تحریر۔ سجاد حسین آہیر
ایک عزیز دوست کے جملے
” آپ کا شدت سے انتظار کر رہا ہوں”
نے سوچنے پر مجبور کیا کہ
کیا انتظار شدید اور ضعیف ہو سکتا ہے؟
اس شدت اور ضعف کا سبب کیا ہوتا ہے؟
ان سوالات کے جوابات سے پہلے کلمہ انتظار پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
کلمہ انتظار حقیقت میں دو مفاہیم کو اپنے ضمن میں سموئے ہوئے ہے ایک ، کسی کمی اور فقدان کا احساس ، اور دوسرا ، اس کمی اور فقدان کے خلا کے پر ہونے کی امید
شعوری انتظار کے لیے “کمی و فقدان” اور جس کی “امید” ہے کا جاننا ضروری ہے اور اگر یہ جاننا ماننے میں تبدیل ہو جائے یعنی علم ایمان بن جائے تو انتظار میں شدت آجاتی ہے علم اگر میلان اور رجحان کو جہت و سمت دینے کے مرحلے پر پہنچ جائے تو ایمان بن جاتا ہے اور اگر یہ رجحان و میلان اس نقطہ پر پہنچ جائے کہ اعضاء و جوارح کو متحرک کردے تو عمل کا باعث بنتا ہے
علم و معرفت کی گہرائی اور عمق ایمان بنتی ہے اور ایمان جتنا راسخ تر ہوتا جاتا ہے انسانی بدن کو عمل پر مجبور کر دیتا ہے
جیسے جیسے موجودہ حالات میں موجود کمی کا علم دقیق تر ہوتا جائے گا تشنگی بڑھتی جائے گی اسی طرح اس کمی اور فقدان کے خلا کو پر کرنے والی نعمت کی معرفت عمیق تر ہوتی جائے گی امید اور تڑپ پر سوز تر ہوتی جائے گی بیتابی بڑھتی جائے گی یہ تشنگی اور امید میں شدت منتظر کو عمل پر اکساتی ہے
تشنگی کی سیرابی کے عوامل کی فراہمی اور موانع کی دوری کے اسباب فراہم کرنے کی حکمت عملی کو عملی جامہ پہنانے کی طرف قدم بڑھنے لگتے ہیں یعنی آنے والی نعمت کے لیے راستے ہموار کرنے کا نام شعوری انتظار ہے اور جیسے جیسے یہ علم ایمان میں تبدیل ہوتا جائے گا ایمان کی گہرائی عمل کا باعث بنے گی تو انتظار شدید تر ہوتا جائے گا۔
ہم بھی موجودہ معاشرتی حالات سے ناخوش ہیں اور ایک عظیم مصلح کی امید لگائے ہوئے ہیں
لیکن یہ انتظار ہمیں عمل پر نہیں اکسا رہی اس کا مطلب ہے ہمارا علم اور معرفت ایمان میں تبدیل نہیں ہوا اور اگر ایمان ہے تو اتنا راسخ نہیں ہے کہ ہمارے اعضاء و جوارح کو عمل کرنے پر مجبور کر دے ۔
اس مشکل کے حل کا واحد راستہ موجودہ حالات میں موجود کمی و فقدان اور اس کمی کو پر کرنے والی نعمت کی معرفت کو عمیق کرنا ہے تا کہ یہ معرفت ایمان میں تبدیل ہو جائے اور ایسا ایمان جو عمل کا باعث بنے تا کہ ہم صحیح معنوں میں منتظر بن سکیں۔