں تھا بلکہ اس کے مقدمات فراہم کرنے کے لیے طویل عرصہ درکار تھا۔ یہ حملہ اسلامی مزاحمت کی جانب سے غزہ کی حمایت کے ردعمل میں انجام پایا۔ مختلف باخبر ذرائع کے بقول غاصب صیہونی رژیم نے اس حملے میں بین الاقوامی سطح پر مختلف ممالک کی انٹیلی جنس سروسز کی مدد بھی حاصل کی تھی تاکہ اپنے انٹیلی جنس اور لاجسٹک آپریشنز کو خفیہ رکھ سکے۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ بین الاقوامی کھلاڑی اس حملے میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر شریک بھی تھے۔ اس بارے میں ایک اہم ترین سوال یہ ہے کہ شہید سید حسن نصراللہ کی ٹارگٹ کلنگ کے لیے انجام پانے والے حملے کی منصوبہ بندی اور اجراء میں امریکہ کا کردار اور شراکت کس حد تک تھی؟
سیاسی اور فوجی امور کے ماہر عمر معربونی اس بارے میں کہتے ہیں کہ اس حملے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کے اصلی دشمن کے طور پر امریکہ کے کردار سے چشم پوشی اختیار نہیں کی جا سکتی اور اس آپریشن میں امریکہ اور اسرائیل کے درمیان اسٹریٹجک تعاون انجام پایا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو فراہم کیے گئے تعاون کا ایک حصہ ان بموں کی صورت میں تھا جن سے شہید سید حسن نصراللہ کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ بم ایم کے 84 نام کے ہیں اور اگرچہ ان میں سے ہر ایک کا وزن ایک ٹن ہے لیکن وہ 80 ٹن دھماکہ خیز مادے جتنی تباہی پھیلاتا ہے۔ معربونی نے شہید سید حسن نصراللہ کی ٹارگٹ کلنگ میں امریکی تعاون کے دو بنیاد پہلو بیان کیے ہیں جو یہ ہیں:
1)۔ الیکٹرانک آلات کے ذریعے نظارت اور جاسوسی معلومات کی فراہمی۔ واضح ہے کہ اس حملے سے پہلے انتہائی جدید طریقوں سے جاسوسی کا عمل انجام پایا ہے جس کی مدد سے مطلوبہ ٹارگٹ کا تعین کیا گیا ہے۔
2)۔ اسرائیل کو اسلحہ اور جنگی آلات فراہم کرنا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس حملے میں امریکہ کا کردار مرکزی نوعیت کا تھا اور کم از کم اس بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں پایا جاتا۔
بین الاقوامی امور کے ایک اور ماہر عدنان علامہ بھی امریکی حکومت کو شہید سید حسن نصراللہ کی ٹارگٹ کلنگ میں برابر کا شریک قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ امریکہ تھا جس نے جنگی طیارے اور اسلحہ اور بم صیہونی رژیم کو فراہم کیے۔ وہ مزید کہتے ہین کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اس ٹارگٹ کلنگ سے پیشگی مطلع تھا۔
اس بات کی دلیل یہ ہے کہ اس حملے میں استعمال ہونے والے بم ایسے مخصوص بم تھے جن میں کم شدت کا یورینیم استعمال ہوتا ہے اور اس سے دھماکے والی جگہ کا درجہ حرارت شدید حد تک بڑھ جاتا ہے۔ عدنان علامہ کہتے ہیں: “امریکہ نے شہید سید حسن نصراللہ کے قتل کے لیے ضروری اسلحہ فراہم کرنے علاوہ اس قتل کی نامحدود سیاسی حمایت بھی کی ہے جس کے باعث صیہونی حکمرانوں کے خلاف کوئی عدالتی کاروائی نہیں ہو سکی اور ان پر جنگی جرائم اور انسانیت سوز مظالم کے باوجود مقدمہ نہیں چل سکا۔ البتہ یہ جرائم اور مظالم وقت گزرنے فراموش نہیں کیے جائیں گے اور جتنی بھی دیر سے سہی آخرکار امریکہ اور صیہونی رژیم کو ان جرائم کی سزا ملے گی۔” انہوں نے شہید سید حسن نصراللہ کی ٹارگٹ کلنگ میں امریکی مداخلت کو 70 فیصد قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ تعاون براہ راست طور پر انجام پایا ہے اور اس میں انٹیلی جنس تعاون بھی شامل ہے۔
عدنان علامہ نے شہید سید حسن نصراللہ کی ٹارگٹ کلنگ میں امریکہ کے کردار کے بارے میں تین اہم نکات پیش کیے:
1)۔ امریکہ نے لبنان میں دنیا کا سب سے بڑا سفارت خانہ بنا رکھا ہے جس میں ایک مخصوص ہیلی پیڈ اور ایئرپورٹ بھی شامل ہے اور وہاں بیروت ایئرپورٹ کی نظارت کے تحت پروازیں انجام پاتی ہیں۔
2)۔ امریکہ کے نمائندے کسی قسم کی اجازت اور روک ٹوک کے بغیر بہت آسانی سے لبنان کے مختلف وزارت خانوں میں آتے جاتے ہیں اور ہمیشہ اس ملک میں ان کی آمدورفت جاری رہتی ہے۔
3)۔ لبنان میں امریکی سفارت خانہ جدید ترین ٹیلی کمیونیکیشن اور جاسوسی آلات سے لیس ہے جن کے ذریعے امریکہ وسیع پیمانے پر جاسوسی معلومات اکٹھی کرتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ یہ معلومات اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کو بھی فراہم کرتا رہتا ہے۔