تحریر: محمد افضلی
شام میں تکفیری دہشگ گرد گروہوں کی جانب سے حلب پر یلغار اور شام کے شمالی مشرقی علاقوں میں جھڑپوں کے آغاز نے ایک نئے بحران کے آغاز کی گھنٹی بجا دی ہے۔ یہ اقدام ترکی اور روس کے درمیان طے پانے والے معاہدوں نیز آستانہ مذاکرات کے خلاف ہے اور ترکی کی جانب سے روس اور اسلامی مزاحمت سے واضح غداری ہے۔ لیکن یہ اصل کہانی کا صرف ظاہری چہرہ ہے جبکہ زمین حقائق کا گہرائی سے جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ شام میں اس نئے بحران کا حقیقی معمار، غاصب صیہونی رژیم ہے جس نے لبنان میں جنگ بندی کے فوراً بعد یہ کھیل کھیلا ہے۔
شام میں صیہونی رژیم کی فتنہ انگیزی کی علامات
زمینی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم نے اپنے وجود کو درپیش حالیہ خطرے سے بچنے کے لیے بحران برآمد کرنے کی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے۔
صیہونی رژیم، خطے کے مختلف حصوں میں بحرانی حالات پیدا کر کے خود کو بحران سے نجات دلانا چاہتا ہے جبکہ اسلامی مزاحمت کو نئے بحرانوں کا شکار کرنے کے درپے ہے۔
کینسٹ کے اجلاس میں نیتن یاہو کی تقریر
جب صیہونی رژیم کے سابق وزیر جنگ، یوآو گالانت نے صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو ایران پر جارحیت پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اس پر ایک بیہودہ کام انجام دینے کا الزام لگایا تو نیتن یاہو نے اسے برطرف کرنے سے پہلے کینسٹ (صیہونی پارلیمنٹ) میں خزاں کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا: “مجھے کہتے ہیں کہ میں جنگ میں بے مقصد اقدامات انجام دیتا ہوں، ہمارا ہدف واضح ہے اور وہ اسرائیل کے جنوب اور شمال میں ایران کے بازو کاٹنا اور ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنا ہے۔” نیتن یاہو نے اس تقریر میں فلسطین کے جنوب اور شمال میں ایران کے اتحادیوں پر ضرب لگانے کی بات کی تھی۔
فلسطین کے جنوب میں ایران کی اتحادی قوت، غزہ کی پٹی میں موجود اسلامی مزاحمت کی فلسطینی تنظیمیں اور گروہ ہیں۔ ان میں سے سب سے بڑا اور طاقتور گروہ حماس ہے۔ البتہ نیتن یاہو نے فلسطین کے شمال میں ایران کے جن اتحادیوں اور بازووں کی بات کی ہے اسے سمجھنے کے لیے تھوڑی توجہ اور وضاحت کی ضرورت ہے۔ غاصب صیہونی رژیم نے 2015ء میں اپنی فوجی حکمت عملی سے متعلق ایک سرکاری دستاویز شائع کی۔ اس دستاویز میں صیہونی بستیوں پر مشتمل اندرونی محاذ کے علاوہ دیگر ایسے چار محاذوں کا ذکر کیا گیا ہے جہاں ٹکراو اور جنگ کا احتمال پایا جاتا ہے: جنوبی محاذ جو غزہ کی پٹی پر مشتمل ہے؛ مغربی کنارے کا محاذ جس میں مغربی کنارے کے تمام فلسطین نشین علاقے شامل ہیں؛ شمالی محاذ جو لبنان اور شام پر مشتمل ہے؛ اور آخرکار ایران کا محاذ۔
جیسا کہ ظاہر ہے، غاصب صیہونی رژیم نے شمالی محاذ کو لبنان اور شام پر مشتمل پیش کیا ہے۔ اس دستاویز کی اشاعت سے پہلے غاصب صیہونی رژیم کی ڈاکٹرائن میں شمالی محاذ سے مراد صرف لبنان تھا۔ لیکن مذکورہ بالا دستاویز کے بعد صیہونی حکمرانوں کی نظر میں شام بھی شمالی محاذ کا حصہ بن چکا ہے۔ بنجمن نیتن یاہو نے اپنی تقریر میں فلسطین کے شمال میں جن ایرانی اتحادیوں کا ذکر کیا اور ان سے مقابلہ ضروری قرار دیا، ان میں صرف لبنان شامل نہیں بلکہ شام بھی شامل ہے۔ لہذا، اس نئی حکمت عملی کی روشنی میں صیہونی حکمرانوں کی جانب سے لبنان کے بعد شام کا رخ کرنا بہت واضح اور فطری عمل ہے۔ دوسری علامت، شام میں حالیہ بحران شروع ہونے کے وقت سے سمجھی جا سکتی ہے۔ شام کے صوبہ ادلب میں موجود تکفیری دہشت گرد گروہوں نے صوبہ حلب کی جانب ٹھیک اس وقت یلغار کا آغاز کیا جب صیہونی رژیم اور حزب اللہ لبنان میں جنگ بندی طے پائی۔
آخری علامت، جس سے پورا یقین ہو جاتا ہے کہ شام میں حالیہ تکفیری فتنے کے پیچھے صیہونی رژیم کا ہاتھ ہے، یہ ہے کہ لبنان جنگ کے دوران صیہونی جنگی طیاروں نے لبنان اور شام کے درمیان تمام راستوں پر شدید بمباری کی اور یوں یہ یقین حاصل کر لیا کہ شام میں تکفیری فتنہ شروع ہونے پر حزب اللہ لبنان موثر انداز میں شام تک رسائی حاصل نہیں کر پائے گی۔ چونکہ حزب اللہ لبنان نے ماضی میں شام میں تکفیری ٹولے کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا ہے، لہذا صیہونی رژیم نے اس اقدام کے ذریعے تکفیری ٹولے کو حزب اللہ لبنان کے خلاف ایک طرح کا تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔
شام کے خلاف نیتن یاہو کی دھمکی
گذشتہ چند ہفتوں کے دوران اور لبنان سے جنگ بندی سے پہلے، صیہونی حکمران بارہا شام کو فوجی حملے کی دھمکی دے چکے تھے۔
ایک رپورٹ کے مطابق نیتن یاہو نے شام کے صدر بشار اسد کو پیغام بھی بھیجا تھا جس میں دھمکی دی گئی تھی کہ وہ آگ سے مت کھیلے۔ یہ رپورٹ شام میں حالیہ تکفیری فتنے کے آغاز سے چند گھنٹے پہلے ہی سامنے آئی ہے۔ واضح ہے کہ اس دھمکی کا مقصد شام کو یہ بتانا تھا کہ اگلا نشانہ تم ہو۔
تکفیری دہشت گردوں کی صیہونی رژیم سے ہم آہنگی
جب سے شام میں تکفیری فتنے کا آغاز ہوا ہے، غاصب صیہونی رژیم تکفیری دہشت گرد عناصر کی بھرپور مدد اور حمایت کرتی آئی ہے۔ حتی زخمی تکفیری دہشت گرد اسرائیلی اسپتالوں میں زیر علاج رہے ہیں۔ تکفیری دہشت گرد گروہوں کے بیانات سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی رژیم کے ساتھ ان کی مکمل ہم آہنگی اور یکجہتی پائی جاتی ہے۔