دسمبر 17, 2024

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

تحریر: جاوید چودھری

شام میں بشار الاسد کی حکومت کؤں ختم ہوئی؟ اس کی تین بڑی وجوہات ہیں‘ پہلی اور سب سے بڑی وجہ گیس پائپ لائین ہے‘ روس دنیا میں قدرتی گیس پیدا کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے‘ یہ ہر سال پانچ سو چھیاسی بلین کؤبک میٹر گیس پیدا کرتا ہے جس کا 49 فیصد حصہ ؤرپ خرید لیتا ہے‘روسی گیس پائپ لائین کے ذریعے ترکی جاتی ہے اور پھر وہاں سے ؤرپ‘ آج سے تیس سال قبل قطر میں گیس کا بڑا ذخیرہ دریافت ہوگیا جس کے بعد قطر دنیا میں گیس پیدا کرنے والا چھٹا بڑا ملک بن گیا‘ یہ سالانہ ایک سو اکیاسی بلین کؤبک میٹر گیس پیدا کرتا ہے۔

قطر 27 لاکھ آبادی کا چھوٹا سا ملک ہے‘ گیس اس کی ضرورت سے ہزار گنا زیادہ ہے لہٰذا اس کے پاس فروخت کے علاوہ کوئی آپشن نہیں اور اس کا قریبی ترین خریدار ؤرپ ہے‘ دوسری طرف ؤرپ روس کی بلیک میلنگ سے تنگ تھا‘ اس نے سعودی عرب اور امریکا کی مدد سے قطر سے گیس پائپ لائین ؤرپ لانے کا فیصلہ کر لیا‘ اس سے یہ روس کی مسلسل بلیک میلنگ سے بھی آزاد ہو جاتا اور گیس کی قیمت بھی کم ہو جاتی‘ پائپ لائین قطر سے سعودی عرب‘ اردن اور شام سے ترکی پہنچنی تھی اور وہاں سے اس نے ؤرپ کی لائین کے ساتھ مل جانا تھا‘ امریکی کمپنؤں کے ساتھ سودا ہوا اور انھوں نے اردن تک پائپ لائین بچھا دی‘ یہ منصوبہ روس کے لیے ناقابل قبول تھا۔

اس نے بشار الاسد کو اشارہ کیا اوراس نے پائپ لائین شام سے گزارنے سے انکار کر دیا‘ قطر‘ سعودی عرب اور امریکہ بشارالاسد سے ناراض ہو گئے اور ان تینوں نے مل کر2011 میں داعش اور القاعدہ کو شام میں گھسا دیا‘ آپ یہاں یہ ذہن میں رکھیں‘ سعودی عرب‘ قطر اور امریکا اور داعش اور القاعدہ ایک دوسرے کے جانی دشمن ہیں لیکن جب ذاتی مفاد کا معاملہ آیا تویہ سب ایک دوسرے کے دوست بن گئے۔

سعودی عرب اور قطر نے مالی مدد دی اور امریکہ نے اسلحہ اور ان دونوں تنظیموں نے 2011میں شام کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تاہم روس اور ایران صدر بشارالاسد کی مدد کرتے رہے‘ اس مدد کی دو وجوہات تھیں‘ روس ہر صورت پائپ لائین روکنا چاہتا تھا اور یہ کام بشارالاسد کے بغیر ممکن نہیں تھا جب کہ ایران شیعہ ہونے اورحزب اللہ کی معاونت کی وجہ سے بشار الاسد کی سپورٹ کر رہا تھا‘ بہرحال شام کی خانہ جنگی دس لاکھ لوگوں کی جان لے گئی جب کہ 70 لاکھ لوگ بے گھر ہو گئے‘ قصہ مختصر دس سال کی لڑائی کے بعد پائپ لائین کا منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا اورشام میں امن ہو گیا لیکن پھر نومبر 2024 میں اچانک اس میں ایک نیا موڑ آیا اور بشار الاسد کی حکومت ختم ہو گئی۔

شام میں تبدیلی کی دوسری بڑی وجہ نان اسٹیٹ ایکٹرز یعنی دہشت گرد تنظیمیں ہیں‘ شام میں 2011 سے چھ بڑے اور خوف ناک ملیشیا کام کر رہے ہیں‘ پہلی ملیشیا القاعدہ ہے‘ یہ شروع میں القاعدہ تھی پھر یہ النصرہ فرنٹ بن گئی اور اب یہ حیات التحریر الشام کے نام سے کام کر رہی ہے‘ اسے در پردہ سعودی عرب‘ ترکی اور اسرائیل کی مدد حاصل ہے‘ دمشق اور حلب سمیت شام کے بڑے شہر اور علاقے اس وقت اسی کے قبضے میں ہیں۔

دوسری ملیشیا کا نام فری سیرین آرمی (ایف ایس اے) ہے‘ یہ تنظیم شامی فوج کے باغی جوانوں اور افسروں نے بنائی تھی اور اسے ترکی کی حمایت حاصل ہے‘ ترکی اسے اسلحہ بھی دے رہا ہے اور سرمایہ بھی‘ ترکی کے زیادہ تر بارڈر ایریاز اور شہر اس کے کنٹرول میں ہیں‘ تیسری ملیشیا داعش ہے‘ اسے عراق‘ سعودی عرب اور کسی حد تک امریکا کی حمایت حاصل ہے اور یہ شام کی عراقی سرحدوں پر قابض ہے‘ چوتھا ملیشیا احرارالشام ہے‘ اسے قطر کی سپورٹ حاصل ہے اور اس کا مقصد پائپ لائین کا علاقہ کلیئر کرنا ہے‘ پانچویں ملیشیا جیش الشام ہے‘ اسے سعودی عرب کی مکمل حمایت حاصل ہے اور یہ دمشق کے مضافات میں کام کر رہی تھی‘ روس نے اس کے خلاف خوف ناک آپریشن کیے تھے جس کے بعد اس کی لیڈر شپ ترکی میں پناہ گزین ہو گئی تھی اور چھٹی ملیشیا سیرین ڈیموکریٹک فورس ہے۔

یہ کردوں کی تنظیم ہے اور امریکہ اس کا سب سے بڑا معاون ہے‘ یہ شام میں دریائے فرات کے کنارے آباد تمام شہروں پر قابض ہے‘ اسے امریکا ائیرکور بھی دیتا ہے اور اس نے اس کے علاقوں میں اڈے بھی بنا رکھے ہیں‘ شامی حکومت اور فوج 13 سال سے ان چھ ملیشیائوں سے لڑ رہی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں روس اور ایران شامی فوج کی مدد کررہے تھے لیکن اس کے باوجود گرائونڈ پر صرف شامی جوانوں کو لڑنا پڑ رہا تھا اور شامی جوان 13 سال لڑ لڑ کر تھک چکے تھے اور ان میں اب مزید لڑنے کی سکت نہیں بچی تھی‘ آپ یہاں یہ بھی یاد رکھیں ہماری پاکستانی فوج کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے‘ ہماری فوج بھی 2007 سے مسلسل ملک کے اندر اور باہر لڑ رہی ہے اور ہمارے دشمن اس جنگ کے ذریعے اسے بھی شامی فوج کی طرح تھکا دینا چاہتے ہیں لہٰذا ہم نے اب یہ فیصلہ کرنا ہے ہم نے شام بننا ہے یا پھر متحد اور آزاد رہنا ہے؟

شام کی تباہی کی تیسری بڑی وجہ اسرائیل تھا‘ اسرائیل کو حماس اور حزب اللہ نے بے دست و پا کر رکھا تھا‘ حزب اللہ شیعہ مسلمانوں کی تنظیم ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں سنی‘ دروز اور عیسائی بھی شامل ہو گئے ہیں لہٰذا یہ کثیر المذہبی جماعت بن چکی ہے‘ اس کے پاس لبنان کی زمین‘ ایران کی نظریاتی اور جسمانی سپورٹ اور روس کی ٹیکنالوجی اور اسلحہ ہے اور اسے یہ ساری سہولتیں شام کے ذریعے ملتی ہیں‘ ایران اور روس اپنا اسلحہ‘ ٹیکنالوجی اور مجاہدین جہازوں کے ذریعے شام بھجواتے ہیں اور یہ زمینی راستے سے لبنان میں حزب اللہ کے ٹھکانوں پر پہنچ جاتا ہے اور بعد ازاں اسرائیل کے خلاف استعمال ہوتا ہے جب کہ حزب اللہ کے برعکس حماس کو مصر کی اخوان المسلمین کی حمایت حاصل ہے اور یہ سنی مسلمانوں کی جماعت ہے‘ اسرائیل کو ایک طرف سے حماس اور دوسری طرف سے حزب اللہ نے جکڑ رکھا تھا‘ مصری حکومت سردست اخوان المسلمین اور حماس کے خلاف ہے۔

مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے اخوان کے صدر محمد مرسی کو پھانسی کی سزا دے دے تھی‘ اسرائیل اس حقیقت سے واقف ہے لہٰذا اس نے حماس کا زور توڑنے کے لیے اکتوبر 2023 میں غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے‘ دوسری طرف اس نے 28ستمبر 2024 کو بیروت میں حزب اللہ کے ہیدکوارٹر پر حملہ کر کے اس کے سربراہ حسن نصراللہ کو شہید کر دیا‘ اسرائیل نے اس دوران ایران پر بھی براہ راست حملے کر دیے‘ پیجرز اور واکی ٹاکیز کے بلاسٹس کے ذریعے بھی حزب اللہ کے 33کارکن شہید اورچار ہزارزخمی کر دیے گئے لیکن اس کے باوجود حماس اور حزب اللہ ابھی تک اسرائیل کے لیے خطرہ ہیں‘ اسرائیل سمجھتا ہے یہ جماعتیں کسی بھی وقت ہمیں خوف ناک نقصان پہنچا سکتی ہیں اور یہ خدشہ غلط نہیں ‘ حزب اللہ اور حماس میں یہ پوٹینشل موجود ہے۔

روس اس ساری صورت حال میں ایران اور شام کا سب سے بڑا سپورٹر تھا اور اس سپورٹ کا حماس اور حزب اللہ کو فائدہ ہو رہا تھا لیکن بدقسمتی سے یہ یوکرائن میں پھنس گیا‘ اس کی فوج کا 70فیصد حصہ اور بڑے معاشی وسائل یوکرائن میں خرچ ہو رہے ہیں لہٰذا سردست یہ کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑ سکتا‘ اسرائیل یہ بھی جانتا ہے 20 جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ حلف اٹھا لے گا اور ؤکرائن میں جنگ بندی اس کا پہلا ٹاسک ہو گا‘ جوبائیڈن کے مقابلے میں ڈونلڈ ٹرمپ روسی صدر پؤٹن کے زیادہ قریب ہیں‘ یہ انھیں ؤکرائن جنگ کے خاتمے پر راضی کر لیں گے اور اس کے بعد روس کے پاس شام کے لیے وقت بھی ہو گا اور وسائل بھی اور اس سے ایران‘ شام اور حزب اللہ تینوں مضبوط ہو جائیں گے۔

اسرائیل کے پاس صرف 20 جنوری تک کا وقت ہے چناں چہ اس نے اپنے سارے وسائل استعمال کیے اور دس دنوں میں بشار الاسد کی حکومت بھی ختم کر دی اور جن راستوں سے حزب اللہ کو اسلحہ‘ مجاہد اور سرمایہ ملتا تھا اس نے وہاں مخالف ملیشیا کو بھی کھڑا کر دیا‘ دوسرا اسرائیل نے ایک ہی رات میں گولان کی پہاڑؤں کے شامی حصے پر بھی قبضہ کر لیا جس کے بعد اسرائیلی فوج‘ توپیں اور ٹینک دمشق سے صرف چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر رہ گئے ہیں جس کے بعد اسرائیل جب بھی دمشق پر گولہ باری کرے گا پورا شہر آٹھ گھنٹوں میں قبرستان بن جائے گا۔

اب سوال یہ ہے اب کیا ہو گا؟ اسرائیل اب حزب اللہ اور حماس کو پیس کر رکھ دے گا جس کے بعد غزہ اور لبنان دونوں ملبے کا ڈھیر بن جائیں گے‘ شام بھی اب کبھی قدموں پر کھڑا نہیں ہو سکے گا‘ میرا خدشہ ہے ملک کو اس وقت چھ بڑے ملیشیاز نے آپس میں تقسیم کر رکھا ہے‘ اسرائیل چاہے گا یہ ملیشیاز آپس میں لڑیں جس کے بعد شام میںخانہ جنگی شروع ہو جائے گی اور اس خانہ جنگی کے بعد شام تین چار ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے گا‘ دوسرا سوال ہے عالم اسلام کا اس پر کیا ردعمل ہو گا؟ اس کا سیدھا اور سادہ جواب ہے عالم اسلام خاموش رہے گا‘ کیوں؟ اس کی بھی دو وجوہات ہیں‘ عرب دنیا حماس اور حزب اللہ کو کام یاب نہیں دیکھنا چاہتی‘ عربوں کو خدشہ ہے اگر یہ لوگ کام یاب ہو گئے تو پھر ان کا انقلاب پوری عرب دنیا کو متاثر کرے گا اور ؤں ان کی بادشاہت ختم ہو جائے گی اور دوسری وجہ گیس پائپ لائین ہے۔

اگر شام میں فساد ہو گا اور ملک ٹوٹ جائے گا تو گیس پائپ لائین کے بینی فیشری ایک لمبی پٹی کاٹ کر  اس میں اپنی حکومت بنائیں گے‘ اس سے پائپ لائین گزاریں گے اور سالانہ اربوں ڈالر کمائیں گے اور اب آخری سوال یہ ہے کیا روس اس پائپ لائین کو برداشت کر لے گا؟ میرا خیال ہے یوکرائن وار نے اسے تھکا دیا ہے لہٰذا یہ چند برس خاموش بیٹھے گا اور اس کی خاموشی سے شام کی رات گہری ہوتی چلے جائے گی تاہم مجھے خطرہ ہے اسرائیل کہیں 20 جنوری سے پہلے ایران پر بھی حملہ نہ کر دے اور اگر ایسا ہو گیا تو پھر تیسری عالمی جنگ دور نہیں رہے گی‘‘۔

 

بشکریہ ایکسپریس

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

16 − twelve =