نومبر 23, 2024

سید النبیین کی رسالت کا ٹکڑا، سیدہ نساء العالمین، ابتر کے طعنے کا جواب، مصداق کوثر یعنی فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا 

تحریر: کوثر عباس قمی

حمد ہے اس رب ذوالجلال کی جس نے محمد و آل محمد جیسی مخلوق تخلیق کرکے اپنی پہچان کرائی مدح و ثنا ہے اس پاک رسول کی جو قاب قوسین کی منزل تک پہنچے اور مقام محمود کا رتبہ پایا

لاکھوں درود و سلام اس ھستی پر جو عبد و معبود کے درمیان گفتگو کا وسیلہ اور ذریعہ بنا لیکن اس وقت نو ک قلم پہ تذکرہ ہے اس بی بی کا کہ اگر علی نہ ہوتے تو حضرت آدم تک جس کا کوئی کفو (ہم پلہ) نہ تھا

ہر بیٹی اپنے باپ کے لیے رحمت ہوتی ہے زھراء سلام اللہ علیہا وہ بیٹی ہیں ج اپنے رحمت اللعالمین باپ کے لئے رحمت ہے

اگر جنت ماں کے قدموں تلے ہے تو جنت کے سرداروں اور وارثوں حسنین شریفین کی اپنی جنت زہراء کے قدموں میں ہے

فاطمہ الزہراء وہ بی بی ہیں جس کے کتابوں نے 135 القاب ذکر کیئے ہیں آسمانوں میں آپ کو فاطمہ، صدیقہ، مبارکہ، طاھرہ، زکیہ، رضیہ، مرضیہ، محدثہ، کے ناموں سے پکارا جاتا ہے

ف ا ط م ہ

یعنی اپنے پیروکاروں کو دوزخ کی آگ سے چھڑانے والی اور اسی طرح فاطمہ کا ایک معنی ہے علیحدہ، دور

یعنی جسے خدا نے ہر طرح کے رجس سے دور رکھا ہو

جناب فاطمہ الزہراء کا نور منفرد انداز سے جبین رسول میں منتقل ہوا پاک رسول کا اپنے بارے میں ارشاد ہے کہ ہمارا یعنی میرا اور علی کا نور مختلف انبیاء کی پاک جبینوں سے ہوتا ہوا حضرت عبدالمطلب تک پہنچا

پھر دو حصوں میں تقسیم ھوا ایک جبین حضرت عبداللہ میں منتقل ہوا جو حضرت آمنہ کے صدف عصمت کے ذریعے دنیا میں جلوہ گر ھوا محمد کہلایا

ایک حضرت ابوطالب علیہ السلام کی جبین میں منتقل ھوا حضرت فاطمہ بنت اسد کے صدف عصمت کے ذریعے جلوہ گر ھوا اور علی کہلایا مگر میں جب معراج پہ گیا تو مجھے ایک سیب دیا گیا جو میں نے کھایا

اس سیب میں نور فاطمہ تھا جو میری جبین میں منتقل ہوا یہی وجہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب فاطمہ کو ریحانہ الرسول کہا کرتے

فرماتے میں جب بھی جنت کے سیب کی خوشبو سونگھنا چاھتا ہوں تو زھراء کے ھاتھوں کا بوسہ لے لیتا ہوں

جب حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شادی کی توعرب کی عورتیں جناب خدیجہ کو کہتیں کہ آپ نے ایک یتیم اور ظاہری مال و دولت سے محروم شخص سے شادی کرلی ہے اسی بنا پر وہ آپ سے علیحدہ ہو گئیں تو حضرت خدیجہ کو تنہا دیکھ کر پاک رسول نے فرمایا خدیجہ آپ تنہائی میں پریشان تو ہوتی ہوگی تو آپ نے فرمایا نہیں یا رسول اللہ جو روح میرے صدف عصمت میں ہے وہ خدا کی تسبیح بھی کرتا ہے اور میرے ساتھ تنہائی میں باتیں بھی وہی میرا مونس و غم خوار ہے تو آپ نے فرمایا جانتی ہیں وہ کون ہے؟ وہ میرا نور نظر

وہ محدثہ

میری بیٹی فاطمہ ہیں جو تسبیح کرتی ہیں اور آپ سے باتیں بھی کرتی ہیں

وہ بی بی فاطمہ کہ جس کے نور کے ظہور کے وقت کوئی عام بیبیاں جناب خدیجہ کے پاس نہیں تھیں بلکہ کائنات کی عورتوں میں سے افضل ترین خواتین مونس و غمخوار بن کے آئیں

حضرت حوا

حضرت مریم

حضرت موسی کی بہن

کلثوم

حضرت فاطمہ تفسیر سورہ کوثر ہیں جب کفار نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابتر کہا

کہنے لگے آپ کا بیٹا تو ہے کوئی نہیں آپ جب اس دنیا سے جائیں گےتو دین کی حفاظت کرنے والا تو ہو گا کوئی نہیں لھذا دین ختم ہوجائے گا تو خدا نے ان کے طعنے کا جواب انا اعطیناک الکوثر کہہ کے دیا یعنی جناب زھراء کی اولاد، اولاد رسول قرار پائی اور زھراء کوثر

اور دین کی حفاظت کا انتظام زہرا کی اولاد میں سے گیارہ ائمہ اور زہرہ کے شوہر علی ابن ابی طالب کے ذریعے ہو گیا

ولسوف یعطیک ربک فترضی

یوں خدا نے رسول ص کو وہ چیز عطا کردی جس سے رسول راضی ہوئے

اب رسول ص کو فکر نہیں

رسول کے لائے ہوئے دین کے محافظ اولاد زھراء سے ہوں گے

فاطمہ خود نبی کریم ص کے لییے بضعہ الرسول ہیں یعنی بابا کی رسالت کا ٹکڑا

نسل ہمیشہ بیٹے سے چلتی ہے مگر خدائے ذوالجلال نے اپنے حبیب کے لیے یہ خصوصیت رکھی کہ آپ کی بیٹی سے ہونے والی اولاد کو اولاد رسول قرار دیا اور آیت مباہلہ میں حسنین شریفین کو اسی طرح رسول کے بیٹے قرار دیا جس طرح رسول کی بیویوں کو مومنوں کی ماں قراردیا حالانکہ خود قرآن ہی کہتا ہے کہ مائیں تو وہ ہوتی ہیں جنہوں نے جنا ہو لیکن قرآن جو رشتہ بنائے بن جاتا ہے جو توڑے ٹوٹ جاتا ہے اس لئے کہ یہ رشتے خدا کے بنائے ہوئے ہیں محض تکلفاتی یا منہ بولے رشتے نہیں ہیں جناب سیدہ صلوات اللہ علیہا دراصل خدا کی طرف سے ایک ایسا انعام ہے جو کافروں کے ابتر کے طعنے کا جواب ہے خدا نے کوثر کہہ کے بتا دیا کہ میرے رسول کی ایسی اولاد ہوگی جس میں شر نہیں بلکہ ایسی کثرت ہو گی جس میں خیر ہی خیر ہوگی

بعض لوگ یہاں پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر ایسا ہے تو خدا نہیں یہاں جناب سیدہ کا نام کیوں نہیں لیا آپ اگر قرآن مجید کی آیات میں غور کریں تو قرآن نے بہت ساری بیبیوں کا تذکرہ کیا ہے مگر ان کا نام نہیں لیا

جیسے حضرت حوا حضرت آسیہ

حضرت زلیخا

حضرت سارہ

اور حضرت بلقیس کا تذکرہ کیا مگر ان کے نام نہیں لئے

اسی طرح زوجہ حضرت ذکریا

زوجہ حضرت ایوب زوجہ حضرت موسی اور زوجہ حضرت نوح و حضرت لوط

ان سب کا قرآن نے تذکرہ کیا مگر نام لیے بغیر اور سب مفسرین یہ بات تسلیم کرتے ہیں

دوسری بات یہ ہے کہ کثرت ذکر معیار فضیلت ہوتا ہے کثرت اسم نہیں

قرآن مجید میں سب سے زیادہ حضرت موسی کا نام آیا ہے اور پاک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام صرف چار مقامات پر

تو کیا اس طرح حضرت موسی افضل قرار پائیں گے؟؟

پہلے نبی سے حضرت عیسی تک ساری دنیا اس کوشش میں ہے کہ خدا راضی ہو جائے لیکن خدا اپنے حبیب کو مخاطب کرکے کہتا ہے میرے حبیب عنقریب تجھے وہ کچھ دوں گا جس سے تو راضی ہوجائے گا

نبوت سے لے کر مشیت تک اپنے حبیب کو کیا نہیں دیا تو ایسی کون سی شے ہے جو ابھی دینی ہے؟

دے گا تو رسول راضی ہو جائیں گے؟

جب حضرت امام رضا علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ خدا نے کیا دیا جس پر پاک رسول راضی ہوئے تو آپ نے فرمایا جب آپ کو زھراء جیسی بیٹی عطاکی تو آپ راضی ہوئے اس لیے کہ فاطمہ حجاب وحدت ہیں

یہی وجہ ہے کہ جب حضرت امام جعفر صادق سے پوچھا گیا کہ پاک رسول جناب سیدہ کا کھڑے ہو کر احترام کیوں کرتے تھے جبکہ باپ کی حیثیت سے رشتے میں وہ بڑے تھے تو آپ نے فرمایا یتیم ہونا رسول کے لئے عیب نہیں بلکہ آپ کی صفات میں سے ایک ہے 99 ناموں میں سے آپ کا بطور صفت ایک نام ہے

اس لیئے کہ اگرآپ کے والدین زندہ ہوتے تو آپ کو ان کے احترام کے لیے کھڑا ہونا پڑتا تو خدا نے یہ نہیں چاہا کہ مخلوق کا حق رسول پر واجب قرار پائے تو اگر پاک

بی بی س کے احترام کو اٹھ رہے ہیں تو اس سے پتہ چلتا ہے یہ کوئی عام مخلوق نہیں بلکہ چونکہ رسالت کا ٹکڑا ہیں

نبی کریم مرد ہیں جب عملی طور پر نمونہ عمل کی بات آئے گی تو آپ مرد ہو کر کیسے نمونہ عمل بنیں گے؟ لھذا اس حصے کی تکمیل کا نام فاطمہ ہے یعنی بحیثیت

بیٹی

بحیثیت بیوی

اور بحیثیت ماں

رسول ص کی نمائندہ اور تکمیل کنندہ ہیں

اور اسی مفہوم کو قرآن نے نساءنا کہہ کے بیان کیا ہےلھذا رسول ص محض بیٹی کے احترام میں کھڑے نہیں ہو رہے اپنے منصب رسالت کے ایک حصے کے احترام میں کھڑے ہو رہے ہیں

چشم فلک نے یہ منظر بھی دکھلایا کہ نبی کریم ص کی وفات کے بعد نبی کریم کاابھی کفن بھی میلا نہیں ہوا تھا کہ نبی کریم کی یہ عظیم بیٹی بابا کی قبر پہ کھڑی یہ بین کرتی نظر آئی

بابا آپ کے بعد مجھ پہ مصیبتوں کے وہ پہاڑ ٹوٹے کہ اگر دن پہ پڑتے تو وہ سیاہ راتوں میں بدل جاتے

زھراء پہ بابا کی وفات کے بعد وہ ظلم ہوئے کہ بروایتے 75 دن یا 90 دن کے بعد نبی کریم سے ملحق ہو گئیں

سیدہ سلام اللہ علیہا کی وصیت کے مطابق آپ کے لییے ایک خاص قسم کا تابوت تیار کیا گیا رات ہی کو غسل و کفن ہوا اور وصیت کے مطابق رات کو ہی مولاۓ کائنات نے جنازہ پڑھا کے دفن کیا

وصیت کے مطابق صرف 7 اصحاب پیغمبر جنازہ میں شریک ہوئے

اگرچہ مشہور یہ ہے کہ آپ کی قبر جنت البقیع میں ہے مگرزھراء کہاں دفن ہوئیں؟ کسی کو معلوم نہیں

اس لیئے کہ روایات میں ہے کہ مولا امیر نے کئی جگہ قبر بنائی اور پھر قبر کے نشان مٹا دیئے

ایسا کیوں ہوا اس کا جواب جاننے کے لییے تاریخ کی کتابوں کی طرف رجوع کریں

جناب سیدہ کی موت نے علی ابن ابی طالب کو سخت رنجیدہ خاطر کیا اس کا اندازہ جناب امیر کے ان اشعار سے لگایا جاسکتا ہے جو تدفین کے بعد آپ نے جناب سیدہ کی قبر پر کھڑے ہو کر پڑھے

لکل اجتماع من خلیلین فرقہ

وکل الذی دون الممات قلیل

وان افتقادی واحدا” بعد واحد

دلیل علی’ ان لایدوم خلیل

اکھٹے رہنے والے دو دوستوں کو ایک نہ ایک دن جدا ہونا ہے

اور موت کے سوا تو ہر چیز (کی پریشانی) تھوڑی ہے

اور میرے پیاروں کا یکے بعد دیگرے جدا ہو جانا اس بات کی دلیل ہے کہ دنیا میں ” کسی” دوست نے بھی ہمیشہ باقی نہیں رہنا.

 

 

 

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

One Response

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

4 × 1 =