نومبر 19, 2024

شہید آیت اللہ رئیسی کا طرز حکمرانی اور اس کے اثرات

تحریر: ڈاکٹر علی محمد جوادی

آج کل ایران کے صدر شہید آیت اللہ رئیسی کے فقدان کے بعد سے نظام حکومت میں پیدا ہونے والی خلاء کے بارے میں تجزیہ اور تحلیل کیا جارہا ہے کہ شہید رئیسی کے بعد ایران کی داخلی اور خارجی سیاست میں کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

کیا رئیسی کے دوران حکومت بنائی گئی داخلہ اور خارجہ پالیسی قائم رہے گی؟ کیا نظام حاکمیت میں کوئی خلاء پیدا ہوجائے گی؟ کیا رئیسی کے طرز حکمرانی پر امور چلانے کے لئے ایسی شخصیت موجود ہے؟

یہاں میرے خیال میں دو چیزیں بہت اہم ہیں جن کو سمجھنا بہت ضروری ہے ؛ ایک ایران کا نظام حاکمیت اور دوسری شہید رئیسی کا طرز حکمرانی۔ کیوں کہ نظام حاکمیت کی نوعیت اور اس نظام حاکمیت پر حاکم شخص کا طرز حکمرانی ایک دوسرے سے مرتبط اور ایک دوسرے پر موثر ہیں۔ اس لئے کہ اصول نظام حاکمیت طرز حکمرانی پر اثر انداز ہیں اور طرز حکمرانی، نظام حاکمیت پایداری اور اصول حاکمیت کی پاسداری کی دلیل ہے اور قانون مند حکمرانی کا سبب بنتا ہے۔

نظام حاکمیت کی نوعیت اور طرز حکمرانی ، کسی بھی ملک اور معاشرے کی ترقی اور تنزلی کا سبب بنتے ہیں، بہت سارے ممالک اور معاشروں میں نا کارآمد اور ناقص نظام حاکمیت رائج ہونے کی وجہ سے، ترقی کی ظرفیت اور پوٹینشل کے باوجود، تنزلی کی منزلیں طے کرتے نظر آرہے ہیں یا ان میں ٹھہراو ہے۔ لیکن کچھ ایسے ممالک ہیں جن میں کار آمد، مترقی اور نسبتا کامل نظام حاکمیت رائج ہونے کی وجہ وہ ممالک اور معاشرے ترقی کی سیڑیوں پر چڑتے ہوے نظر آرہے ہیں ان ممالک میں سے ایک ملک، اسلامی جمہوریہ ایران ہے۔

ایران میں کارآمد، کامل اور مترقی نظام حاکمیت رائج ہے ۔ایران میں رائج نظام حاکمیت کی چند اہم خصوصیات درج ذیل ہیں۔

1۔ ایران میں رائج نظام حاکمیت کا سر چشمہ وحی الہی( قرآن و سنت) ہے۔ قرآنی تعلیمات، انسان کے لئے مکمل ضابطہ حیات اور انسان کی دقیق خصوصیات کے مطابق کے مطابق ہیں۔ اور تعلیمات الہی خطا نا پذیر ہیں۔ اس لئے یہ نظام حاکمیت کامل ہے

2۔ اس نظام حاکمیت میں معیارات اور اصول دینی ہیں لیکن ان دینی معیارات اور اصول کی بنیاد پر آگاہانہ انتخاب کا حق عوام کو دیا گیا ہے۔ اسلامی یعنی معیارات اور اصول دینی ہیں۔ جمہوری یعنی مذکورہ دینی معیارات اور اصول کی کسوٹی میں انتخاب کا حق عوام کو حاصل ہے۔ اس لئے یہ نظام کا آمد ہے۔

3۔ اس نظام حاکمیت میں اعلی ترین ہدایت اور نظارت کے لئے ولی فقیہ کی رہنمائی موجود ہے۔ یعنی جامع الشرائط مجتہد( ولی فقیہ) کی رھبری میں یہ نظام رائج ہے اور آگھے بڑھ رہاہے۔ اس لئے یہ نظام حاکمیت ترقی پذیر ہے۔ اس نظام کی مضبوطی ، کار آمدی اور قانون مندی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ شہید رئیسی کی شہادت کے صرف ایک دن بعد نئے صدر کے انتخاب کے لئے نظام کی طرف سے الیکش کے شیڈول کا اعلان کیا گیا۔ انتے بڑے حادثے کے بعد ملک کے اندر حکومتی معاملات میں کوئی خلل واقع نہیں ہوا لوگوں کے روز مرہ معاملات بھی معمول کے مطابق کما فی السابق چلتے رہے۔ اور اطمئنان کے ساتھ اگلے مرحلے کی بھی منصوبہ بندی کی گئی۔

اس نظام حاکمیت کے تحت بر سر اقتدار آنے والا حاکم اگر اسی دائرے میں حکمرانی کرنے میں کامیاب ہوا تو اس کی حکمرانی کو قدر اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔

شہید جمہور آیت للہ رئیسی کی محبوبیت بھی اسی وجہ سے تھی کہ انہوں نے اپنے طرز حکمرانی میں ان تین خصوصیات کا خیال رکھا کہ جن کے تحت وہ خود منتخب ہوا تھا۔

شہید رئیسی کے لئے دینی نظام حاکمیت کی مضبوطی اور کار آمدی کو آشکار کرنا بہت ہی اہمیت رکھتا تھا۔ صدر رئیسی اور ان کے وزراء دینی نظام حاکمیت کی بنیاد پر بنائے گئے قوانین کی مکمل پاسداری اور نافذ کرنے کے لئے کوشاں رہے ہیں۔ اور قانون سے ہٹ کر کوئی اقدام کرنا تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ انہوں نے داخلی امور اور خارجی امور دونوں کی پالیس میں دینی معیارات اور اصول کی پاسداری کی۔

شہید رئیسی نے اپنے طرز حکمرانی میں عوامی متقابل حقوق خصوصا معاشرے کے کمزور اور محروم طبقات کے حقوق کی ادائگی مقدم کیا تاکہ طبقاتی فاصلے کو کم سے کم کیا جائے۔

یہیں وجہ تھی کہ وہ ملک کے چپے چپے خصوصا دور افتادہ علاقوں کا سفر کر کے ان کی مشکلات کو بر وقت بر طرف کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ انہوں نے انتخابات میں عوام کے ساتھ جو جو وعدہ کیا تھا ان کو پورا کرنے کے لئے شب و روز ایک کرکے تک و دو کیا۔ جس کی وجہ سے عوام نے ان سے روشن مستقبل کی امیدیں بادھی تھیں۔

شہید رئیسی کی ایک خوبی یہ تھی وہ مکمل مطیع ولایت فقیہ تھے ، ولایت فقیہ کے منشاء اور ترجیحات کے خلاف قدم نہیں اٹھاتے تھے۔ ہمیشہ ولایت فقیہ کی ہدایات اور رہنمائی میں اپنی حکمرانی کے معاملات کو آگھے بڑھا تے تھے ۔ انہوں نے ایران کے داخلی امور اور خارجی امور دنوں میں رہبریت کی مکمل پیروی کی اور عوامی و ملکی مفادات کو مد نظر رکھا۔

اسی لئے ان کی حکمرانی کامیاب اور دوسروں کے لئے رول ماڈل کے طورپر پیش کیا جارہاہے۔ ان کے دور حکومت میں بہت سارے شعبوں میں ایران کے داخلی مسائل اور مشکلات کو حل کرنے میں کامیابی ملی، اس مختصر تحریر میں ان سب موارد کو یہاں بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ ان کے طرز حکمرانی میں ایران کو بین الاقوامی سطح پر بھی پہلے سے زیادہ عزت ملی ہے،

شہید رئیسی وہ واحد جرئت مند اور غیرت مند مسلمان حکمران تھا کہ جس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرآن کو اپنے ہاتھوں سے بلند کرکے قرآن کی حرمت اور حقانیت سے دفاع کیا۔ شہید رئیسی وہ واحد غیرت مند مسلمان حکمران تھا کہ انہوں نے فلسطین کے متعلق جدہ میں منعقد ہونے والے او آئی سی کے سربراہی اجلاس میں فلسطین کے مجاہدین کی علامت چفیہ گلے میں بہن کر حاضر ہوا اور بین الاقوامی ہر پلیٹ فارم میں فلسطینی مظلوم عوام کے حقوق کا دفاع کیا۔

شہید رئیسی کے دور حکومت میں ہی طوفان الاقصی کے زریعے اسرائیل کی شکتست پذیری کا آغاز ہوا اور ایران کے وعدہ صادق نامی کامیاب حملے سے اسرئیل کی شکست پذیری تکمیل ہوگئی۔

صدر رئیسی اپنی روش ، منش، کردار و رفتار، طرز تفکر اور طرز حکمرانی میں ( اشداء علی الکفار رحماء بینھم) کے مصداق تھے۔

یہیں وجہ تھی کہ شہید رئیسی نہ فقط ایرانی عوام کے لئے محبوب سخصیت بن گئے تھے بلکہ بین الاقوامی سطح پر حق پرستوں، غیرت مندوں ، مستضعفوں اور آزاد منش لوگوں کے لئے بھی محبوب شخصیت بن کر ابھر چکے تھے۔ اور دوسری طرف سے صدر رئیسی کے طرز حکمرانی نے بین الاقوامی سطح پر ایران کے مقام کو بلند کیا اور ایران کی عزت میں اضافہ کیا۔ اب بین الاقوامی فیصلہ ساز اداروں میں ایران کو پہلے سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور ایران کو بین الاقوامی مسائل میں ایک موثر اور فیصلہ کن مقتدر ملک کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔

شہید رئیسی کا طرز حکمرانی، داخلی طور پر ایرانی عوام کے لئے ایک کامیاب اور کار آمد رول ماڈل بن چکا ہے اب ایران کا ہر شخص یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ اگر حاکم ہو تو سہید رئیسی جیسا حاکم ہو اگر حکمرانی ہوتو شہید رئیسی جیسی حکمرانی ہو۔ شہید رجائی کے بعد یہ دوسرا حاکم ہے کہ جس کی حکمرانی ایک بہترین رول ماڈل کے طورپر سامنے آچکی ہے۔ یہیں وجہ ہے کہ اب ایرانی عوام بعد میں آنے والے حاکم سے بھی رئیسی جیسی حکمرانی کی توقع رکھتے ہیں یعنی شہید رئیسی نے اپنی بہترین حکمرانی کے زریعے بعد میں منتخب ہونے والے حکمران سے عوامی توقعات کی سطح کو بڑھا دیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ آیا شہید رئیسی کے طرز حکمرانی کی خلاء کو بعد میں آنے والا حاکم پر کرسکے گا؟ میں نے پہلے ذکر کیاہے کہ ایران کا نظام حاکمیت کار آمد اور ترقی پذیر نظام ہے ۔ یہ نظام کسی شخص کے گرد نہیں گومتا ہے اس نظام کا ہدف شخص نہیں ہے بلکہ ہدف عوامی بھلائی اور معاشرتی ترقی ہے۔ نظام میں شخصیات آتی بھی ہیں اور جاتی بھی ہیں نظام کے اندر اقتدار کی گردش ایک فطری اور طبیعی عمل ہے۔ کار آمد اور ترقی پذیر نظام کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں گردش اقتدار کی وجہ سے کار آمد افرادی قوت کی تربیت ہوجاتی ہے البتہ گردش اقتدار اور تربیت کی سطح فرق کر تی ہے۔ دینی نظام حاکمیت کی خاصیت یہ ہے کہ اس اس کی مختلف سطح میں افرادی قوت کی تربیت ہوجاتی ہے اور بوقت ضرورت پیدا ہوجانے والی خلاء کو پر کردیتے ہیں۔ یہیں وجہ ہے کہ رہبر معظم انقلاب نے ہیلی کوپٹر حادثے کی خبر سننے کے بعد فرمایا: عوام پریشان نہ ہوجائیں اور مطمئن رہیں کہ نظام حکومت اور لوگوں کی روز مرہ زندگی میں کوئی خلاء نہیں آئے گا۔

بہر حال تربیت یافتہ افراد کی موجود گی سے خلاء پر ضرور ہوجائے گی لیکن کم و کیف میں فرق بھی ضرور آئے گا کیوں کہ کوئی ایک انسان دوسرے انسان کی طرح نہیں ہوتا ہے ہر انسان اپنی اپنی خصوصیات ہوتی ہیں ۔ ممکن ہے کہ شہید رئیسی جیسا ہی حاکم منتخب ہوکر خلاء کو پر کر دے یا ممکن ہے کہ ان سے بھی بہتر طرز حکمرانی رکھنے والی شخصیت منتخب ہوکر پہلے سے بھی بہتر حاکم عوام اور ملک کے لئے ثابت ہوجائے۔

اللہ تعالی شہید آیت اللہ رئیسی کے درجات کو متعالی فرمائے اور ان جگہ آنے والے نئے صدر کو بہتر طرز حکمرانی اپنانے کی توفیق دے۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

fifteen + eight =