دسمبر 22, 2024

شام کے فاتحین اور شام کے آئندہ پر ایک طائرانہ نظر

تحریر: علی سردار سراج

شام میں جو کچھ ہوا وہ کیسے ہوا؟ اور شام کا آئندہ کیا ہوگا؟ یہ دو ایسے سوال ہیں جن کا درست جواب کچھ وقت کے بعد ہی ملے گا۔

لیکن جو بات فلحال قابل درک ہے وہ  یہ کہ سقوط دمشق ایک گہری سازش کا نتیجہ ہے ،جو کفر و نفاق کے جوڑ اور ان سطحی نگر مسلمانوں کی نافہمی کا نتیجہ ہے جن کے جہاد کا فتوی وہی سے صادر ہوتا ہے جہاں سے غزہ کی جنگ میں شمولیت پر حرمت کا فتوی جاری ہوتا ہے۔

اس پورے معرکے میں جو بظاہر پیروز میدان ہے وہ پہلے نمبر پر اسرائیل ہے، جس نے برملا اپنی فتح کا اعلان کیا اور بے لگام گھوڑے کی طرح اپنے اہداف کی طرف بڑھ رہا ہے۔

اس کے بعد ترکی کا نمبر آتا ہے جو اکثر خواب و بیداری میں خلافت عثمانیہ کا خواب دیکھتا رہتا ہے، اور گاہ بگاہ دبے لفظوں میں ہی صحیح ،اظہار  بھی کرتا ہے۔ مصر کے محمد مرسی کے بعد اردغان ہی اخوان المسلمین کا بے تاج بادشاہ ہے۔ اگرچہ قطر بھی اپنے آپ کو پیچھے دیکھنا نہیں چاہتا ہے۔

تیسرے نمبر پر وہ تکفیری گروہ ہیں جن کی قیادت سعودی عرب کے پاس ہوتی ہے۔

لیکن مصر، لبیا اور دوسرے عرب ممالک میں بہار عرب کے نام پر آزادی کی جو تحریکیں چلی تھیں ان پر گہری نظر رکھنے والے لوگ آسانی سے اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ شام کوئی ایسا نوالہ نہیں جسے کوئی آسانی سے نگل سکے۔

ہماری دعا اور خواہش یہی ہے کہ شام کے لوگوں کو ایک اچھا نظام اور بہتر حکومت ملے۔

لیکن زمینی حقائق کے پیش نظر اسکا انجام لبیا سے بہتر نظر نہیں آ رہا ہے۔

اس کی وجوہات بطور خلاصہ ذکر کرتے ہیں۔

1:عرب ممالک کے  بادشاہ و حکمران اپنے آس پاس موجود جمہوریتوں اور عوامی رائے سے منتخب ہونے والی حکومتوں کو اپنے لیے ایک تھدید اور خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں ان کی موجودگی میں، شام میں عوامی رائے کے ذریعے سے کسی جمہوری حکومت کا قیام محال عادی نظر آتا ہے؛ لہٰذا ہر گروپ کی یہ خواہش ہوگی وہ کسی بھی طریقے سے قدرت پر قابض ہو جائے۔

2: متحارب گروپ جو شام پر قابض ہوئے ہیں وہ مختلف الخيال لوگوں کا مجموعہ ہے ان کے اتحاد کا واحد سبب بشار اسد کی دشمنی تھی جس کے ختم ہونے کے بعد،ہر گروہ اپنی اصل کی طرف لوٹ جائے گا۔ اگر اخوان المسلمین کے ہم خیال لوگ طاقتور ہو جائیں اور حکومت ان کے ہاتھ میں جائے تو یہ بات قطر، حماس اور اردغان کے لیے خوش آئند اور قابل قبول ہوگی لیکن قطعا مصر، سعودی عرب، عرب امارات اور اسرائیل و امریکہ اس بات سے راضی نہیں ہونگے کیوں کہ یہ حماس کے ہم خیال ہونے کے ساتھ وہابی فکر کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہیں لہذا محمد مرسي کی حکومت بہت جلد اپنے انجام تک پہنچ گئی تھی۔

3: اگر تکفیری گروہ طاقتور ہو جائیں تو ممکن ہے سعودیہ اور امارات وغیرہ راضی ہوں لیکن اخوانی فکر کے حامیوں کے ساتھ امریکہ بھی راضی نہیں ہوگا، کیونکہ وہ ان کے ہاتھ میں اس حد تک قدرت دے سکتا ہے کہ وہ اس کے کنٹرول میں ہوں، زیادہ طاقتور ہونے کی صورت میں یہ خنجر اپنے صاحب کے خلاف بھی چل سکتا ہے۔

ان شواہد کو دیکھتے ہوئے  شام کا آئندہ بھی لبیا جیسا نظر آتا ہے۔ ( خداکرےایسا نہ ہو)

ترکی جو بظاہر فاتحین میں سے ہے اسکے حوالے سے یہ نکتہ قابل اغماض نہیں ہے کہ؛

پہلے سے ہی مہاجرین کی ایک بڑی تعداد ترکی میں موجود ہے جس کی وجہ سے پہلے سے کافی مسائل ہیں اگر شام کے اندر خانہ جنگی ہو جائے تو شام کی طرف مہاجرین کا مزید دباؤ بڑھ جائے گا، نیز ترکی اور شام میں موجود کرد اور علوی بھی ترکی کے لئے ایک تھدید کے طور پر سامنے آ سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ اردغان اور اس کے ہم خیال لوگوں کو اس بات کی ابھی پوری سمجھ نہیں ہے کہ امریکہ اور اس کے حواری اس پورے خطے میں کسی بھی بڑے طاقتور اسلامی ملک کے حق میں نہیں ہیں لہذا وہ ان ممالک کو نا امن کرنے کے ساتھ ان کو چھوٹے چھوٹے ممالک میں تقسیم کرنے کے درپے ہیں، اور کسی بھی ایسے لیڈر کے حق میں نہیں ہیں جس کی عوام میں مقبولیت ہو، اس لیے وہ جونہی کسی حاکم یا لیڈر کی عوام میں مقبولیت اور اس میں بلند پروازی کے آثار دیکھتے ہیں اس کے پر کاٹ دیتے ہیں لہذا سلطنت عثمانیہ کا خواب اردغان کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

نتیجہ یہی ہے کہ شام کے فتح کے شادیانے چاہیے کوئی بھی بجائے اس کا واقعی فائدہ اسرائیل کے ساتھ ان چوروں اور ڈاکوؤں کو ہوگا جو شام کے وسائل پر ڈھاکہ ڈالنے کے لیے شام کے منجی بن کر باہر سے داخل ہوئے ہیں ۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

seventeen − 2 =