تحریر: علی احمدی
جیسے ہی حزب اللہ لبنان اور اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم میں جنگ بندی طے پائی، شام میں موجود تکفیری دہشت گرد عناصر نے تحریر الشام (سابقہ النصرہ فرنٹ) کے پرچم تلے اکٹھے ہو کر “فتح المبین” اتحاد تشکیل دیا اور ترکی کی سرحد سے ملحقہ شام کے صوبے ادلب سے صوبہ حلب کی جانب چڑھائی شروع کر دی۔ تکفیری ٹولے کی جانب سے حلب کے شمالی اور شمال مغربی علاقوں میں تیزی سے پیشقدمی کرنے کی ایک بڑی وجہ لبنان جنگ ہے جس کے باعث حزب اللہ لبنان کی زیادہ تر فورسز ادلب کا محاذ ترک کر کے لبنان جا چکی ہیں۔ دوسری طرف یوکرین جنگ کے باعث روس آرمی بھی شام میں اپنے بیشتر فوجی ٹھکانے خالی کر کے جا چکی ہے۔ شام کے صوبے لاذقیہ کے جنوب مشرق میں روس کا ایک بڑا فوجی اڈہ موجود ہے جو حمیمیم اڈے کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یہ وہ حقائق تھے جن پر مغربی طاقتوں کی بھی نظر تھی۔ شام میں تکفیری ٹولے کے دوبارہ سر اٹھانے کی ایک اور وجہ لبنان میں غاصب صیہونی رژیم کی شکست ہے۔ صیہونی حکمرانوں نے لبنان جنگ میں شکست کھانے کے بعد دمشق پر دباو بڑھانے کی غرض سے ترکی اور شام کے حکومت مخالف گروہوں کو حلب پر حملے کی سبز جھنڈی دکھا دی۔ اس کا ایک مقصد شام کے ذریعے حزب اللہ لبنان کی لاجسٹک سپورٹ ختم کرنا ہے۔ موجودہ حالات میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا تکفیری دہشت گرد اور شام کے حکومت مخالف گروہ، خطے پر حکمفرما حالات کے پیش نظر موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک بار پھر خانہ جنگی کی آگ جلانا چاہتے ہیں؟ یا ان کی حامی بیرونی طاقتیں صرف انہیں ایک کارڈ کے طور پر استعمال کر کے دمشق سے مزید مراعات حاصل کرنے کے درپے ہیں؟
رائے عامہ کی نظر میں حلب کا شہر، گذشتہ خانہ جنگی کے دوران تکفیری دہشت گرد عناصر کے خلاف شام آرمی کی فتح کی علامت ہے۔ حلب، شام کی اقتصاد کا مرکز ہے جس کی آبادی 20 لاکھ کے قریب ہے۔ یہ شہر مختلف صنعتی مراکز کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ، مشرق سے مغرب کریڈور کے بحیرہ قلزم سے رابطے کے لیے اسٹریٹجک پوزیشن کا حامل بھی ہے۔ تکفیری دہشت گرد عناصر کی جانب سے ٹی 5 ہائی وے پر قبضہ کرنے کی کوشش سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی حامی بیرونی طاقتیں حلب اور دمشق میں رابطہ کاٹ دینا چاہتی ہیں۔ اس وقت تکفیری ٹولہ یہ دعوی کر رہا ہے کہ اس نے حلب کے 20 محلوں پر قبضہ کر لیا ہے اور النبل، الزہرا جیسے علاقے بھی اپنے کنٹرول میں لے چکا ہے جبکہ حلب سیکریٹریٹ، مرکزی چوکی اور ابو ظہور فوجی ایئرپورٹ بھی ان کے قبضے میں ہے۔
المیادین نیوز چینل نے رپورٹ دی ہے کہ تکفیری دہشت گرد حلب صوبے کے 60 فیصد حصے پر قابض ہو چکے ہیں۔ شام آرمی نے فضائیہ کی پشت پناہی میں تکفیری دہشت گرد عناصر کے خلاف جوابی کاروائیوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور کچھ مقبوضہ علاقوں کو بھی آزاد کروا لیا ہے۔ شام آرمی سے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ گذشتہ 48 گھنٹوں کے دوران انجام پانے والے حملوں میں اب تک 1 ہزار سے زیادہ تکفیری دہشت گرد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ دسیوں دہشت گرد زندہ گرفتار بھی ہوئے ہیں۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ تکفیری دہشت گرد اب مزید پیشقدمی کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ البتہ اگر ترکی سے انہیں لاجسٹک سپورٹ جاری رہی تو وہ مزید پیشقدمی کی کوشش جاری رکھیں گے۔
تکفیری دہشت گرد عناصر کو امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے فوجی اور انٹیلی جنس مدد بھی حاصل ہے۔ 2018ء میں جب شام میں تکفیری دہشت گردوں کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا تو وہ ترکی کی سرحد سے ملحقہ صوبہ ادلب میں محصور ہو کر رہ گئے تھے۔ اس وقت جب اسلامی مزاحمتی محاذ ایک طرف اور روس دوسری طرف اپنی اپنی جنگوں میں مصروف ہیں تو ان تکفیری دہشت گردوں کو ایک بار پھر سر اٹھانے کا موقع مل گیا ہے۔ کچھ علاقائی ممالک بھی ان تکفیری دہشت گرد گروہوں کو مالی اور فوجی امداد فراہم کرنے میں مصروف ہیں۔ غاصب صیہونی رژیم وہ اہداف ان تکفیری دہشت گرد گروہوں کے ذریعے حاصل کرنا چاہتا ہے جنہیں وہ لبنان جنگ میں حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ لبنان جنگ میں صیہونی حکمرانوں کا اہم مقصد لبنان اور شام کے درمیان ایک سیف زون قائم کرنا تھا تاکہ یوں حزب اللہ لبنان کی لاجسٹک سپورٹ بند کی جا سکے۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ شام کا ہمسایہ ملک ترکی اس تکفیری فتنے میں بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ترکی نے 2011ء کے تکفیری فتنے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا اور تکفیری دہشت گردوں کو بھرپور فوجی، مالی اور انٹیلی جنس مدد فراہم کی تھی۔ اب بھی ترکی نے اپنی سرحدیں تکفیری دہشت گردوں کے لیے کھول رکھی ہیں اور ازبک اور ترکستانی تکفیری دہشت گرد ترکی کے راستے ہی شام میں داخل ہو رہے ہیں۔ اگرچہ تکفیری دہشت گرد عناصر اور ان کی حامی قوتوں نے موجودہ یلغار کا مقصد حلب، حما، ادلب وغیرہ پر قبضہ بیان کیا ہے لیکن یوں دکھائی دیتا ہے کہ اس جارحیت کا اصل مقصد اسلامی مزاحمتی بلاک کو شام سے نکال باہر کرنا اور حزب اللہ لبنان سے اس کا رابطہ منقطع کرنا ہے۔ غاصب صیہونی رژیم بھی اس طرح خطے میں طاقت کا توازن اپنے حق میں تبدیل کر دینا چاہتا ہے۔