نومبر 24, 2024

سیاست میں الجھی عدالت

تحریر: عاصمہ شیرازی

زمانہ ہمیں گزار رہا ہے یا ہم زمانے کو۔ دنیا مملکت چلانے کے جن اصولوں کو دہائیاں پہلے طے کر چکی ہم آج بھی انھیں طے کرنے کے لیے واپسی کی مسافت پر ہیں۔

چاند پر پہنچنے والی ریاستیں اگلے 50 سال کے پروگرام مرتب کر رہی ہیں اور ہم 24 یا شاید 25 کروڑ نہ جانے کس خواب میں ہیں۔ اب یہی اندازہ لگا لیں کہ جس ریاست میں بسنے والے مردم ہی مکمل شمار نہ کیے جا سکیں وہ انتخابات میں ووٹر کیسے پورے گنیں گے۔

ہوشربا فیصلوں اور طلسماتی ہندسوں سے جڑے ہفتوں میں جوتشی کے پاس کچھ نیا بتانے کو کب ہے۔ سب دیوار پر لکھا ہے، فیصلے تحریر سے پہلے زبان زد عام اور ارادے اظہار سے پہلے عیاں ہیں۔

بہرحال اس ہفتے جناب چیف جسٹس صاحب رخصت ہو جائیں گے۔ جس ہنگامے پر موقوف تھی گھر کی رونق وہ بالآخر رخصت ہو رہی ہے۔

جاتے جاتے شکوہ کناں ہیں کہ سپریم کورٹ کو سیاسی معاملات میں گھسیٹا گیا۔ اب سیاسی معاملات خود چل کر سپریم کورٹ کے دروازے پر آ جائیں اور زنجیر عدل ہلائیں تو منصف اعلیٰ کیوں نہ دروازے تک آئیں اور سائل کو ’گڈ ٹو سی یو‘ کے الفاظ کہیں اور سائل بھی ایسا کہ جس کے سوال سے قبل منصف ارادہ بھانپ لیں تو ایسا عدل دنیا میں کہاں دستیاب ہے۔

اب جب چیف جسٹس صاحب کی رخصت میں چند روز رہ گئے ہیں تو اتنی اجازت چاہیے کہ منصف اعلیٰ آئین کی دستک پر جواب دے ہی دیں اور آئین کے تقاضوں کے عین مطابق 90 روز میں انتخاب کرا دیں۔ اس سے قبل یہ دستک انھوں نے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلییوں کی تحلیل بالجبر کے بعد سی سی پی او کے مقدمے سے سفارش کردہ ازخود نوٹس لیتے ہوئے سنی تھی۔

جناب چیف جسٹس صاحب ہمیشہ دلوں میں زندہ رہیں گے کہ انھوں نے آئین کے تریسٹھ اے کی تشریح کرتے کرتے اس شق کے ساتھ وہ کیا کہ گویا آئین ہی دوبارہ لکھ ڈالا جبکہ ’ووٹ نہ شمار‘ کرنے کے حکم نامے نے ایک حکومت گرائی اور پھر اسی شق کی حالت درست کرنے کے لیے واپس وہ کچھ کیا کہ آئین یاد کرے گا آخر پالا کس سے پڑا تھا۔

یوں تو ماضی میں آئین کے ساتھ دست درازی کی کئی آمرانہ وارداتیں ہو چکی ہیں لیکن ماضی قریب میں جو ہوا اس کی مثال نہیں ملتی۔

چیف جسٹس بندیال کے ’سنہری‘ دور کی یادیں ہمیشہ امر رہیں گی۔ پارلیمنٹ کے بنائے قوانین کو جس طرح ردی کی ٹوکری کی نذر کیا اور جس طرح از خود نوٹس کے اختیار کو ضابطے میں لانے کی پارلیمنٹ کی کوشش کو ’توہین آمیز اور قابل دست اندازی اختیار‘ گردانا اور کھل کر چیلنج کیا۔ مفادات کے ٹکراؤ کے تحفظ کی اس سے اعلیٰ مثال اور کیا ہو گی۔

سیاسی جماعتیں اور خاص طور ایک انصاف پر مبنی سیاسی جماعت نے عدالت کے دروازے پر جب بھی دستک دی، عدالت نے کبھی انھیں مایوس نہیں کیا۔ یہاں تک کہ عدالت عالیہ میں موجود مقدمات کے ہوتے ہوئے بھی عظمیٰ نے عدالت لگائی اور نو مئی کے واقعات کے بعد بھی چیئرمین تحریک انصاف کو مکمل انصاف فراہم کیا۔

توشہ خانہ ہو یا نیب ترامیم ہوں، آڈیو لیکس ہوں یا صوبائی انتخابات کا معاملہ عدالت سیاسی معاملات سے خود کو بس بچاتی ہی رہی۔ اس حد تک آگے جانے کے باوجود ناشکری سیاسی جماعت والے ہاتھ دھو کر پیچھے پڑے ہیں اور آئندہ چند دن تک مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکنے پر ’توہین آمیز‘ تلواریں تیز کر رہے ہیں۔

جاتے جاتے آئینی مسائل میں الجھائے جانے کا شکوہ بھی کیا مگر کیا یہ بھی سوچا کہ آپ کو الجھانا کس قدر آسان اور سلجھانا کس قدر محال ہے۔

جناب! 54 ہزار مقدمے حل نہ ہو سکتے تھے مگر ان کے گرد جمی گرد تو ہٹائی جا سکتی تھی، سیاسی مقدمات سے معذرت تو کی جا سکتی تھی۔ جو سیاسی جماعت آپ کو سیاست میں الجھا رہی تھی اس کو کبھی ایک بار مسترد کیا ہوتا تو عدل کی لاج رہ جاتی۔

یہ سب اپنی جگہ، اس ہفتے کچھ تیزی کچھ مندی رہے گی۔ صدر مملکت آئین کے آرٹیکل اڑتالیس کی شق پانچ پر دانت تیز کریں گے یا سپریم کورٹ 90 دنوں میں انتخاب کا آئینی تقاضا پورا کرے گی۔ اس میں پہلے آپ اور پہلے آپ رہے گا۔

سوشل میڈیا گیلریز کے لیے منجن کی تیاری البتہ ہو چکی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے روایتی نورا کشتی شروع کر دی ہے، آئین محض نعروں میں رہے گا اور آئین سے بالا معاملات طے ہوتے رہیں گے۔ آئین کی اس کھینچا تانی میں انتخابات کب ہوں گے اور کیسے ہوں گے اس کی یقین دہانی کسی کے پاس تاحال نہیں۔

بندیال صاحب جا رہے ہیں اور قاضی صاحب آ رہے ہیں جبکہ آئین منتظر ہے کہ اس کے تحفظ کی دستک کون سنے گا۔

بشکریہ بی بی سی اردو

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

2 × one =