نومبر 23, 2024

سیاسی دھند میں فیصلوں کا فقدان

تحریر: قادر خان یوسفزئی

جمہوری نظام میں عام انتخابات کا مقررہ مدت میں ہونا ایک روایت ہے۔ ہر نئی حکومت آنے کے بعد یہی خیال کیا جاتا رہا ہے کہ عام انتخابات کے نتیجے میں قوم سے اس جماعت کو ووٹ دینے کی ضرورت ہوتی ہے جسے وہ اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ جہاں ووٹر اس بات میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے کہ کون منتخب ہوتا ہے، انتخابات ان کی رائے کا واضح اظہار قرار دئیے جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے اختلافات کے نتیجے میں کوئی ایک وزیر اعظم اپنی متعین مدت پورا نہیں کرسکا تاہم بر وقت اقتدار کی منتقلی گذشتہ ادوار میں ضرور ہوئی، گذشتہ دور حکومت اور حالیہ دور میں قبل از وقت عام انتخابات کرانے کی کوششیں کامیابی نہیں ہوسکی، سیاسی جماعتوں کی سیاسی معاملے پر سیاسی رائے منقسم ہے اور اتفاق رائے کا فقدان ہے۔ قبل از وقت انتخابات ملک و قوم کی ضرورت ہیں یا نہیں، اس کا فیصلہ عوام کے بجائے وہ لیڈر کرتے ہیں جن کی رائے میں حکومتوں کو بچانے کے بجائے گرانے کی پالیسی بھی اختیار کی جاتی ہے اور سیاسی اختلافات کو ایوانوں میں مذاکرات سے حل کرنا ان کی ترجیح نہیں۔
عمران خان کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے بعد بدل تو دیا گیا لیکن سیاسی بحران بدستور جاری ہے۔ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معاشی و سماجی بحران سر اٹھائے ہوا ہے۔ پی ٹی آئی کو اقتدار سے محروم کرنے کے بعد سے قائم ہونے والی پی ڈی ایم حکومت کے اندر بھی دراڑیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ دوسری جانب ایندھن کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی نہ ہونے کے باعث مہنگائی نے ہر طبقے کو پریشان کر رکھا ہے۔ عوامی غم و غصے کو کم کرنے اور عام انتخابات میں بڑے وعدوں کے ساتھ دوبارہ جانے کیلئے دورانیہ کم رہ گیا ہے لیکن بڑھتا سیاسی بحران کسی صورت ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ امریکی مبینہ سازش، فوجی قیادت کی من پسند نامزدگی، حساس اداروں کے ساتھ کشیدہ تعلقات، زر مبادلہ کی کمی اور قرضوں کی ادائیگی کیلئے بے یقینی کی فضا سمیت ہر سیاسی جماعت کے رہنماؤں میں بھی اختلافات کی شدت کو بھرپور طریقے سے بڑھایا گیا۔ سیاسی عدم استحکام سے جڑے معاشی بحران کا حل قبل از وقت انتخابات بتایا جا رہا ہے لیکن اتحادی حکومت اسے تسلیم نہیں کر رہی بلکہ ماہ اکتوبر 2023میں ہی نگران حکومت اور ڈیجیٹل مردم شماری ہونے پر انتخابی حلقے تشکیل دئیے جانے کے بعد عام انتخابات کرانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔
بد قسمتی سے پی ٹی آئی قیادت نے سیاست اور ریاستی معاملات میں امریکہ مخالف جذبات کو مزید ابھارا، اسٹیبلشمنٹ کے خلاف محاذ آرائی میں کافی آگے بڑھ گئے، انہوں نے اپنے بڑے سیاسی جلسوں اور مظاہروں کی سیریز میں سودے بازی کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی، یہاں تک کہ نئی حکومت کو امریکہ کا غلام کہنے سے لے کر اعلیٰ فوجی قیادت کو میر جعفر، میر صادق کے شرم ناک الزامات لگانے کے علاوہ بھارت اور مودی سرکار کے تعریفوں کے پل بھی باندھے۔ روس،یوکرین تنازع میں پاکستان کی غیر جانب دارنہ پالیسی کو عالمی سطح پر متنازع بنانے کی کوشش کی،آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کو سبوتاژ کیا گیا جس کے نتیجے میں معاشی بارودی سرنگوں کی وجہ سے ملکی معیشت سنبھلنے کے بجائے مسلسل گراؤٹ کا شکار ہے۔ ملکی معاشی بحران ہر روز گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر تیزی سے خشک ہو رہے ہیں، اور درآمدی بلوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ بحران معیشت کے تمام شعبوں کو متاثر کر رہا ہے۔ بنیادی فصلوں کی پیداوار میں کمی آ رہی ہے، اور ملک ان اجناس کا درآمد کنندہ بن گیا ہے جو پچھلے سالوں میں برآمد کی جاتی تھیں۔مینوفیکچرنگ میں نمو بھی جمود کا شکار ہے جس کی وجہ سے بے روز گاری اور غربت کی شرح میں اضافہ ہورہاہے۔
سابق وزیر اعظم اب امریکی مبینہ سازش کے بیانیہ سے واپس لوٹ چکے ہیں، مسلح افواج کے آئینی تقرریوں کے بعد ان کی توپوں کا رخ سابق جنرل (ر) قمر باجوہ کی جانب ہو گیا ہے۔ پی ٹی آئی ابھی تک قومی اسمبلی سے بھی اپنے استعفیٰ منظور نہیں کرا سکی اور اب سمجھا جا رہا ہے کہ سیاسی محاذ پر بے یقینی کا شکار، اپنی قیادت و رہنماؤں کے خلاف مبینہ کرپشن اسکینڈلز اور نازیبا آڈیو لیکس آنے کے بعد، عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرتے کرتے فرسٹریشن کا شکار ہوتے جا رہے ہیں قبل از وقت انتخابات کا ہونا بظاہر ممکن نظر نہیں آرہا لیکن پی ٹی آئی 2018کے عام انتخابات میں عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا نہ ہونے پر ممکنہ سخت تنقید سے بادی النظر بچ گئی ہے۔ کارکردگی کے بجائے انتخابی عمل اب صرف شخصیات کی گرد گھوم رہا ہے، اگر یہ کہا جائے کہ ملک میں عام انتخابات کسی سیاسی منشور کے تحت نہیں بلکہ شخصیات کے بیانیہ پر ہوں گے تو شاید یہ غلط نہ ہو۔ پی ٹی آئی کا بیانیہ اپنے سیاسی منشور کے مطابق مکمل نہیں ہو سکا، ملکی معیشت کی بحالی، ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھر، صدر اور وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانا، گورنر ہاؤسز کی دیواریں گرانا، اربوں ڈالر اور سرمایہ کاری کا ملک میں آنا، اہم ترقیاتی منصوبے، داخلی پالیسی اور خارجہ تعلقات، مقبوضہ کشمیر کو مودی کی بھارتی انتخابات میں کامیابی کے بعد آزادی کا یقین، احتساب کا موثر نظام اور کرپشن ختم ہونے کے بجائے بڑھ جانا۔ عدالتی اور انتخابی اصلاحات کا نہ ہونا سمیت غربت میں کمی سمیت متعدد تمام دعوؤں میں کامیابی نظر نہیں آ رہی۔
موجودہ حکومت ڈالر کی اونچان اور روپے کی گراؤٹ کو کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ توانائی کا بحران آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے، ایندھن کی کمی کو پورا کرنے کیلئے لاک ڈاؤن پالیسی اختیار کی جا رہی ہے، زر مبادلہ کی کمی کے باعث کاروباری طبقہ شدید تحفظات کا شکار ہے پی ڈی ایم حکومت ان تمام مسائل کا ذمے دار ساڑھے تین برس حکومت کرنے والی پی ٹی آئی کو قرار دیتے ہیں اور در پیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے عمران خان کو سیاسی و انتخابی میدان سے باہر کرنا چاہتے ہیں تو دوسری جانب پی ٹی آئی کو یقین ہے کہ قبل از وقت انتخابات کے بعد انہیں دو تہائی اکثریت حاصل ہونے کے بعد اب ٹھوس فیصلے کرکے مملکت کو بحران سے نکال سکے گی۔ سیاسی اکھاڑا سج چکا لیکن کھیل میدان سے باہر کھیلا جا رہا ہے سیاسی طبقے کا کوئی بھی دھڑا عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ سیاسی پنڈت سوال اٹھاتے ہیں اس امر کی کیا ضمانت ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو دو تہائی اکثریت ملے گی۔ اگر دو تہائی حکومت نہیں بن پاتی توکیا نیا سیاسی اتحاد کی مشترکہ حکومت اپنا دور پھر مکمل کر پائی گی یا اس کی بھی کوئی ضمانت نہیں۔ عام انتخابات کیلئے سیاسی جماعتوں کا منشور کیا ہوگا؟

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

five × three =